میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

طالبان(افسانہ)

یوں تو دفتر میں یہ خبر کئی ہفتوں سے گردش میں تھی کہ کامران سمیت سینکڑوں لوگوں کی نوکریاں خطرے میں ہیں مگر جس روز کامران کو برخاستگی کا پروانہ ملا اس دن کامران کو بہت زمانے بعد ایک گہرا صدمہ ہوا۔ اسے یوں لگا کہ جیسے وہ اس دنیا کی سب سے ناکارہ شے ہو۔ برطرفی کا نوٹس ہاتھ میں پکڑانے کے ساتھ اسے محافظوں کی نگرانی میں عمارت کے باہر پہنچا دیا گیا۔ کامران کو اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ احتیاط اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جس میں برخاست کیے جانے والے ملازم نے اپنے کمپیوٹر کے ذریعے پوری کمپنی میں وائرس دوڑا دیا یا کسی اور طور سے اپنے اوپر کی جانے والی زیادتی کا انتقام لیا۔ یہ علم رکھنے کے باوجود کامران نے یوں عمارت سے بے دخل کیے جانے پہ اپنی ہزیمت محسوس کی۔
کامران کے اگلے دو دن اس تذبذب میں گزرے کہ وہ کیا کرے۔ کامران نے سوچا کہ نوکری لگی رہے تو کس قدر آسان ہوتا ہے زندگی کی دوڑ میں جتے رہنا۔ روز کا ایک معمول بنا ہوتا ہے اور انسان ان خرافات سے کہ زندگی کا کیا مقصد ہے، ہم کہاں سے آئے ہیں، کہاں جا رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے۔
کامران سوچتا رہا کہ ساٹھ سال کی اس عمر میں نوکری چھٹنے پہ کیا کیا جائے۔ گھر ادا شدہ تھا۔ بچے کالج میں تھے۔ اور اس خانگی فراغت کے ساتھ کامران کی نوکری یوں اچھے طور پہ چھٹی تھی کہ برخاسگتی کے پروانے کے ساتھ اسے ایک موٹا تازہ چیک پکڑایا گیا تھا۔ اب واحد مسئلہ یہ تھا کہ وقت کیسے کاٹا جائے۔ اور وقت کاٹنے کے لیے گھر سے باہر کی مصروفیت ضروری تھی کیونکہ نوکری چھٹنے کے تیسرے روز شازیہ بیگم نے کامران کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ انہیں شازیہ کے کاموں میں کامران کی دخل اندازی بالکل زہر لگتی تھی اور اگر کامران نے کوئی کام تلاش نہ کیا تو شازیہ گھر سنبھالنے کی ذمہ داری کامران کو دے کر خود کوئی نوکری کر لیں گی۔
کامران کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ کامران کوئی کاروبار کرلے۔ کسی دوسرے کے کاروبار میں ملازم لگنے سے زیادہ اچھا ہے کہ انسان خود کاروبار کرے اور دوسروں کو ملازم رکھے۔ بات کامران کے دل کو لگی مگر پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ کس قسم کا کاروبار کیا جائے۔
بہت سوچنے پہ کامران کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ ایسا کاروبار کرنا چاہتا تھا جس میں لوگوں سے خوب ملنا جلنا ہو۔ ساتھ کھانا پینا بھی ہو تو اور بھی اچھا ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ پرچون کی دکان کھولی جائے یا ریستوران۔ پھر رفتہ رفتہ کامران کا ذہن بنتا گیا کہ وہ ایک ریستوران کھولے گا۔
جب کامران نے ریستوراں کھولنے کی خواہش دوستوں کے سامنے ظاہر کی تو ہر شخص نے اپنی رائے بڑھ چڑھ کر بیان کی۔ ۔ کسی نے کہا، ریستوران نہ کھولنا، بہت نقصان کا سودا ہے، پچھتاؤ گے، جمع جوڑی ساری رقم ہاتھ سے نکل جائے گی۔ کسی اور نے سمجھایا، ہاں ریستوران ضرور کھولو۔ مگر کوئی نئی چیز سامنے لاؤگے تو ریستوران بہت چلے گا۔
غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں!!!
پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ کامران کی ملاقات شفیق سے ہو گئی۔ شفیق کی ساری عمر ریستوران کے کاروبار میں گزری تھی۔ وہ ابھی بھی ایک ریستوران کا مینیجر تھا اور ایک عرصے سے خود اپنا ریستوران کھولنے کی خواہش دل میں رکھتا تھا۔ مگر شفیق کے پاس اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جیب میں رقم نہ تھی۔ کامران کی ملاقات شفیق سے یوں ہوئی کہ جیسے پھکڑ تجربہ، غیر تجربہ کار سرمائے سے مل جائے۔ اب کامران اور شفیق باقاعدگی سے ملنے لگے۔ وہ دیر تک ریستوران کھولنے کی جزئیات پہ غور کرتے۔ اور پھر رفتہ رفتہ ان کی گفتگو میں ریستوران کے خد و خال واضح ہونا شروع ہو گئے۔ریستوران میں کس قسم کے کھانے ہوں گے؟ ریستوران میں دیسی صحت بخش کھانے ہوں گے۔ کیا دیسی صحت بخش کھانے کی ترکیب اندرونی تضاد رکھتی ہے؟ نہیں، دیسی کھانا صحت بخش ہوسکتا ہے اگر کم چکنائی سے تیار کیا جائے۔ کیا ریستوران تینوں وقت کھانے کے لیے کھلے گا؟ نہیں ریستوران صرف ظہرانے اور عشائیے کے لیے کھلے گا اور اوقات کار محدود ہوں گے۔ باورچی کا انتظام کیسے کیا جائے گا؟ شفیق کئی باورچیوں کو جانتا ہے وہ انتظام کر لے گا۔ ریستوران میں کتنے ملازم ہوں گے؟ ابتدا ءمیں باورچی کے علاوہ دو اور ملازم ہوں گے۔ ساتھ کامران اور شفیق بھی لگے رہیں گے۔ شروع شروع میں کامران شفیق کے ساتھ ساتھ ہوگا لیکن ساری باتیں سمجھ جانے پہ ایک وقت کے کھانے پہ کامران مینیجری کرے گا اور دوسرے وقت شفیق۔
یہاں تک تو ساری باتیں افہام و تفہیم سے طے پا گئیں۔ مگر ریستوران کے نام کا سوال اٹھا تو کسی نام پہ اتفاق نہ ہو پایا۔گھسے پٹے ناموں یعنی تاج محل، پیکاک، مینار، دریا سے لے کر چونکا دینے والے نام مثلا لالو کھیت، املی، ملاقات وغیرہ پہ خوب بحث ہوئی مگر کسی ایک پہ کامران اور شفیق متفق نہ ہو پائے۔
پھر ایک ایسے روز جب گلابی جاڑوں کے دن بارش ہونے کے ساتھ سخت سردی میں تبدیل ہو رہے تھے اور باہر کی ٹھنڈک سے کھڑکیوں پہ بھاپ جم چکی تھی کامران کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر ریستوران کا چونکا دینے والا نام ایسا ہو جو در نوک زباں ہو تو عوام الناس میں اس کی قبولیت آسان ہو گی۔ تو پھر ریستوران کا نام ”طالبان ریسٹورنٹ“ کیسا رہے گا۔
صحت مند دیسی کھانوں کا شاندار مرکز،
”طالبان ریسٹورنٹ“
ماؤنٹین ویو۔سان فرانسسکو، امریکا
پہلے تو کامران کو ریستوران کے اس نام پہ بہت ہنسی آئی مگر پھر اس نام کے فائدے سوچ سوچ کر یہ ارادہ اس کے ذہن میں پختہ ہونا شروع ہو گیا کہ ریستوران کا نام طالبان ہی ہونا چاہیے۔ اس نے جھٹ شفیق کو فون ملا دیا۔ شفیق نے اس تجویز کو ایک مذاق کے طور پہ لیا۔ مگر کامران بالکل سنجیدہ تھا۔ کامران نے شفیق کو ایک دن کا موقع دیا کہ وہ اس تجویز پہ سنجیدگی سے غور کرے۔ یا تو شفیق اس ٹکر کا دوسرا نام لائے ورنہ ہار مان جائے اور طالبان ریستوران کو خدمت کا موقع دے۔
