میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

بھاری سجدہ(دوم)!!!

ڈاکٹر جِفری لانج (Dr. Jeffery Lang) امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک کنساس یونیورسٹی میں ریاضیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اُن کے مذہبی سفر کا آغاز تو ۳۰ جنوری ۱۹۵۴؁ کو ہی ہو گیا تھا جب وہ  برج پورٹ کے ایک  رومن کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی  اٹھارہ سالوں میں اپنے مذہبی عقیدے سے وابستہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے عقیدہ میں پختگی کی بجائے اپنے مذہب کے خدا اور  عیسائیت  سے متعلقہ سوالوں کے دیئے ہوئے غیر منطقی جوابوں  میں الجھتے چلے گئے۔
 اپنے اسلام لانے سے متعلق کہانی کا ذکر کرتے ہوئے لانج کہتا ہےکہ  ۱۹۶۰؁  کی دہائی کے اواخر اور ۱۹۷۰؁ کی دہائی کے ابتدائی زمانے میں دوسرے ہزاروں بچوں کی طرح اُس کے ذہن میں بھی مذہب، معاشرہ اور سیاست کے  بارے میں ویسے ہی سوال اُٹھتے تھے۔ لانج کہتا ہے کہ مجھے کیتھولک  چرچ کے ساتھ ساتھ اُن مافوق الفطرت اقدار جن کا احترام  اُن کے بارے میں زبان  کھولنے  کی بھی اجازت نہیں دیتا ،  سے بغاوت سی ہو چلی  تھی۔
جیسے ہی لانج اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچا وہ  خدا کے وجود سے انکاری ایک مکمل دہریئے کا روپ دھار چکا تھا۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ اگر کسی خدا کا وجود ہے، اور وہ خدا رحیم و کریم بھی ہے تو پھر کیوں انسانیت   کرہ ارض پر ان  مصائب اور عذابوں میں مبتلا ہے۔  کیوں وہ ہمیں سادگی کے ساتھ  یہاں سے اُٹھا کر جنت میں منتقل نہیں کر دیتا؟ کیوں  دکھوں اور مصیبتوں کو جھیلنے کے لیے اتنے انسان تخلیق کرتا جا رہا ہے؟ یہ تھے وہ سوال جو لانج کے ذہن میں اٹھا کرتے تھے۔لانج اپنی  پی ایچ ڈی کی ڈگری اور پروفیسر شپ کے حصول  تک ایک ملحد اور دہریہ ہی رہا۔
سان فرانسسکو کی یونیورسٹی میں ریاضیات  کے نوجوان پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے ہوئے  اُس کی ملاقات یونیورسٹی کے چند مسلمان  طلباء سے ہوئی۔ اُس زمانے میں اُسے اپنا نظریہ بدلنا پڑا کہ کم از کم خدا ایک حقیقت ضرور ہے ۔ اوراتنی سی  راہ دکھانے میں اُس کے انہی  مسلمان  طلباء اور دوستوں کا ہاتھ تھا جو اُس سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لانج کہتا ہے ہم مذہب پر  ڈھیروں باتیں کرتے، میرے  کسی بھی سوال کے جواب میں وہ مجھے ایسا کافی اور شافی جواب دیتے کہ میرے دماغ  پر چھائے ہوئے  شکوک کے بادل چھٹتے جاتے۔
اُسی زمانے میں ڈاکٹر جفری لانج کی ملاقات ایک سعودی نوجوان محمود قندیل سے  ہوئی۔ یہ خوبرو نوجوان اپنی کلاس میں داخل ہونے کے پہلے دن ہی سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا چکا تھا۔ ایک بار لانج نے اُس سے ایک طبی تحقیق کے بارے کوئی سوال کیا جس کا جواب محمود قندیل نے پورے اعتماد کے ساتھ شستہ  انگریزی میں دیا ۔  بعد میں کوئی بھی ایسا شخص نا تھا جو محمود قندیل کو نا جانتا ہو، ایک عام آدمی سے لیکر  پولیس کے سربراہ  اور شہر کے میئر تک سب اُس سے واقف ہوچکے تھے۔ وہ اپنے دوستوں اور اُستادوں کو اکٹھا کرتا اور کسی بھی جگہ نکل کھڑا ہوتا تھا۔ محفلوں کو جگمگا دینا تو معمولی بات تھی وہ تو جنگل کو بھی منگل بنا دیتا تھا۔ اُس کی بنائی ہوئی محفل میں خوشی اور مسرت چھوٹے الفاظ ٹھہرتے تھے ، بس ہر طرف قہقہے ہی قہقہے ہوتے تھے۔ اور ایک بار کسی ایسی ہی ایک محفل کے اختتام پر قندیل نے چپکے سے ڈاکٹر لانج کے ہاتھ میں قرآن مجید کا ایک نُسخہ  اور اسلام کے بارے میں چند دوسری  تعارفی کتابیں تھما دیں۔  اور یہیں سے لانج  کی زندگی میں تبدیلی کا آغاز شروع ہوا۔
لانج نے قرآن مجید کا مطالعہ اپنی ذاتی شوق سے شروع کیا۔ اس دوران  وہ یونیورسٹی کے مسلمان طالبعلموں کو ایک ہال میں قائم مسجد کی طرف آتے جاتے بھی دیکھتا رہتا تھا۔ لانج کے گرد ایک غیر مرئی حصار بن  رہا تھا اور وہ اس حصار  کی لپیٹ میں آ رہا تھا۔ شروع میں  لانج نے قرآن مجید کی پہلی دو سورتیں پڑھیں۔ حقیقی معنوں میں ان دو سورتوں نے اُس کی زندگی پر اپنے اثر دکھانے شروع کر دیئے تھے۔
لانج کہتا ہے کہ مصور کے اختیار میں ہوتا ہے تصویر کی آنکھوں کو کسی بھی طرف متوجہ دکھا دے، مگر ایسا کونسا مصنف ہے جو ایسی کتاب لکھے جس میں آپ کے ہر سوال کا جواب موجود ہو؟ میں قرآن کو پڑھتے ہوئے اس پر اعتراض اور اس کے کے بارے میں سوالات اُٹھایا کرتا تھا اور کچھ وقت کے بعد یا دوسرے دن قرآن پڑھتے ہوئے اُن سوالوں کے جواب اپنے سامنے پاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ قرآن کا مصنف میرے ذہن کو پڑھ رہا ہے۔ میرے کسی بھی اعتراض کا جواب وہ اگلی سطروں میں ڈال دیتا تھا جو میں  نے پڑھنی ہوتی تھیں۔ قرآن پڑھتے ہوئے میری ملاقات میری اپنی ذات اور میری اپنی ذات سے متعلقہ امور  سے ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر لانج کہتا ہے کہ تم قرآن کو بے دھیانی سے نہیں پڑھ سکتے،  ماسوائے اس کے کہ قرآن کو مکمل توجہ کے ساتھ پڑھو۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے  یا تو تمہیں  خود سپردگی کے ساتھ ہار ماننا پڑے گی یا پھر اس سے بغاوت کرنا پڑے گی۔ قرآن اپنی پوری طاقت کے ساتھ تمہیں قائل کرتا  ہے، تمہیں براہ راست جواب دیتا ہے، جوابات شخصی بھی ہو سکتے ہیں اور اجتماعی بھی، تُم سے بحث کرتا ہے،  تم پر تنقید کرتا ہے، تمہیں شرم دلاتا ہے، تمہیں چیلنج کرتا ہے۔ شروع شروع میں تم جب اس کے خلاف ہوتے ہو تو ایک جنگ کا سا سماں بنتا ہے۔ ایسی جنگ جس میں ایک طرف تم ہو تو دوسری طرف قرآن ہے۔ جنگ گھمسان کی تو ضرور ہوتی ہے مگر۔۔۔۔ میری طرف  سے جنگ تو ہمیشہ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ کیونکہ قرآن کا مصنف و خالق مجھے اس قدر جانتا تھا  جتنا میں اپنے آپ کو نہیں جانتا تھا۔
