میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

16 دسمبر کا پیغام

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948ءکو بحیثیت گورنر جنرل مشرقی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے ڈھاکا میں یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف ”اُردو “ہوگی۔ یہ اعلان مشرقی پاکستان کے بنگالی شہریوں کو پسند نہیں آیا۔ بنگالی مسلمان متحدہ پاکستان کی آبادی کا 54فیصد تھے۔ ان کی زبان خطے کی قدیم زبانوں میں سے ایک تھی۔ جبکہ وہ سمجھتے تھے کہ اُردو چند سو سال پرانی نسبتاً ایک نئی زبان ہے جس کو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد مشرقی پاکستان کے علاقوں میں چند فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ کیونکہ مسلم لیگ کا قیام بنگال کے شہر ڈھاکا میں عمل میں آیا تھا۔ وہاں کے لوگ مسلم لیگ کے منشور اور ایجنڈے سے کماحقہ‘ واقف تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کا اعلان مسلم لیگی قیادت نے قیام ِ پاکستان تک کبھی نہیں کیا تھا اور نہ یہ بات لیگ کے انتخابی منشور کا حصہ رہی ہے اور نہ ہی یہ ایشو تحریک ِ پاکستان کے دوران کبھی سامنے لایا گیا تھا۔ اُنہیں قائداعظم کی نیت اور خلوص پر کوئی شبہ نہیں تھا۔ لیکن یہ خدشہ ضرور تھا کہ بابائے قوم کے اِس اعلان سے اُن کی حق تلفی ہوگی‘ اُن کی زبان دب جائے گی اور اُن کے نوجوان اُردو سے نابلد ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کرسکیں گے۔
  بنگالیوں نے بانی پاکستان کے اِس اعلان کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ حکومت کے خلاف ڈھاکا سمیت کئی شہروں میں مظاہرے کیے گئے‘ کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے ایک بنگلہ دیش کے بانی، عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن بھی تھے۔ مارچ 1949ءمیں مولانا عبدالحمید بھاشانی نے نرائن گنج (ڈھاکا) میں عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔بنگلہ زبان کے حوالے سے شدید جذبات رکھنے اور کلکتہ کے مدرسہ عالیہ میں طلبہ سیاست کا تجربہ رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن عوامی مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا۔
20 جنوری 1952ءکو آئین ِ پاکستان کے بنیادی اُصول مرتب کرنے کی غرض سے تشکیل دی گئی دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی نے اپنی سفارشات کا اعلان کیا۔ ایک سفارش یہ بھی تھی کہ پاکستان کی واحد سرکاری زبان اُردو ہوگی۔ اِس اعلان نے مشرقی پاکستان کے عوام کو ایک مرتبہ پھر مشتعل کردیا۔ عوامی مسلم لیگ کے رہنما مولانا بھاشانی نے اِس حوالے سے کئی احتجاجی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ سفارش اکثریتی صوبے پر لسانی اور ثقافتی یلغار کی شعوری کوشش ہے جسے بنگال کے عوام ناکام بنادیں گے۔فروری 1952ءمیں کمیٹی کی سفارشات کے خلاف منظم احتجاج کیا گیا‘ جلسے منعقد کیے گئے، جلوس نکالے گئے، حالانکہ حکومت نے ملک بھر میں جلسے، جلوسوں پر پابندی عائد کررکھی تھی۔
صرف چند سال قبل ایک عظیم الشان تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والے ملک کے دو حصوں کے رہنماؤں اور عوام میں زبان اور بعض ایشوز کے سبب دوری بڑھتی جارہی تھی جس سے دونوں حصوں کے محب وطن سیاست دان اور دانش ور مضطرب اور رنجیدہ تھے۔ لیکن کیونکہ سیاست ناممکنات کو ممکنات میں بدلنے اور معاملات کو طاقت کے بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کا نام ہے‘ لہٰذا 1956ءمیں اہلِ سیاست کی مخلصانہ کوششیں رنگ لائیں۔ وزیراعظم چوہدری محمد علی اور اُن کے رفقاءکی کوششوں سے دستور ساز اسمبلی میں ملک کا پہلا آئین منظور کیا گیا اور 23 مارچ 1956ءکو اُسے نافذ کردیا گیا۔ اِس آئین کے تحت پارلیمنٹ میں دونوں صوبوں یعنی مشرقی و مغربی پاکستان کو برابر کی نمائندگی دی گئی تھی۔ اور بنگالی مسلمانوں کے ایک دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اُردو کے علاوہ بنگلہ کو بھی ملک کی سرکاری زبان تسلیم کرلیا گیا تھا۔اگر آئندہ سالوں میں بھی ملک کے معاملات اہل ِ سیاست کے ہاتھوں میں رہتے، ملک کے نظام کو جمہوری طریقے سے آگے بڑھایا جاتا، عوام کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جاتا، آئین کو اُس کی روح کے مطابق نافذ ہونے دیا جاتا اور ملک کو صرف برائے نام جمہوریہ نہ رہنے دیا جاتا تو آج یقینا خطے کی تاریخ کچھ اور ہوتی اور شاید جغرافیہ بھی۔