یہ نام شفیق کو تو بالکل نہ بھایا تھا مگر جب شفیق نے اس کا تذکرہ اپنی بیوی سے کیا تو بیگم صاحبہ نے نام کو بہت پسند کیا۔ اور یوں 4جولائی کے روز ماؤنٹین ویو کی ایک سڑک پہ ”طالبان ریسٹورنٹ“کھل گیا۔ نام اچھوتا تھا اس لیے ذرا سی دیر میں ریستوران کا چرچا ہو گیا۔ لوگ تجسس میں وہاں آتے اور پھر احمد شاہ نامی باورچی کے کمال کھانے کھا کر ریستوران کے باقاعدہ گاہک بن جاتے۔ مگر ہر نیا آنے والا شخص کامران اور شفیق سے یہ سوال ضرور کرتا کہ انہوں نے اپنے ریستوران کے لیے یہ نام کیوں چنا تھا؟؟؟
 صرف ریستوران کا نام ہی اچھوتا نہ تھا بلکہ یہاں کھانے بھی عجیب و غریب ناموں والے تھے۔ بن لادن قورمہ، ملا نہاری، الزواہری پلاؤ، تورا بورا لیمونیڈ، وغیرہ وغیرہ۔ نان کی دو قسمیں تھیں، امر بالمعروف سادہ نان اور نہی عن المنکر روغنی۔ ”طالبان ریسٹورنٹ“ میں اس قسم کی آوازیں سنائی دیتیں کہ ایک بن لادن ، دو پلیٹیں زواہری، دو امربالمعروف اور دو نہی عن المنکر، اور تورا بورا کے دو گلاس مگر برف کم۔
پھر جب شہر کے سب سے بڑے اخبار میں ”طالبان ریسٹورنٹ“ پہ تبصرہ چھپا تو ریستوران کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اب دیسیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں گورے، کالے، اور چینی بھی نظر آنے لگے۔ اب جو سوال پوچھے جاتے وہ اور بھی تیکھے ہوتے۔
کیا تم لوگ طالبان سے کسی قسم کی ہمدردی رکھتے ہو؟؟؟
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پہ حملے کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟؟؟
کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایمن الزواہری  کہاں چھپا ہوا ہے؟؟؟
کیا پاکستان نے جیرانیمو آپریشن میں حصہ لینے والے ہیلی کاپٹر کی دم پہ چین کو رسائی دی تھی ؟؟؟
کامران اور شفیق وضاحتیں کرتے نہ تھکتے کہ انہوں نے ریستوران کا نام یونہی روز کی خبروں سے متعلق ہو کر رکھ لیا تھا۔ نہ انہیں طالبان میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی سیاست میں۔
مگر کامران اور شفیق کی وضاحتیں دیر تک کارگر نہ رہیں اور ایک دن کامران کو اپنی گاڑی کے  وائپر کے نیچے ایک رقعہ ملا جس پہ انگریزی جلی حروف میں لکھا تھا کہ :”امریکہ میں طالبان ک ٹھکانہ بند کرو، ورنہ۔۔۔۔۔“
کامران رقعہ لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ پولیس نے کاغذ کا بطور معائنہ کیا مگر کسی نتیجے پہ نہ پہنچ پائی۔ دو دن کے بعد پولیس کا ایک افسر ریستوران پہنچ گیا۔اس افسر نے پوری سنجیدگی سے شفیق سے پوچھا کہ آخر کس عقلمند نے ان حالات میں انہیں ریستوران کا یہ نام رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
یہ تو ایسا ہے کہ جیسے دوسری جنگ عظیم کے دوران کوئی شخص نیویارک میں ناٹزی نامی ایک ریستوران کھول لیتا۔