جب ڈاکٹر جفری لانج سے سوال کیا جاتا کہ آخر تمہیں اس قرآن سے اتنی محبت کیسے ہوگئی جب کہ یہ ایک ایسی زبان میں لکھا ہوا ہے جس کے رموز سے بھی تم آشنا نہیں ہو؟  تو وہ یو ں جواب دیتا کہ شیر خوار بچہ کیوں اپنی ماں  کی آواز سے راحت پاتا ہے جب کہ وہ نا ہی تو ماں کی زبان سمجھ سکتا ہے اور اُسے اپنے مُدعا سنا سکتا ہے! اس قرآن نے مجھے جو راحت پہنچائی ہے اور خاص کر ایسے وقت میں جب میں کسی پریشانی میں ہوتا ہوں، میں اُس راحت اور مُحبت کو الفاظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ جفری لانج نے اسلام قبول کرنے کے بعد دو کتابیں  (Struggling to Surrender) اور (Even Angels Ask)لکھیں ، اُس کی تیسری کتاب ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔  یہ کتابیں اُس کے اسلام کی طرف روحانی سفر کی روداد اور اُس کے گہرے فلسفے سے متعلق بتاتی ہیں۔ ڈاکٹر جفری لانج کا مشہور  زمانہ مبلغ اسلام ڈاکٹر جیرالڈ ڈیرکس (المعروف ابو یحییٰ) سے بھی گہرا یارانہ ہے، حتیٰ کہ جفری نے اپنی کتابوں میں ڈاکٹر جیرالڈ ڈیرکس کے اسلام لانے کےواقعات بھی ذکر کیے ہیں۔
آخر الذکر کتاب کا عربی ترجمہ سعودی عرب کے بڑے اخبار میں شائع ہوتا  رہاہے۔  جس میں سے لیا ہوا درج ذیل اقتباس آپ کی توجہ کے لیے پیش خدمت ہے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ جس دِن میں نے اِسلام قبول کیا، اِمام مسجد نے کلمہ پڑھاتے ہی میرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب بھی تھما دی جس میں نماز پڑھنے کا طریقہ درج تھا۔ میں تو حیران تھا ہی مگر مجھے ساتھ لے کر مسجد جانے والے میرے شاگرد بھی کافی پریشان تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں مجھے تلقین کررہا تھا کہ مجھے کسی معاملے میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہر کام کو مرحلہ وار کروں اور اپنے ذہن پر زیادہ دباؤ نہ ڈالوں اور اسلام کے شعار اور فرائض کو آہستہ آہستہ اپناؤں وغیرہ وغیرہ۔ان لوگوں کی پریشانیوں کو دیکھ دیکھ کر تو میں بھی اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا کہ کیا نماز پڑھنا اتنا ہی مشکل کام ہے؟
اپنے شاگردوں کی باتیں اَن سُنی کرتے ہوئے میں یہ طے کر چکا تھا کہ پانچ وقتی نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام تو بغیر کسی تاخیر کے ہی کر دوں گا۔ اور اُس رات کو میں دیر گئے تک صوفے پر ہی ٹکا رہا، بلب کی مدھم روشنی میں کتاب میں دی گئی نماز کی حرکات و سکنات کے نقشوں کا نہ صرف مطالعہ کرتا رہا بلکہ ساتھ ساتھ اُن قرآنی آیات کو بھی یاد کرتا رہا جو مجھے نماز میں پڑھنا تھیں۔ بہت ساری آیات تو مجھے عربی میں ہی پڑھنا تھیں اِس لئے میں وہ سارے کلمات عربی میں ہی یاد کر رہا تھا مگر ساتھ ساتھ اُنکا انگریزی میں ترجمہ بھی دیکھ رہا تھا۔ کتاب کا کئی گھنٹے تک مطالعہ کر نے کے بعد میں اِتنا جان چکا تھا کہ نماز کا پہلا تجربہ کرنے کے لیے  میرے پاس کافی معلومات آچکی ہیں۔ اُس وقت تک نصف رات بھی بیت چکی تھی مگر میں نے سوچا کہ سونے سے پہلے کیوں نہ عشاء کی نماز ادا کر لی جائے۔
واش روم جا کر کتاب کے وہ صفحات جن پر وضوء کا طریقہ درج تھا کھول کر بیسن کے ایک طرف رکھی، اور میں نے مرحلہ وار اور بالترتیب وضوء کرنا شروع کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی باورچی ترکیب کتاب سے پڑھ کر نئی ڈش تیار کر رہا ہو۔ وضو سے فراغت پر پانی کا نل بند کرکے واپس کمرے میں لوٹا تو پانی میرے اعضاء سے فرش پر ٹپک رہا تھا (کتاب میں تو یہی لکھا تھا کہ وضوء کے بعد جسم پر لگے پانی کو خود بخود خشک ہونے دینا مستحب عمل ہے)۔
