میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

”جہادی ریمبو سے کامیڈین ڈکٹیٹر “

”ہالی ووڈ کی زیر تکمیل فلم The Dictatorکا پاکستانی تجزیہ
          میری عمر کے پاکستانیوں نے جب آنکھیں کھولیں تو اپنے اردگرد آمریت اور محب ِوطن اور اسلام پسند۔۔مُلا ہی مُلا دیکھے ۔
تفریح طبع کے لئے ہمیں اس دور میں اگر کوئی چیز میسر تھی ۔
۔تووہ تھی۔۔ صرف اور صرف ویڈیو فلم کی کیسٹ اور اس کیسٹ کو چلانے والا ویڈیو کیسٹ ریکارڈر یعنی VCR تب دو طرح کی فلمیں گلی محلوں میں جگہ جگہ کھلے ویڈیو سینٹرز پر دستیاب ہوتی تھیں۔ایک ہندوستا نی فلم انڈسٹری ’’بالی وڈ‘‘کی فلمیں۔۔ ان میں سے زیادہ تر کا موضوع پیار ،عشق اور محبت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھااور بالی عمر کے نو جوان ان فلموں میں مادھوری کے ٹھمکوں،میناکشی کے جلو ؤں اور جتندر کی ’’ماما میا اور پیار کی گاڑی‘‘سے متاثر ہو کر ان ادا کاروں کے پوسٹرز اپنے کمروں کی دیواروں پر چسپاں کرتے تھے۔یا پھر شبانہ اعظمی،سمیتا پٹیل،پاریش راول،کل بھوشن، اوم پوری، فاروق شیخ اور نصیرالدین شاہ کی آرٹ فلمیں ۔۔جوپاکستان کے ترقی پسندوں کی فیورٹ تھیں۔۔!!

