کٹّو ایک موٹی سی لال مُرغی کا نام تھا۔ وُہ ایک مغرور مُرغی تھی۔ اپنے سِوا کِسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی اور جب وُہ انڈا دیتی، پِھر تو اس کے مزاج ہی نہ ملتے۔ کٹاک کٹاک کرتے گھر سَر پر اُٹھا لیتی کہ لوگو دیکھو مَیں نے انڈا دیا۔ گھر میں لوگ ہی کتنے تھے۔ رحمت جولاہا اور اُس کی بُوڑھی بیوی۔ رحمت جوان تھا تو اُس کے بنائے ہُوئے تھان بازار میں ہاتھوں ہاتھ بِک جاتے تھے پر اب وُہ بُوڑھا ہو گیا تھا۔ اُس نے یہ کام چھوڑ دیا تھا۔ شہر میں کپڑے کی مِلّیں کُھل گئیں تو اس کے دونوں بیٹے شہر جا کر کام کرنے لگے۔ اِتنے بڑے گھر میں میاں بیوی کا دِل نہ لگتا تھا۔ بستی سے کُچھ فاصلے پر رحمت کی بیگھا بَھر زمین تھی۔ اسی پر اُس نے چھوٹا سا گھر بنا لیا۔ بستی والا گھر بیچ کر ایک ریڑھی اور ایک گھوڑا خرید لیا۔ چندُو خُوبْصورت اور چُست گھوڑا تھا۔ اس کے ماتھے پر سفید چاند بنا تھا۔ اِسی لیے رحمت اس کو چندُو کے نام سے پکارتا تھا۔
اسی گھوڑا گاڑی پر رحمت کی گُزر بسَر ہونے لگی۔ چندُو گھر میں آیا تو کٹّو کو کچھ اچّھا نہ لگا۔ پہلے تو رحمت اور اُس کی بیوی سارا دن کٹو ہی کے آگے پیچھے رہتے تھے۔ اَب بڑے میاں کو ہر وقت چندُو ہی کی فکر لگی رہتی تھی۔ کبھی ٹوکا مشین پر کھڑے ہو کر اُس کے لیے چارا کاٹ رہے ہیں۔ کبھی چَنے بھگو رہے ہیں۔ صُبح شام کھریرا لے کر اُس کا بدن صاف کرتے اور کنویں سے ڈول نکال نکال کر چندُو کو نہلاتے۔
کٹّو دل ہی دل میں سخت ناراض ہوئی۔ اے لو! مَیں تو ہر روز یہ بڑا سا انڈا ان کو دیتی ہوں اور بڑے میاں ہیں کہ چندُو کے آگے پیچھے پِھرا کرتے ہیں اور یہ بڑی بی بھی تو بس ایسی ہی ہیں۔ جب دیکھو اوکھل میں چَنے ڈالے چندُو کے لیے کُوٹے جا رہے ہیں۔
ایک دن بڑے میاں بَستی سے واپس آئے تو اُن کے ساتھ ایک چھوٹا سا کُتّا ڈَبُو بھی تھا۔ کہنے کو تو ڈَبو، چندو [اور] گھر کی چوکیداری کے لیے لائے گئے تھے، مگر بڑے میاں اور بڑی بی کی آنکھ کا تارا بن بیٹھے تھے۔ جب دیکھو دُودھ ٹھنڈا کر کے پیالے میں ڈال کر سامنے رکّھا جا رہا ہے۔ کبھی گوشت اُبال کر آگے رکّھا جا رہا ہے۔ ڈبو بھی رحمت کے ساتھ لگے پِھرتے۔ دُم ہِلاتے انْدر باہر پِھرتے تو کٹو جل کر خاک ہو جاتی۔ آخر کار ایک دن اُس نے غصے میں آ کر ہڑتال کر دی۔
پُھول سُوج کر ڈربے میں بیٹھ گئی۔ انڈا دینا بند کر دیا۔ کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا تو اور بھی پَر پُھلا لیتی اور رُوٹھی رُوٹھی آوازیں نکالنا شروع کر دیتی۔ بڑی بی نے ایک شور مچا دیا۔ اے لو ہماری کٹو تو کڑک ہو گئی۔
کٹّو دِل ہی دِل میں خُوب ہنسی۔ کٹّو سمجھتی تھی کہ اس کے سوا دُنیا کے تمام جانور فالتو ہیں۔ لیکں کٹّو کو یہ پتا نہ تھا کہ رحمت کو بھی ہر طرح سے کام نکالنا آتا ہے۔ ایک روز رحمت نے ایک درجن انڈے لا کر کٹّو کے نیچے رکھ دیے اور کہنے لگا ”لو کٹّو! اب تُم انڈوں پر بیٹھو۔ ہاں بھئی فالتو بیٹھ کر کھانا بہت بُری بات ہے۔“
اگلے روز رحمت کو کسی سبزی والے کے ساتھ مال لے کر دُوسری بستی جانا تھا۔ وہاں سے واپسی پر بڑے میاں ایک سفید بطخ لے آئے۔ اِس بطخ کا نام اُنہوں نے بطّو رکھ دیا۔ بطّو کو پانی بہت پسند تھا۔ سارا دِن کیچڑ میں چھپ چھپ کرتی پِھرتی۔ تَب ایک دن بڑے میاں اور بڑی بی نے مِل کر کنویں کے قریب ایک صاف سُتھرا پکّا حوض بنایا اور اُس میں پانی بھر کر بطّو کو چھوڑ دیا۔