کمرے کے درمیان میں جا کر اپنے طور پر اخذ کی ہوئی قبلہ کی سمت میں منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔ پیچھے مڑ کر تصدیق بھی کی کہ میرے فلیٹ کا صدر دروازہ اچھی طرح بندبھی تھا کہ نہیں۔ ایک بار پھر قبلہ رو ہو کر متوازی کھڑا ہو گیا۔ ایک گہری سانس لے کر اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر کانوں کے برابر لایا، اور کتاب میں درج شدہ طریقے کے مطابق آہستہ سے اللہ اکبر کہا۔
مجھے اُمید تھی کہ میری حرکات و سکنات اور آوازوں کو سننے والا کوئی نہیں ہے تو پھر اتنی احتیاط اور آہستگی کس بات کی!! میں نے سوچا کیوں نا شرم اور جھجھک کو ایک طرف رکھ کر نماز والا یہ فرض ادا کر ہی لیا جائے ۔ کہ یکایک میری نظر سامنے والے پردے پر پڑی جو کھڑکی سے ہٹا ہوا تھا ۔ اگر کوئی ہمسایہ دیکھ لیتا تو کیا خیال کرتا یہ جان کر ہی میرا بُرا حال ہو گیا۔ نماز کے لیے جو کچھ کر چکا تھا اُس سب کو چھوڑ کر میں کھڑکی کی طرف لپکا، آس پاس نظر دوڑا کر ہر ممکن تسلی کی کہ کسی نے مجھے دیکھا تو نہیں، پھر پچھواڑے میں کھلنے والی میری اِس کھڑکی سے حدِ نظر ویرانی اور خالی پن کو دیکھنے کے بعد میں نے پردے برابر کی اور ایک بار پھر کمرے کے درمیان میں آ کھڑا ہوا۔
اس مرتبہ پھر تسلی کی کہ میں کھڑا تو بالکل ویسے ہی سیدھا ہوں جس طرح کتاب میں لکھا اور کتاب میں بنے نقشہ پر دکھایا گیا تھا۔ ہاتھوں کو بلند کر کے کانوں کی لوؤں کو چھوتے ہوئے قدرے با اعتماد طریقے سے اللہ اکبر کہا۔ لیکن سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہوئے پھر آواز آہستہ کرنا پڑی کہیں کوئی سُن نہ لے۔فاتحہ کے بعد ایک چھوٹی سی سورت بھی عربی زبان میں پڑھی۔ ایک بات کا تو مجھے آج تک یقین ہے کہ اُس رات اگر کوئی عرب باشندہ میری تلاوت سُن لیتا تو ہرگز یہ نہ سمجھ پاتا کہ جو کچھ میں نے پڑھا تھا وہ قرآن شریف تھا۔ اِس چھوٹی سورت کی تلاوت کے بعد ایک بار پھر میں نے آہستگی سے تکبیر کہی، کمر کو جھکاتے ہوئے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے۔ حالتِ رکوع میں بنی اپنی اِس حالت پر مجھے شرم اور خجالت سی ہو رہی تھی،میں آج تک کسی کے سامنے ایسے نہیں جھکا تھا۔ ہاں مگر خوشی اِس بات کی تھی کہ میں کمرے میں تنہا اور اکیلا تھا۔ رکوع میں کئی بار سُبحانَ رَبی العظیم کا فقرہ دہرایا۔ رکوع سے سیدھا ہوتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ پڑھا اور سیدھا کھڑے ہو کر ربنا و لک الحمد بھی کہا۔
اِس سب کچھ کے بعد، اِس مرتبہ تکبیر کہتے ہوئے ایسا لگا کہ دِل ذرا اطمینان سا محسوس کر رہا ہے کیونکہ اللہ اکبر کا فقرہ پہلے کی نسبت زیادہ جلدی سے ادا کیا تھا اور الفاظ کی ادائیگی بھی مجھے بہتر محسوس ہوئی تھی۔ یہاں تک تو جو کچھ ہوا تھا وہ ٹھیک ہوا تھا مگر اب سجدے کا مرحلہ تھا، یہ سوچ کر ہی میں جہاں تھا وہاں ہی رُک گیا۔ میری نظریں اُس جگہ کو گھور رہی تھیں جدھر میں نے اپنا ماتھا جا کر ٹکانا تھا۔ میں نہ صرف کہ اپنے سارے اعضاء کے ساتھ زمین پر جا کر جھکوں گا بلکہ مجھے اپنا ماتھا بھی زمین پر ٹِکانا ہوگا؟ نہیں میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا، اپنے آپ کو زمین پر گرا دوں، یہ مجھ سے نہیں ہو پائے گا۔ اتنی ذلت کہ اپنی ناک زمین پر جا کر رکھوں! یہ تو ایسا لگ رہا تھا کہ غلام اپنے آقا کے سامنے جھکنے جا رہا ہے۔ دِل تو مان ہی نہیں رہا تھا مگر اب یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ گھٹنے بھی اِس مشق کیلئے تیار نہیں تھے۔ اب تو مجھے تصور میں اپنے جاننے والوں اور دوستوں کے قہقہے بھی صاف سُنائی دے رہے تھے۔ وہ میری حرکتوں کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے جب کہ میں اُن کے سامنے احمق بنا ہوا تھا۔ مجھے تو ایسا بھی لگ رہا تھا کہ وہ لوگ اب میرے لیے ہمدردی اور مضحکہ پن کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مجھے گھور رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بیچارہ جیف سان فرانسسکو کے عرب لوگوں کے جادو کا شکار ہو گیا ہے اور میں اُن سے التجاء کر رہا تھا کہ مجھے اِس ذلت اور گراوٹ سے بچا لو ۔
آخر میں نے ایک لمبا سانس لے کر اپنے آپ کو اِس کام کے لیے  تیار کیا۔ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ سر کو جائے  نماز پر جھکا ہی دیا۔ ذہن سے خیالات کو ایک جھٹکا دیکر باہر کیا اور تین بار سُبحانَ ربی الاعلیٰ کے کلمات ادا کیے ۔ سجدہ سے سر اُٹھا کر قاعدہ میں بیٹھا، ذہن کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنی توجہ مکمل طور پر نماز کی طرف رکھی تاکہ یہ عمل جلد سے جلد طے پا جائے۔ اللہ اکبر کہہ کر دوبارہ سرکو زمیں پر جھکا دیا۔ اور جس وقت میری ناک زمین پر لگی ہوئی تھی اُس وقت میں نے بالکل مشینی انداز میں تین بار سُبحان ربی الاعلیٰ بھی کہہ ڈالا۔ اب تو میں تہیہ کر چکا تھا کہ جو کُچھ بھی ہو جائے اِس کام کو ہر قیمت پر پورا کر کے ہی رہوں گا۔
سجدوں سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہتے ہوئے دوبارہ کھڑا ہوا، ذہن کو نماز کی طرف متوجہ کیا تو پتہ چلا کہ ابھی تو نماز کے چار مراحل میں سے صرف ایک مرحلہ طے کیا ہے ابھی تین مراحل تو باقی ہیں۔ اِس سے پہلے کہ میں اپنی عزت، وقار اور مرتبہ سے مجبور ہو کر نماز کو درمیان میں چھوڑ دوں میں بچی ہوئی نماز کو مکمل کرنا چاہتا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر مرحلے کے ساتھ نماز میں میری دلچسپی مزید کم ہوتی جا رہی تھی, آخری سجدہ میں تو میں کافی پُر سکون سا تھا، یہاں تک کہ تشہد اور پھر دائیں بائیں سلام پھیرنے کا معاملہ بھی طے پا گیا۔
اچھے خاصے تھکا دینے والے کام سے فارغ ہو کر میں نے جائے نماز سے اُٹھنے میں کوئی جلدی نہیں دِکھائی، میں نے بیٹھے بیٹھے ہی نے آج کے اِس معرکے پر غور کرنا شروع کیا۔ مثبت بات تو کوئی نہ دِکھائی دی ہاں البتہ شرمندگی اور خجالت اپنی جگہ برقرار تھی۔ مجھے شدت کے ساتھ اِس بات کا احساس تھا کہ آج اِس نماز کی خاطر میں نے اپنے آپ کو رکوع و سجود میں جھکایا اور گرایا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اور سر کو جھکائے میں نے دعا کی اے اللہ میرے تکبر اور جہالت کو معاف کر دے، بڑی دور کا سفر کر کے تیری طرف آیا ہوں اور ابھی بڑا لمبا راستہ طے کرنا باقی ہے۔
اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جب میرے اندر کچھ عجیب سا احساس پیدا ہوا، ایسا احساس جس کا مجھے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں اُس احساس کو الفاظ میں بھی بیان نہیں کر سکتا۔ ایسا لگا جیسے سردی کی ایک ٹھٹھرا دینے والی لہر مجھ سے آ کر ٹکرائی ہے مگر ساتھ ہی دِل میں ایک روشنی کا نقطہ سا پھوٹتا ہوا بھی محسوس ہوا۔ یہ سب کچھ غیر متوقع سا تھا اِس لئے عجیب سا بھی لگ رہا تھا۔ مجھے یا دہے کہ میں نے سردی کی شدت سے کانپنا بھی شروع کر دیا تھا۔ جبکہ خارجی صورتحال قطعی مختلف تھی، تغیر صرف میرے جسم کے اندر رونما ہو رہا تھا جو میرے جذبات پر بھی اثر انداز ہو رہا تھا۔ ۔ میرے محسوسات تبدیل ہو رہے تھے۔ کوئی شفقت اور رحمت تھی جو مجھے اپنے آغوش میں لے رہی تھی۔ مجھے اپنا دِل کسی نادیدہ غم سے بھرتا ہوا محسوس ہوا اور میں نے بلا سبب رونا شروع کردیا۔ حتٰی کہ آنسوؤں نے میرے چہرے پر بہنا بھی شروع کر دیا تھا، غم گویا بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ اور جسقدر میرا رونا زیادہ ہو رہا تھا اُس قدر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ کوئی قوت مجھے شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی آغوش میں لئے بھینچ رہی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں اپنے گناہوں کے بوجھ اور پشیمانوں کی وجہ سے رو رہا تھا، حالانکہ ہونا تو ایسے ہی چاہیئے تھا، مگر یہ تو کوئی اور ہی احساس تھا۔ میرے اندر ایک دیوار سی تعمیر ہو رہی تھی جو مجھے میرے غرور اور غصہ آور سابقہ حیثیت سے علٰیحدہ کر رہی تھی۔
اور آج جب میں یہ کہانی لکھ رہا ہوں مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں آ رہی کہ اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو مجھے گناہوں سے توبہ اور مغفرت کی سبیل تو دور کی بات ہے رحمت و عاطفیت کی آغوش میں پناہ کا راستہ بھی نہ ملتا۔
اِسی طرح دو زانو بیٹھے ، کمر کو جھکائے اور سر کو کو دونوں ہاتھوں میں تھامے نجانے کتنی دیر بیٹھا رہا اور جب رونے سے ہٹا تو بہت تھکن سی محسوس کر رہا تھا۔ میں ایک ایسے تجربے سے ہو کر گزرا تھا جو میرے لئے غیر مانوس تو تھا ہی مگر اِسکی کوئی عقلی دلیل بھی تو موجود نہیں تھی۔ اور میں یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اِس عجیب و غریب تجربے کو کسی سے بیان بھی نہیں کر سکوں گا۔ مگر ایک بات ضرور ہوئی تھی اور وہ یہ کہ مجھے اُس وقت تک اِس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے کا محتاج ہوں اور نماز میری ضرورت ہے۔ اِس سے پہلے کہ میں اپنی جگہ چھوڑتا میں نے اپنے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے یہ آخری دعا مانگی:
اے میرے اللہ: اگر میں راہِ کُفر پر دوبارہ چلنے کا اِرادہ بھی کروں تو مجھے اُس سے پہلے ہی موت دیکر اِس زندگی سے ہی چھٹکارہ دیدینا۔ اب میرے لئے اپنے ظاہری اور باطنی عیبوں کے ساتھ زندہ رہنا تو محال ہے ہی، مگر تیرے تیرے وجود کا ایک دن بھی منکر بن کر رہوں یہ ہرگز قبول نہیں۔
مضمون نگار :  محمد سلیم ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]