شفیق کے پاس افسر کی اس بات کا کوئی مدلل جواب نہ تھا۔ واحد جواب ریستوران کے بہی کھاتوں میں تھا کہ ریستوران خوب چل رہا تھا اور شاید اپنے نام کی وجہ ہی سے اس قدر نفع بخش تھا۔
کامران نے دھمکی کے اس نوٹ کو کئی گنا بڑا کیا اور ایک فریم میں جڑ کر اسے ریستوران کی ایک دیوار پہ لگا دیا۔
طالبان ریستوران کے روز کے گاہک اس دھمکی بردار رقعے کو دیکھ کر اور بھی محظوظ ہوئے۔ انہوں نے کامران اور شفیق سے ہمدردی کا اظہار کیا اور اپنی پوری معاونت کا یقین دلایا۔
بات آئی گئی ہو گئی۔ ”طالبان ریسٹورنٹ“  کا کاروبار بڑھتا رہا۔ شفیق اور کامران نے برابر والی دکان بھی کرائے پر لے لی اور ریستوران کا رقبہ دگنا کر دیا۔ اب ملازمین کی تعداد بھی تین سے بڑھ کر دس ہو چکی تھی۔
ریستوران کی منفعت کے ساتھ چندہ جمع کرنے والے بھی شفیق اور کامران کے گرد منڈلانے لگے۔ یہ دونوں بھی دریا دلی سے کام لیتے اور خیر کے کسی کام میں ہاتھ پیچھے نہ رکھتے تھے۔
پھر ایک روز پاکستان سے فون آیا کہ کامران کے والد کو دل کا دورہ پڑا تھا اور ڈاکٹروں نے ہدایت کی تھی کہ وہ بائی پاس جراحی کرالیں۔ اس روز ریستوران بند کرنے کے بعد کامران اور شفیق دیر تک باتیں کرتے رہے۔ کامران مہینے بھر کے لیے پاکستان جانا چاہتا تھا۔ شفیق نے اسے یقین دلایا کہ کامران کی غیر موجودگی میں وہ ایک مینیجر کی مدد سے ریستوران کا انتظام سنبھال سکتا تھا۔ وہ دونوں تمام کاروباری معاملات سوچ سمجھ کر کرنے کے عادی تھے چنانچہ وہ دیر تک اس نئے انتظام سے متعلق بحث کرتے رہے۔ غرض کہ کاروباری معاملات نمٹاتے کامران کو ہفتہ بھر لگا۔ پھر وہ پاکستان روانہ ہو گیا۔
پاکستان میں کامران کے والد کی جراحی تو کامیاب ہو گئی مگر جراحی کے بعد وہ ہوش میں نہ آ پائے اور کوما میں چلے گئے۔ انہیں مصنوعی معاون نظام پہ رکھ دیا گیا۔ اور اسی بھاگ دوڑ میں کامران کی چھٹیوں کا پورا مہینہ گزر گیا۔ ڈاکٹر ہر روز کامران کو یہی دلاسہ دیتے کہ وہ امید رکھے اور اللہ کی رحمت کا انتظار کرے۔ کامران نے شفیق کو فون کیا اور بتایا کہ وہ بتائے گئے وقت پہ واپس نہ آ پائے گا۔ کامران نے کہا کہ وہ مزید ایک ماہ کی مہلت چاہتا تھا۔ شفیق کے پاس آمادگی ظاہر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
ہفتہ بھر اور گزرا اور کامران کے والد کو ہوش نہ آیا تو رشتہ دار اور احباب مایوس ہونے لگے۔ وہ چہ مہ گوئیاں کرتے کہ آیا اب مصنوعی معاون نظام کو ہٹا دینے کا وقت آ گیا تھا۔ فیصلہ کامران کو کرنا تھا۔ اور کامران کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل کام تھا۔ یہ فیصلہ کہ وہ اپنے والد کو آہستگی سے موت کے منہ میں جانے دے۔ کہ جب کامران بچہ تھا تو وہ شخص کامران کی زندگی میں سب سے طاقتور آدمی تھا جو کامران کی انگلی پکڑ کر چلتا تو کامران کو تحفظ کا احساس ہوتا۔ پھر سال گزرتے گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آدمی کے جسم سے اس کی طاقت نکلتی گئی یوں جیسے کسی غبارے سے ہوا نکلتی جائے۔ اور اب یہ وقت تھا کہ ماضی کا وہ طاقتور شخص بستر پہ لاچار پڑا تھا اور ایک مصنوعی معاون نظام کے سہارے زندہ تھا۔ اور اب یہ فیصلہ کامران کو کرنا تھا کہ آیا اب یہ امید چھٹ چکی ہے کہ وہ شخص پھر سے زندگی کے واضح دائرے میں آ سکے گا، اور اس وجہ سے اس کا مصنوعی معاون نظام ہٹا کر اسے موت کے آغوش میں جانے دیا جائے؟ کامران کی رات کی نیندیں اڑ گئیں۔ اتفاق سے اسپتال میں کامران کو عبدالحمید نامی ایک ڈاکٹر ملا جو اس طرح کے کئی فیصلے دیکھ چکا تھا۔ ڈاکٹر عبدالحمید نے کامران کو سمجھایا کہ فیصلہ مشکل ہے مگر کامران انسان کی طبعی زندگی کی معیاد پہ غور کرے اور پھر اپنے والد کی عمر پہ۔ اگر کسی طرح سے کامران کے والد ہوش میں آ بھی گئے تو اس بات کا کتنا امکان تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں پائوں پہ کھڑے ہو پائیں گے۔ اور پھر ایک ایسے دن جب اسپتال کے باہر کی فضا جمعے کے اذانوں سے بھری ہوئی تھی کامران کے والد کا مصنوعی معاون نظام ہٹا دیا گیا۔ انہوں بے ہوشی کی حالت میں سانس کھینچنے کی آخری کوشش کی اور پھر ان کی سانس اکھڑ گئی۔
سوئم کے اگلے روز کامران واپس امریکہ روانہ ہو گیا۔
جہاز میں کامران کا وقت سوتے جاگتے گزرا۔ سان فرانسسکو پہنچنے پہ امیگریشن کے کاؤنٹر پہ موجود افسر نے کسی قدر بے دلی سے کامران سے پوچھا کہ وہ امریکہ سے باہر کہاں گیا تھا۔
پاکستان، کامران نے جواب دیا۔
اب افسر کی دلچسپی کامران میں بڑھ گئی تھی۔
تم کتنا عرصہ پاکستان میں رہے، افسر نے کامران کے پاسپورٹ کے صفحات الٹتے ہوئے اس سے پوچھا۔
دو ماہ، کامران نے مختصر جواب دیا۔
افسر نے کامران کے پاسپورٹ میں آمد کی مہر لگائی اور پھر اس سے کہا کہ وہ آگے بائیں طرف ایک کمرے میں اپنا اندراج کروائے۔ کامران کسی قدر تذبذب میں تفتیش کے کمرے میں پہنچ گیا۔
وہاں نئے سرے سے کامران سے پوچھ گچھ شروع ہوئی اور جب تفتیش کرنے والے افسر کو معلوم ہوا کہ کامران پشاور میں دو ماہ گزار کر آیا تھا تو تفتیش کا دائرہ کار اور بھی بڑھ گیا۔
دو گھنٹے تک کامران سے مستقل پوچھ گچھ ہوتی رہی۔
کامران نے تعلیم کہاں سے حاصل کی تھی؟ وہ امریکہ کب آیا تھا؟ کہاں کہاں رہا تھا؟ کامران نے کہاں کہاں ملازمت کی تھی؟ وہ پاکستان کس باقاعدگی سے جاتا رہا تھا؟ اپنے حالیہ سفر میں وہ پاکستان کے کن شہروں میں گیا تھا؟ وہ وہاں کس کس سے ملا تھا؟
دو گھنٹے کی تفتیش کے بعد ایک وقفہ آیا۔ کامران کو پانی پینے کی مہلت دی گئی۔ مگر پھر تفتیش کا اگلا مرحلہ فورا ہی شروع ہو گیا۔
اب کی بار تفتیش کرنے والے دو افسر اپنے ہاتھ میں کئی کاغذات لیے کھڑے تھے اور ان کاغذات کو دیکھ کر کامران سے سوالات کر رہے تھے۔
تم صالح کو کیسے جانتے ہو؟
کون صالح؟