           دوسری طرف امریکی فلم انڈسٹری ’’ہالی وڈ‘‘کی فلموں کے موضوعات جنگ و جدل پر مبنی ہوتے تھے ۔ٹام کروز کیTop Gunآرنلڈ شیوازنیگر کیPredator،Commandoاور سلوسٹر اسٹالون کی Rambo سیریز فلمیں کافی مقبول ہوتی تھیں۔یہ اُس دور کی بات ہے ۔جب پاکستانی فلم انڈسٹری ’’لالی وڈ‘‘روبہ زوال تھی ۔ایرانی فلم انڈسٹری کونہ تب پروموٹ کیا گیا تھا اور نہ تاحال پاکستان میں پروموٹ کیا جارہاہے۔جبکہ ایرانی فلم ڈائریکٹر و پروڈیوسرپروفیسرحاجی آغا نے ایران کی پہلی خاموش فلم 1930میں بنا ڈالی۔۔ سنسنی،عشق ومحبت اور معاشرتی مسائل پربننے والی ایرانی فلموں نے کئی بین الاقومی فلمی ایوارڈ زبھی جیتے ۔
          امریکہ جہاں پوری دُنیامیں اپنے مفادات کو عزیزرکھنے کیلئے اپنے’’حواریوں‘‘سے محنت مزدوری کرواتاچلا آرہا ہے۔وہاں اپنی فلم انڈسٹری سے بھی پورا پورا مستفید ہو تا جارہاہے۔۔۔مذکورہ فلمیں شاید اسی مقصد کے تحت امریکی حکومت کی ایماء پر ہالی وڈکے فلم ڈائریکٹر ز نے تیار کی تھیں۔۔!!
          جب روس کے خلاف امریکہ کو اپنے حواریوں کی ’’جذبہ ایمانی سے لبریز جہادی فوج ظفر موج‘‘ درکار تھی ۔تب سلوسٹر اسٹالون بطور’’ریمبو‘‘ افغان جہادیوں کا مددگاربناتو کون کون سی مشکل سے نہیں کھیلا۔۔۔ اندازہ کریں کہ موصوف کا تیر کمان بھی ایسا کہ روسی ہیلی کاپٹر۔۔ کمان سے نکلے ہوئے تیر کے ایک وار پر’’ایئر بلیوکے طیارے کی طرح تہس نہس‘‘ہوجاتا تھا۔۔۔!!
          اُدھر آرنلڈ شیوازنیگر نے بطور کمانڈو ’’جی سی پی گھی کے کنستر ‘‘میں’’ 4 سوراخ ‘‘کر کے۔۔اَنی۔۔ ڈال رکھی تھی۔۔ٹام کروزTop Gun میں بطور۔۔ ائیرفورس ون کا۔۔ لڑاکاپائلٹ۔۔ ’’ برسرِپیکار‘‘ ہو کر اپنے جہادی و جہازی کرتب دِکھا کرمیرے نوجوان اور ادھیڑ عمرہم وطنوں کو اپنے سحر میں مبتلاکر چکا تھا۔۔اور یہ ساری جنگ وجدل ،ماردھاڑ ،سنسنی اور انتہاپسندی سے بھرپور فلمیں انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کو فروغ دے کر ملکِ پاکستان کی سادہ اور بھولی بھالی عوام کو کسی دیمک کی مانند چاٹ رہی تھیں۔۔!!
          تب نوجوان ریمبو سے متاثرہوکر Ray-Ban کا چشمہ اور اپنے دانتوں میں’’نہ بجھنے والی نہ جل کر گرنے والی ہاکی ماچس ‘‘کی تیلی چبانا خود پر لازم وملزوم سمجھتے۔۔!!
          Commando کی وجہ سے کھیلوں کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔تو پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں بے تحاشا ’’باڈی بلڈنگ کلب‘‘ کھلنے لگےاورہرنوجوان باڈی بلڈنگ کلب میں جا تے ہی خود کو’’مسٹر یونیورس‘‘سمجھنے لگتا۔یا پھر وہ انہی فلموں کے ویڈیو گیم Versions کھیل کرخود کوآرنلڈ ، ریمبو اور ٹام کروز تصور کرتے۔پھر اسی دور میں ’’موٹربائکس‘‘پر ون ویلنگ کی جان لیوا رسم بھی شروع ہوئی اور کئی گھروں کے لختِ جگر’’سلطان گولڈن‘‘بننے کے چکرمیں لقمہ اجل بن گئے اور جن نوجوانوں کو یہ سب کرنا پسند نہیں تھا وہ متاثر تو بلاشبہ ہوتے تھے۔لیکن ’’جہاد کشمیروجہاد افغانستان‘‘ کاعملی’’ حصہ ونمونہ ‘بننے۔اپنےاپنےشہر کی پہلی بسوں پر ’’گولی ٹائم ‘‘ہوکر ’’کشمیر اور افغانستان‘‘ کا رُخ کرتے تھےتاکہ پاکستان کا مستقبل سنوارنے  اور پاکستان کی جغرافیائی حدود کی پاسبانی کے لیےتن من دھن سے حفاظت کرنے کے لیے جاں سپر ہو سکیں۔۔
          روس کے ٹکٹرے بے شمار ہوئے تو عالمی طاقت کا توازن برقرار نہ رہ سکا ۔۔یعنی امریکہ کو مطلوبہ نتائج ملتے ہی امریکہ نے انتہاپسندی کو ترک کرکے دنیاکو محبت کے لازوال رشتے میں باندھنے کا سوچا اور کیٹ ونسلٹ کی فلم Titanicکی پہلی نمائش نیف ڈیک سنیما اسلام آباد میں کی گئی۔۔اور پھر ہر طرف عشق ہی عشق اور پیار ہی پیار۔۔۔!!
          اب جب کے پاکستانی عوام بوجہ آزاد میڈیا ’’پچھلے ایک ماہ سے ’’میموگیٹ ‘‘فلم کے سحر میں مبتلا ہو کر اس فلم کے ’’و یڈیو گیم version‘‘ کے ریلیز کابے صبری سے انتظار کر رہی ہے۔۔۔!!
          9/11کے بعد’’80 کی دہائی کے اصل ہیروز‘‘کے خلاف ’’امریکی جنگ‘‘سفر طے کرتی آخری مراحل میں ہے۔ امریکی فلم انڈسٹر ی ہالی وڈنے ایک فلم کی ریکارڈنگ شروع کی ہے ۔اور اس کے پہلے ’’ٹریلر‘‘کی مغربی اور سوشل میڈیا پر نمائش بھی جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          فلم کا نامThe Dictatorہے جس میں ایک داڑھی والے فوجی جرنیل جو بظاہر’’اسامہ بن لادن ‘‘لگتا ہے کا مرکزی کردارادا کر رہے ہیں۔برطانوی مصنف ،گلوکاراور کامیڈی ادا کا ر Sacha Beron kohen۔’’ساشے بیرن کوہن ‘‘2006میں ریلیزہونے والی فلم Boratمیں اپنے فنِ اداکاری کے جوہر دکھا کر اکیڈیمی ایوارڈ کیلئے بھی نامزد ہوئے ۔۔اور اس فلم سے کافی شہرت بھی حاصل کی۔
          اب جبکہ پاکستانی عوام گذشتہ سالوں کی بدترین دہشت گردی کے دور سے گزر کر۔۔۔۔فلم میموگیٹ پر کھڑکی توڑ ہفتے لگے ہوئے ہیں۔ اور اس فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی کھوج ہمارا آزاد ،بے باک اور لاابالی ۔۔میڈیا ہر روز سرشام شروع کر کے رات 12بجے ’’بوجہ مجبوری ‘‘ناکامی کی صورت میں ختم کرتا ہے۔۔!!
          وہاں عنقریب امریکن فلم انڈسٹریThe Dictatorفلم کی نمائش2012میں کرنے جا رہی ہے۔یہ فلم عراقی صدر صدام حسین کے مبینہ ناول’’Zabibah and the King ‘‘سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے ۔فلم کا’’مرکزی کردار‘‘ساری فلم میں لیبیاکے مرحوم صدر معمر قذافی جیسے پارچہ جات(فوجی وردی ) میں ملبوس معمرقذافی کی ہےجو ’’خوبرو لیڈیز سیکورٹی گارڈز‘‘طرز کی حسیناؤں کے جھرمٹ میں گھرارہتا ہے۔۔!!
          اس فلم کے شروع میں ہی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن شام کے’’بشارالاسد ‘‘کی پرزور مذمت کرتے ہوئے۔۔ امریکی صدربارا ک اوباما اور ڈیوڈ کیمرون لیبیاکے معمر قذافی پر کڑی تنقید کرتے حقیقت میں دکھائی دیتے ہیں۔
          فلم کی کہانی کا لبِ لباب یہ ہے کہ ایک ’’آمر‘‘اپنے ملک کی عوام کو جمہوریت سے دور رکھنے کیلئے کیاکیا جتن کرتاہے ۔۔۔۔اس’’مشن امپاسیبل ‘‘کے لیے  اپنی جان کی پروا بھی نہیں کرتا۔۔!!
          امریکہ کوThe Dictatorفلم بنا کر فلم بینوں کے جمہوری شعور بیدار کرنے کا خیال کتنی جلد آیا ہے نا۔۔جب جمہوریت پسند اور روشن خیال قوتوں کوکوڑے لگ رہے تھے ان کو اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے پر پابندِ سلاسل۔۔یا ملک بدر کیا جا تارہا۔ ۔جب عوام آمروں کے ادوار میں پستی ۔۔پستی۔۔ غربت اور جہالت کی لکیر سے بھی نیچے گر کر گہرے گڑھے میں جاچکی تھی ۔ تب ’’‘‘The Dictator فلم کیوں نہ بنی کیوں نہ ایسی فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔۔!!
          اب امریکہ فلمThe Dictatorدکھا کر آمروں ’کے ’تسلط ‘‘نامی بے رحم بلڈوزر۔۔ تلے کچلی ہوئی عوام کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان کو ماضی کے آمروں کو پھر سے یاد کروا کر خون کے آنسوبھی رلانا چاہتا ہے۔۔