 بدقسمتی سے خاکی وردی والے جرنیل ایوب خان نے کچھ عرصے کے بعد محسوس کیا کہ پاکستان پرحکمرانی کا حق ملک بنانے والے سیاست دانوں کو نہیں بلکہ گولی چلانے والے جرنیلوں کو ہے‘ لہٰذا انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اُس کے بعد طویل عرصہ تک بزور قوت ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں پر پابندیاں عائد کردی گئیں ۔اہل سیاست کو کردہ و ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پابند سلاسل ہونا پڑا۔عوام سے حق رائے دہی چھین لیا گیا۔ بنیادی جمہوریت جیسے تماشے اور ڈرامے قوم کے سامنے پیش کیے گئے۔ جرنیلوں، بیوروکریٹس اور زرخرید سیاستدانوں نے مارشل لاءکی چھتری تلے ملک کو چلایا۔ بظاہر ملک ترقی کرتا نظر آتا رہا‘ لیکن دراصل اُس کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی چلی گئیں۔ سیاسی حبس اور جبر کے ماحول نے بنگال کے مسلمانوں میں احساسِ محرومی کو اور بڑھا دیا۔ اقتدار اور ملکی معاملات میں باعزت شمولیت کا خواب دھندلا ہوگیا۔
پاکستان کو روز اول سے دلی طور پر تسلیم نہ کرنے والے ہندوؤں نے اپنی سازشیں تیز کر دیں۔انہوں نے بنگال کے مسلمانوں کو پاکستان اور افواج ِ پاکستان سے نجات دلانے کے لئے ہر طرح کا تعاون پیش کردیا۔ دس سالہ طویل اقتدار کے بعد عوامی دباؤ کے نتیجے میں ایک جرنیل (ایوب خان) رخصت ہوا تومسائل سے ڈگمگاتے ہوئے ملک کی باگ ڈور شراب کے نشے میں ڈولتے دوسرے جرنیل (یحییٰ خان) کے حوالے کرگیا‘ کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ملک کو سویلین نہیں‘ صرف اور صرف فوجی جرنیل بچا اور چلا سکتے ہیں۔
شراب اور زنا کے حوالے سے مشہور اور معروف سپہ سالار نے قصرِ صدارت میں وہ گُل کھلائے کہ دورِ زوال کے عیاش نوابوں کی رنگین کہانیاں بھی پھیکی لگنے لگیں۔ 1970ءمیں یحییٰ خان کو انتخابات کرانے پر مجبور ہونا پڑا۔ نتائج واضح تھے لیکن مخصوص جرنیلی ذہنیت اقتدار کے عوامی نمائندوں تک منتقل ہونے میں رکاوٹ بن گئی۔ اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہوسکا۔ معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کے بجائے مشرقی صوبے کے لیے فوجی آپریشن کا کھٹن راستہ چنا گیاجس کے نتیجے میں معاملات اور زیادہ الجھ گئے‘ دوریاں مزید بڑھ گئیں بلکہ دشمنی میں بدل گئیں۔ بعض معصوم لوگ سمجھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان نے 1970ءکے انتخابات کرواکر ملک پر کوئی احسان کیا تھا اور وہ اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے پر تیار تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ مجیب الرحمن جیسے لوگ اپنا ذہن بنا چکے تھے۔ اور اعتماد کا رشتہ بھی ختم ہوچکا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یحییٰ خان اینڈ کمپنی کی نیت بھی درست نہیں تھی۔ اس کا ثبوت اندر کے آدمی یعنی بریگیڈیئر صدیق سالک شہید نے اپنی معروف تصنیف ”میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا“ میں دیا ہے۔ موصوف نے لکھا ہے ”ایسی صورت میں افواج ِ پاکستان کا کردار کیا ہوگا؟ کیا وہ باعزت طریقے سے اقتدار سے الگ ہوکر ملک کی قسمت عوامی لیگ کو سونپ دیں گی؟ اِس کا جواب ہمیں ڈھاکا میں نظر نہیں آتا تھا۔البتہ جنرل یحییٰ کے ایک معتمد جرنیل (مصنف نے نام نہیں لکھا) دسمبر 1970ءکے آخر میں وہاں پہنچے اورگورنمنٹ ہاؤس میں ایک ضیافت کے بعد ارباب حل و عقد کی سوچ سے اتنا پردہ اُٹھایا ”آپ حضرات فکر نہ کریں‘ ہم اُن کالے حرامیوں کو اپنے اوپر ہرگز حکومت نہیں کرنے دیں گے۔“ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ نمبر 38)
انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط سے آزاد ہونے والا نظریاتی ملک اپنے قیام کے صرف 24 سال بعد دولخت ہوگیا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اِس سانحے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ وردی والوں کے غیر سرکاری ترجمان زید حامد سقوط ِ ڈھاکا کی ذمہ داری 1970ءکے انتخابات پر ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”ایسے انتخابات کا کیا فائدہ جن کے انعقاد سے ملک ٹوٹ جائے۔بعض لوگ مجیب الرحمن اور بھٹو کو اس سانحے میں برابر کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ بعض کے خیال میں یہ بھارت کی سازشوں اور مداخلت کے سبب وقوع پذیر ہوا تھا۔ ہماری ناچیز رائے میں اس سانحے کا بنیادی سبب جرنیلی ذہنیت تھی جس نے برسوں اِس حادثے کی پرورش کی تھی اور جس کے زہرآلود ہونے کا اندازہ آپ صدیق سالک کی کتاب کے درج بالا حوالے سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔

آج جب ملک کے شمال مغربی حصے میں افواج ِ پاکستان اپنے ہی عوام کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں اور درجنوں معصوم شہری ہمارے نام نہاد دوستوں کے میزائلوں کا نشانہ بن رہے ہیں‘ لاکھوں لوگوں کو نقل ِ مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے‘

16 دسمبر ہمیں یاد دلانے آیا ہے کہ 1947ءمیں عوام کی بے مثال قربانیوں اور اہل ِ سیاست کی جدوجہد اور ذہانت سے حاصل ہونے والا ملک 16 دسمبر 1971ءکو جرنیلی ذہنیت کے ہاتھوں دولخت ہوگیا تھا۔

16دسمبر ہمیں یاد دلانے آیا ہے کہ ملکی مسائل گولیوں، بموں اور میزائلوں سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم اور مذاکرات سے حل ہوتے ہیں۔ ملک چلانا جرنیلوں کا نہیں اہلِ سیاست کا کام ہے۔ آمریت میں بظاہر ملک ترقی کرتا نظر آتا ہے،لیکن یہ آکاس بیل کی طرح ملک کو جڑوں کو کھا جاتی ہے، بنیادوں کو کھو کھلا کردیتی ہے۔
16دسمبر ہمیں بتانے آیا ہے کہ پاکستان کی بقاءاور سلامتی سیاسی تدبر اور ذہانت میں ہے‘جرنیلی ذہنیت میں نہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب سرحدوں کے محافظ اپنا فریضہ بھول کر اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہوجائیں تو سرحدیں کمزور ہوجاتی ہیں، کبھی کبھی مٹ بھی جاتی ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بطن سے سیکولر بنگلہ دیش پیدا ہوتا ہے۔
16دسمبر ہمیں جھنجھوڑنے اور جگانے آیا ہے، رلانے آیا ہے اُس سانحے پر جو سقوط ِ غرناطہ و بغداد کے بعد ملت ِاسلامیہ کا سب سے المناک سانحہ تھا جسے شاید ہم بھولتے چلے جارہے ہیں۔

مضمون نگار :  ڈاکٹر فیاض عالم ۔(کراچی)
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]