یاد کرو کہ کیا تم کسی صالح کو جانتے ہو؟ تفتیش کرنے والے افسر نے کسی قدر طنز سے کہا اور ایک لمحے کے وقفے کے بعد ٹھہر ٹھہر کر پوچھے جانے والے شخص کا پورا نام لیا۔ صالح العمودی۔
اچھا صالح العمودی۔ کامران کو یاد آگیا۔ یہ تو بڑی پرانی بات ہے۔ وہ دو سال پہلے مجھے مسجد میں ملا تھا۔ اس سے میری بات چیت رہتی تھی۔ مگر اس سوال کا کیا مطلب ہے کہ میں صالح العمودی کو کیسے جانتا ہوں؟ کوئی کسی سے کیسے ملتا ہے؟ لوگ ایک دوسرے سے دوستی کیسے کرتے ہیں؟
زیادہ باتیں نہ بناؤ۔ تمہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ صالح العمودی امریکہ سے جانے کے بعد یمن میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ افسر نے کامران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
تم لوگ کس قسم کی باتیں کر رہے ہو؟ مجھے کیا معلوم کہ صالح العمودی امریکہ سے جانے کے بعد کیا کرتا رہا ہے؟ اور میں تمہاری بات کا کیسے اعتبار کروں کہ صالح یہاں سے جانے کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔
افسر کامران کی آنکھوں میں جھانک کر اس کے ذہن کو ٹٹولنے کی کوشش کرتا رہا۔
پھر جب ایک دوسرے افسر نے اپنی کرسی کامران کی کرسی کی طرف بڑھائی تو پہلا افسر پیچھے ہٹ گیا۔
کامران!!! دوسرے افسر نے کامران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تم پچھلے کئی سالوں سے ایسی تنظیموں کو چندے دے رہے ہو جو بین الاقوامی دہشت گردی کی کاروائیوں میں شریک ہیں۔
یہ قطعی بے بنیاد الزام ہے، کامران نے کسی قدر غصے سے کہا، میں نے کبھی کسی ایسے ادارے کو چندہ نہیں دیا جو دہشت گردی کی کاروائیوں میں شریک رہا ہو۔
ٹھہرو، میں تمھیں بتاتا ہوں، افسر نے اطمینان سے کہا اور میز سے کاغذات کا ایک پلندہ اٹھا لیا۔ کاغذات پلٹتے ہوئے وہ ایک کاغذ پہ ٹھہرگیا۔ پھر اس نے کامران کو گنانا شروع کیا۔
حزب التحریر۔                              ( ایک ہزار ڈالر۔)
اسلامک ایسوسی ایشن فار پیلیسٹائن۔     ( پانچ سو ڈالر۔)
اقدار اسلام فاؤنڈیشن۔                     (ایک ہزار ڈالر۔)
نشاہ ثانیہ فاؤنڈیشن۔                        ( پانچ سو ڈالر۔)
ہولی لینڈ فاؤنڈیشن۔                         (دو ہزار ڈالر۔)
یہاں پہنچ کر افسر ٹھہرگیا اور اس نے سر اٹھا کر کامران کی طرف اس کے رد عمل کے لیے دیکھا۔
ان میں سے کوئی گروہ دہشت گردی میں شریک نہیں ہے۔ کامران نے جواب دیا۔ یہ ساری تنطیمیں بے گھر لوگوں کی فلاح کے لیے، بچوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔
کامران، تم مستقل اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کی کوشش کرتے ہو۔ تمھیں اچھی طرح پتہ ہے کہ ان تنظیموں کے رابطے دہشت گردوں سے ہیں اور ان میں سے اکثر کو حکومت کی طرف سے کالعدم قراد دیا جا چکا ہے۔
