میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

اسلامی اصطلاحات پر قد غن

کہتے ہیں کہ پہلا گناہ انسان کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ڈال دیتا ہےپھر گناہوں کی کثرت اور اس کی تکرار اور ہٹ دھرمی انسان کے دل کو سیاہ اور سخت بنا دیتی ہے اس حالت میں آدمی خوف خدا سے آزاد ہو جاتا ہے وہ پتھر دل ہو جاتا ہے اور اسے گناہ بے لذت میں بھی لذت آنے لگتی ہے ۔ یہ معاملہ افراد اور اقوام دونوں کے ہی ساتھ ہوتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ یہی حال ہماری قوم کا بھی ہے۔
اب تک تو مغرب یا مغرب کے حلیف ہی خدا ‘رسولﷺ،قرآن ‘شعائر اسلام اور دینی اصطلاحات کو مسخ یا ان کامذاق اڑاتے رہے ہیں مگر اب کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ شعائر اسلام اوردینی اصطلاحات کا مذاق خود مسلمان بھی اڑا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ممبئی میں مسلمانوں کے ایک بڑے سیاسی لیڈر کا انتقال ہو ا جو کہ ممبئی کی سب سے بڑی تعلیمی سلطنت کے سربراہ بھی رہ چکے تھے ۔
حج ہاؤس میں ہونے والے انکے تعزیتی پروگرام میں جو بینر لگا ہوا تھا اس پر ان کے نام کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ لکھاہوا تھا ۔  اللہ رحم کرے ہمارے نزدیک یہی دینی اصطلاحات کا مذاق اڑانا ہے۔ اب جہاں تک مذکورہ سیاستداں یا تعلیمی رہنما کاسوال ہے تو ہمارے علم کی حد تک مرحوم کی کو ئی دینی خدمت تو ہے نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی وزارت کو اپنے تعلیمی اداروں کو پھیلانے اور تعداد بڑھانے کے لئے استعمال کیا تھا۔ او ر اس طرح قوم کی خدمت کی تھی ۔ مگر ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ محمد علی روڈ پر سلمان رشدی کے خلاف احتجاج کرنے والے ۱۲ نوجوانوں کی قاتل پولس کے اقدام کو انہوں نے جائز ٹھہرایا تھا۔
جس طرح ’’رضی اللہ عنہ‘‘ ہمارے نزدیک صرف اور صرف صحابہ کرام کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے ۔ چاہے کوئی کتنا ہی بڑاتابعی یا تبع تابعی ہواس کے لئے ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کااستعمال مناسب نہیں ورنہ پھر صحابی اور تابعی میں فرق کیا رہ جائے گا ۔ جبکہ آجکل یہ وبا پھیل رہی ہے کہ ہرمسلک ، فرقہ ،گروپ اورتحریک کے لوگ اپنے آئمہ، اکابرین یا فرقہ کے بانی کے لئے’’ رضی اللہ عنہ‘‘ کااستعمال کررہے ہیں۔
کمال یہ ہے کہ دینی اصطلاحات کا جو ستیا ناس مارا جارہا ہے ا س پر اب تک کسی جبین پر شکن تک نہیں آئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے علماءکرام ذمہ داران دین و دنیا نے اس صورت حال کو قبول کر لیا ہے، یعنی اب مسلمانوں میں قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ سیاستداں اور سوشل ورکر ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘بنائے جارہے ہیں ۔ شاید سیاست دانوں کی نظر اس پر نہیں پڑی ورنہ وہ فی الفور مر نے کو تیار ہوجائیں۔
ہمارے ایک عزیز ہیں گوکہ وہ مدرسے کے فارغ ہیں مگر آج کل وہ سیکولر دانشور بننے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہو ئے ہیں۔ کچھ روز پیشتر وہ ملاقات کے لئے آئے تو ہم نے اردو ٹائمز میں شائع شدہ’’رحمة اللہ علیہ ‘‘والی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور کہاکہ ماضی قریب سے علامہ اقبال، ؒ مولانا الیاسؒ مو لانا مودودیؒ اور علی میا ں ندویؒ کوہی ’’رحمة اللہ علیہ‘‘لکھا گیا ۔ مگران حضرات کے دینی کارناموں کے باوجود کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جوا ن کے تعلق سے تحفظات رکھتے ہیں یعنی ہر کوئی انہیں ’’رحمة اللہ علیہ‘‘ لکھا جانا پسند نہیں کر تا ۔ پھر ایک سیاستداں کے لئے ’’رحمة اللہ علیہ ‘‘لکھا جانا کہاں تک درست ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ کیا حرج ہے۔’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کا مطلب ہو تا ہے ۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو ۔ ہم نے کہا کہ ہم الفاظ کی نہیں اصطلاح کی بات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اصطلاحات بھی تو ہم نے ہی بنائی ہیں ۔ تب ہم نے ان سے کہا کہ اردو ٹائمز کے مینجنگ ایڈیٹر اور پارٹنر معین احمد صاحب مرحوم کے لئے اب تک ۸/۱۰ تعزیتی جلسے ہو چکے ہیں ۔ معین احمد صاحب مرحوم چونکہ سیاستداں نہیں تھے اس لئے ہمارے نزدیک ایک زیادہ بہتر اور دین و ملت کے لئے ایک مفید شخص تھے آپ ان میں سے ہر جلسے میں مو جود تھے ۔اگر’’رحمة اللہ علیہ‘‘ ایک دعائیہ کلمہ ہے تو کسی بھی تعزیتی جلسے میں ان کے نام کے ساتھ یہ دعائیہ کلمہ کیوں نہیں لکھا گیا؟ موصوف ہماری بات سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ بہت سوچنے کے بعدبھی  وہ ہماری بات کا کو ئی جواب نہیں دے پائے۔
بات دراصل یہ ہے کہ سیاستدانوں کے مصاحبین ایسی ہی عجیب و غریب جسارتوں کے مالک ہوتے ہیں کاش کہ وہ جتنی محبت اور وفاداری اپنے دنیاوی آقا کے لئے دکھاتے ہیں اتنی وفاداری خدا اور رسولﷺ کے لئے دکھائیں تو قوم کی قسمت ہی بدل جائے۔
امریکا اور یو رپ یا مغرب کئی  اسلامی اصطلاحات کو جو بے وزن اور بے اعتباربنارہا ہے وہ بے معنی تو نہیں ہو سکتی۔ پیغمبر اسلام اور نبی آخر الزماں کی جو کردار کشی کی جارہی ہے مسلمانوں کے نزدیک وہ لاکھ سعی لاحاصل سہی مگر کچھ نہ کچھ سوچ کر تو یہ سب کیا جارہا ہوگا ۔ مگر مسلمان پشتینی غلام اپنے مرحوم آقاؤں کی خوشنودی کے لئے اسلامی اصطلاحات کی مٹی پلید کریں تو علما ءکرام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
عقیدت میں غلو مسلمانوں کا بڑاپرانا مرض ہے۔ اسکی ایک مثال ابھی چند ہفتوں قبل ڈونگری پر دیکھنے میں آئی۔ کسی شیعہ گروپ نے حضرت ابو طالب کے یو م پیدائش پر ایک بینر لگا رکھا تھا جس پر لکھا تھا ”حضرت ابو طالب ؑ (AS)‘‘پوچھنے پر ہمیں بتایا گیاتھا کہ A.Sکا مطلب علیہ السلام ہو تا ہے۔اس کے علاوہ کہین آپ کو یاعلی علیہ السلام بھی مل جائے گا۔غور کیجئے اس مرض کی شدت پر ........ سوچیے اختتام کہاں جا کر ہو گا۔
ایک اور مثال پیش خدمت ہے ۔ کچھ ۸/۷ سال قبل ایک دوست نے مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے ایک خاص شاگرد کی ایک کتاب صرف اس لئے پڑھنے کو دی تھی کہ اس میں ایک خاص واقعہ درج تھا ۔ صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ میں نے ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔ میں نے پو چھا کہ حضورﷺ! رہنمائی فرمائیے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی درجنوں  جماعتیں ہیں ۔ ہم پریشان ہیں کہ کس جماعت کاساتھ دیں کس میں شامل ہوں ۔ حضور ﷺ نے فوراً کہا ہے نا اپنی جماعت” جمعیة العلماء“ ۔
 ہم تحریکی ہیں اگر ایسی بات کو ئی تحریکی بھی لکھتا تو ہمارے نزدیک قابل مذمت ہوتا۔کجا جمعیتی۔ غالباً مذکورہ کتاب اس زمانے میں شائع ہو ئی تھی جب عامر عثمانی مر حوم(ملاا بن العرب مکی) تجلی میں جمعیة العلماءکا پوسٹ مارٹم کیا کر تے تھے۔
مضمون نگار :  ابو الجراح۔(ممبئی)
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]