         
 ہمیں تو مغرب ، مغرب زدہ عوام اور ہالی ووڈ سے صرف اتنا گلہ ہے کہ :”ڈکٹیٹر چاہے کسی بھی رنگ و نسل ، مذہب و معاشرے کا ہو ، وہ ہر حال میں قابل ِ طعن و تشنیع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس فلم کے ذریعے صرف اسلامی ملک کے ہی ڈکٹیٹرکے پردے میں در اصل  اسلام کا مذاق اڑا یا گیا ہے۔ڈکٹیٹر کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔یہ فلم معمرقذافی اور صدام کے ارد گرد ہے ۔مگر اس فلم میں جو ان دونوں ڈکٹیٹروں کی  عکاسی داڑھی کی گئی ہے حالاں کہ ان دونوں ڈکٹیٹروں کی داڑھی نہیں تھی ، یہ بے انصافی ہے  یہ سراسر اسلام فوبیا کا حصہ اور اسلام سے بغض کی اعلیٰ نظیر ہے ۔جو قابل افسوس و قابل مذمت ہے۔“(ادارہ سنپ)

 ۔۔۔۔۔۔ فلم کا ابتدائی ٹریلر حاضر خدمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔



مصنف:  نعیم ملک ۔(سماجی کارکن اور طنز نگار ہیں)
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]