میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

آوے کا آوا نشے میں ہے!

ہمارے ایک قاری نے ہمیں ایک’’ برق نامہ‘‘بھیجا ہے، جس میں اُنہوں نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں آج کل ایک نیا محاورہ رائج ہوگیا ہے:’’بھتہ خور مچائے شور‘‘۔اُن کا کہنا ہے کہ شور مچانے والے ’’اصلاح، اصلاح‘‘ اور ’’انقلاب، انقلاب‘‘ کا شور مچاکر جس طرح ملک کی تمام سیاسی طاقتوں کوبلیک میل کررہے ہیں اورانتخابی میدان میں جس انداز سے اُنہیں برسوں سے اپنا یرغمال بنائے ہوئے ہیں،
اُس پر ایک دلچسپ حکایت چسپاں ہوتی ہے۔ خوف ودہشت کی صورتِ حال اِس قدر سنگین ہے کہ محترم قاری نے مرسلہ حکایت اپنانام نہ بتانے کی شرط کے ساتھ شائع کرنے کی درخواست کی ہے ۔


ہوسکتاہے کہ یہ حکایت آپ تک پہنچ گئی ہو۔ اگر ایسا ہے تو اُن کاکیا قصور ہے جن تک نہیں پہنچی ۔ آپ ہٹیے، اُنھیں پڑھنے دیجیے: حکایت ہے کہ ایک موٹا تازہ چوہا جنگل میں جھومتا جھامتا چلاجارہا تھا۔ یکایک اُس کی نظر ایک چیتے پر پڑی۔ چیتا چرس پینے کے لیے شے مذکور کو مسل مسل کر ایک سگریٹ میں بھر رہا تھا۔ چوہا وہیں سے للکارا:”او چُست وچالاک چیتے! کیوں اپنی زندگی برباد کرنے پر تُلاہوا ہے؟ پھینک اِسے جو ترے ہاتھوں میں ہے۔ اُٹھ اور میرے ساتھ جنگل کی سیر کو چل۔ زندگی کا لطف اُٹھا۔انقلاب لا‘‘۔ چیتا بڑا شرمندہ ہوا۔ چوہے کی بات اُس کے دِل میں ترازو ہوگئی۔ اُس نے بھرا ہوا سگریٹ دُور پھینکا اور چوہے کے ساتھ جنگل کی سیر کو چل پڑا۔ کچھ دُور چلنے کے بعد اِن دونوں کی نظر ایک ہاتھی پر پڑی۔ ہاتھی اپنے ہاتھ میں شراب کی بوتل لیے قہقہوں پر قہقہے لگارہا تھا۔ ابھی وہ سُونڈ اُٹھا کر بوتل اپنے حلق میں اُنڈیلنے ہی کو تھا کہ چوہا چِلّایا:”ارے او مست ہاتھی! کیوں اپنی زندگی برباد کرنے پر تُلاہوا ہے؟ پھینک اِسے جو ترے ہاتھوں میں ہے۔ اُٹھ اور میرے ساتھ جنگل کی سیر کو چل۔ زندگی کا لطف اُٹھا۔انقلاب لا‘‘۔ ہاتھی بھی بڑا نادِم ہوا۔ دِل میں سوچا:”گرچہ چھوٹی ہے ذات چوہے کی دِل کو لگتی ہے بات چوہے کی‘‘ اُس نے بھی سُونڈ اُٹھاکر بوتل ایک چٹان پردے ماری جوچھناکے کی آواز کے ساتھ چکناچُور ہوگئی۔ اب یہ تینوں جنگل کی سیر کو چل پڑے۔ چلتے چلتے آگے بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شیر اپنی کچھار میں اُکڑوں بیٹھادونوں پنجوں سے ہیروئن کی پڑیا کھولنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاس ہی اُس کا پائپ پڑا ہے جس میں بھرے تمباکو پر ہیروئن چھڑک کر وہ پیناچاہتا تھا۔ چوہے نے پھر زوردار بڑھک ماری: ’’جنگل دے بادشاہ! …اوئے جاگیردارا ! … کیوں اپنی زندگی برباد کرنے پر تُلاہوا ہے؟ پھینک اِسے جو ترے ہاتھوں میں ہے۔ اُٹھ اور میرے ساتھ جنگل کی سیر کو چل۔ زندگی کا لطف اُٹھا۔ انقلاب لا‘‘۔ شیراُسے دیکھتے ہی اور اُس کامکالمہ سنتے ہی غضبناک ہوگیا۔ جھپٹّامارکرموٹے چوہے کو دبوچنا چاہا سو،اُس پر چھلانگ لگانے کی غرض سے اپنی کمر لچکائی۔مگر ابھی شیر نے اپنی کمر فقط لچکائی ہی تھی کہ موٹاچوہا پلٹ کربڑی بدحواسی کے عالم میں بھاگ کھڑا ہوا۔اورذراکی ذرامیں تُرتُرتُرتُرکرتاہوا یہ جا وہ جا۔پھرنہ جانے کس بل میں جاگھسا۔ چیتے نے ہاتھ باندھ کر بادشاہ سلامت سے عرض کیا: ’’جنگل پناہ! چوہے کے ساتھ عالی مرتبت کا یہ سلوک کچھ مناسب نہیں معلوم ہوا۔ اُس نے تو آپ کی خیرخواہی کی تھی۔کوئی غلط بات تو نہیں کہی تھی۔آپ کیوں اِس قدر مشتعل ہوئے؟‘‘ عالی مرتبت نے تقریباًہانپتے ہوئے اور قدرے روہانسی آواز میں جواب دیا:”کمینہ کل بھی بھنگ پی کر آگیا تھا۔ہمیں تین گھنٹے تک جنگل بھر میں پیدل لیے لیے پھرا۔ جب خود اُس کا نشہ ٹوٹا تو ہم سے ڈر کر بھاگا۔ اب تک جوڑ جوڑ دُکھ رہا ہے۔ اِسی باعث چھلانگ لگانے میں بھی ہم سے تاخیر ہوئی‘‘۔
……٭٭٭……
اے صاحبو!!!! ہمارے جنگل کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ آوے کا آوا نشے میں ہے۔بھتے کی بھنگ پی پی کر اصلاح و انقلاب کا ’’ غُل غپاڑا‘‘ مچانے والے چوہوں کی ترنگ قابلِ دید ہے۔شہر بھر میں لسانیت کے پھیلائے ہوئے طاعون سے موت کا بازار گرم ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ چوری، ڈکیتی ، لوٹ مار، رہزنی، گلیوں بازاروں کے جرائم کاارتکاب کرنے والوں،ہڑتالیں کرکرکے معیشت کی گرم بازاری کو سرد کرنے والوں اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوںکااصلاح اورانقلاب سے کیا تعلق؟ جاگیرداری، سرمایہ داری،اورطاغوتی طاقتوں کی کاسہ لیسی سے ملنے والے اقتدار کے نشے میں دُھت جنگلی، وحشی درندوں کانشہ کہیں بھنگ کے نشئی چوہے ہرن کر سکتے ہیں؟ یہ مدہوش چوہے تو بس ذراسی ’’کمر لچکانے‘‘کی مارہیں۔کہ اِک ذرا’’ کسی‘‘ نے ان کو دیکھ کراپنی کمر لچکائی اور یہ تُرتُر تُرتُربھاگتے ہوئے یہ جا وہ جا۔ پھرنہ جانے کس بِل میں جاگھسیں؟ برطانیہ کے بِل میں، بھارت کے بِل میں، جنوبی افریقا کے بِل میں یاسرپٹ مشرقِ بعیدکے بلوں تک بھاگتے ہی چلے جائیں۔
تواے منتظرانقلاب لوگو! پاکیزہ اور بابرکت انقلاب تو صرف وہ لوگ برپا کرسکتے ہیں جو خود ہوش مند ہوں اور جن کا اپنا دامن صاف ہو۔ (
بشکریہ  :  نئی بات۔(کراچی /لاہور)
ادارہ’’سنپ‘‘ ”نئی بات“ کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]