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارے ریستوران کے مستقل گاہک کون لوگ ہیں؟ پہلے افسر نے کامران سے پوچھا۔
کامران چڑ گیا۔
یہ کس قسم کا سوال ہے؟ میں حساب نہیں رکھتا کہ کون لوگ باقاعدگی سے ریستوران میں آ رہے ہیں۔ ریستوران کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ جس کا دل کرے وہ آ جائے۔
دوسرے افسر نے اپنی بھنویں سکیڑتے ہوئے کامران سے کہا۔
کامران!!! تم اتنے بھولے بننے کی کوشش نہ کرو۔ تمھارے ریستوراں میں ایسے کئی لوگ کھانا کھاتے ہیں جو ہماری نظروں میں مشکوک ہیں۔ بیرون ملک ان لوگوں کے رابطے دہشت گرد تنظیموں سے ہیں۔
کامران نے اس حماقت کی بات کا جواب دینا مناسب خیال نہیں کیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور غیر یقینی میں اپنا سر ہلانے لگا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سوالات کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔
تم ہر سال دس ہزار ڈالر پاکستان بھیجتے ہو اور پچھلے سال جون میں تم نے پچیس ہزار ڈالر پاکستان بھیجے۔ آخر کیوں؟ کامران سے پوچھا گیا۔
اگر تمہیں اتنا کچھ پتہ ہے تو پھر تمہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ میں یہ رقم اپنے والدین کو بھجواتا ہوں، کامران نے جھنجھلاہٹ سے کہا۔
تم جھوٹ بول رہے ہو۔ یہ رقوم جس بینک اکاؤنٹ میں منتقل کی جاتی رہی ہیں وہ اکاؤنٹ غیر قانونی دھندوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

کامران غصے میں کھڑا ہو گیا۔ تم لوگ جھوٹ بول رہے ہو۔ تم لوگوں نے مجھے یہاں غیر قانونی طور پہ رکھا ہوا ہے۔ آخر پچھلے چار گھنٹوں سے تم یہ تفتیش کس بنیاد پہ کر رہے ہو؟ تم لوگ مجھ سے کس بات کا اعتراف کروانا چاہتے ہو؟ یہ اعتراف کہ میں دہشت گرد ہوں، یہ اعتراف کہ میں ہر سال جو رقم پاکستان بھجواتا ہوں اس رقم سے دہشت گردی کے کیمپوں میں نوجوانوں کو تربیت دی جاتی ہے؟ تو کان کھول کر سن لو کہ ایسا ہی ہے۔ ہاں میں دہشت گرد ہوں!!!ہاں میرا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا دہشت گردوں کے ساتھ ہے!!! ہاں میں رقم دہشت گرد تنظیموں کو بھجواتا رہا ہوں!!!

اگلے دن اخبارات کامران کی گرفتاری کی خبر سے بھرے ہوئے تھے۔ ٹی وی پہ بھی مستقل یہ خبر آ رہی تھی۔ ایف بی آئی نے طالبان کا سلیپر سیل ماؤنٹین ویو میں دریافت کر لیا تھا۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ لوگ طالبان نامی ریستوران کے سائے میں کام کر رہے تھے۔ کامران اسلامی دہشت گرد تنظیموں کو رقوم بھجواتا رہا تھا۔ وہ ماضی میں ایسے لوگوں سے ملتا رہا تھا جن کا تعلق مشکوک اسلامی گروہوں سے تھا۔ ساتھ کامران کا یہ اعتراف قوسین میں درج تھا کہ ہاں وہ واقعی دہشت گرد تھا۔ اور اس اعتراف کی ویڈیو ٹی وی پہ بھی بار بار دکھائی جارہی تھی۔
افسانہ  نگار :  علی حسن سمند طور۔
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]