بطّو مزے سے حوض میں تَیرا کرتی اور ایک انڈا روز دیتی۔ کٹّو نے جو دیکھا کہ اب بڑے میاں بطّو سے ایک انڈا روز وصُول کر رہے ہیں تو پُھول سُوج کر اور بھی کُپّا ہو گئی۔ خیر اُس کے اکیس دِن پُورے ہوچکے تھے۔ ایک صُبح جو کٹّو جاگی تو مخمل کی طرح دَرجن بَھر نرم نرم چُوزے اس کے گِرد چُوں چُوں کر رہے تھے۔ بڑی بی نے کٹّو کو دانہ ڈالنے کے لیے ڈربا جو کھولا تو خُوشی کے مارے چیخیں نکل گئیں۔ لگِیں بڑے میاں کو آواز دینے۔
”ارے میاں! اے میاں! دیکھو تو ہماری کٹّو نے چُوزے نکالے۔ ایک انڈا بھی تو خراب نہیں ہوا۔ پُورے بارہ چُوزے نِکل آئے۔“
اب تو کٹّو کے غرور کا ٹِھکانا نہ تھا۔ ہر وقت پُھولی پُھولی چُوزوں کو پروں میں لیے پِھرتی اور بطّو کے حوض کے قریب جا کر بڑے غرور سے کہتی ”اے! کیا تم ایک انڈا دے کر اِتراتی ہو۔ مُجھے دیکھو! گھر بھر دیا ہے مخمل کے سے زرد زرد چُوزوں سے۔“
سفید پَروں اور چَوڑی سی پِیلی چونچ والی بطو قَیں قَیں کر کے ہنس پڑتی۔ کٹّو کٹ کٹ کر کے شیخیاں بگھارے جاتی۔ ”اِس گھر میں تو سب ہی فالتو ہیں میرے سِوا۔ ارے یہ ڈبُو نگوڑا تو بالکل ہی فالتو ہے اور اس چندُو کو تو کوئی دیکھے، کیسا اِٹھلا اِٹھلا کر چلتا ہے۔“
ایک دوپہر کو کٹّو پر پھلائے، دُم اُٹھائے اپنے چوزوں کو دانہ دُنکا چُگنا سکھا رہی تھی کہ ایک بلّی جو دیر سے گھات لگائے بیٹھی تھی، اُن پر جھپٹی۔ ڈربے کے پاس ہی ڈَبُو بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ کٹو بلی کو دیکھ کر چیخ پڑی۔ کُٹ کُٹ کُٹاک۔ جیسے کہتی ہو بچاؤ بچاؤ، میرے چُوزوں کو بچاؤ۔ ایک پل میں ڈَبُو لپکا اور غرّا کر بِلّی کو گھورا۔ ڈَبُو کو دیکھ کر بِلّی کی جان ہی تو نکل گئی، دُم دبا کر بھاگی۔ ڈَبُو اِس وقت تک بھونکے گیا جب تک کہ بڑی بی نے آ کر چوزوں کو ٹاپے کے نیچے بند نہ کر دیا۔ کٹّو تَھر تَھر کانپتی بطّو کے پاس پہنچی اور اپنی زبان میں بولی ”اری بہن! یہ ڈَبُو تو بڑے کام کا ہے۔ یہ نہ ہوتا تو آج میرے بچّوں کی جان بچنی مُشکل تھی۔“ بطّو قَیں قَیں کر کے ہنسی اور پھر بولی ”ہاں دیکھ لو! دُنیا میں فالتو کوئی نہیں ہوتا۔“ مگر ابھی یہ بات کٹّو کی سمجھ میں پُوری طرح نہ آئی تھی، جھٹ بولی، ”پر یہ چندُو نِگوڑا تو فالتو ہی ہے۔“
بطّو قَیں قَیں کر کے ہنسی اور اُس نے پانی میں ڈُبکی لگا لی۔
ایک صُبح رحمت نے تھان پر دیکھا تو چندُو اُونگھ رہا تھا۔ شام کو جو دانہ دیا تھا وُہ یُوں ہی پڑا تھا۔ چندُو بہت بیمار ہو گیا تھا۔
بڑے میاں گھبرا گئے۔ چندُو ہی تو اُن کی روزی کا سہارا تھا۔ پاس والے قصبے میں مویشیوں کا شفا خانہ تھا۔ چندُو کو وہاں لے گئے۔ کٹّو دِن میں کئی مرتبہ جا کر چندُو کے دانے پر چونچ مارتی تھی، مگر آج چندُو تھا نہ اُس کا دانہ۔ اُس کا سُونا سُونا تھان بہت بُرا لگ رہا تھا۔
ہفتہ بھر چندُو شفا خانے میں رہا اور اِسی وجہ سے رحمت کو کوئی مزدُوری نہ مِل سکی۔ مہینے کے آخری دِن تھے۔ گھر میں ایک پیسا بھی نہ تھا۔ کٹّو کا دانہ بھی نہ آ سکا تھا اور اُس کے بچّے بہت بُھوکے ہوئے تو بڑی بی کے پاس جا کر کٹ کٹ کرنے لگے۔
بڑی بی کہنے لگیں ”ارے میں تم کو کہاں سے دانہ دوں؟ گھر میں کیا رکّھا ہے، دُعا کرو چندُو اچّھا ہو کر آئے، بڑے میاں کو کام مِلے تو گھر بَھر کے پیٹ میں روٹی پڑے۔“ کٹّو اپنے بچوں کو لیے ڈربے میں جا کر بیٹھی اور اس رات کٹو نے دعا مانگی۔ ”اللہ میاں چندُو کو اچّھا کر دو۔ چندُو تو بڑے کام کا ہے۔ اللہ میاں میری توبہ ہے۔ اَب مَیں چندُو کو کبھی فالتو نہیں کہُوں گی۔“
دُوسری صُبح کٹّو اپنے بچّے لے کر نِکلی تو دیکھا بڑے میاں چندُو کو ریڑھی میں جوت رہے ہیں۔ اس شام بڑے میاں واپسی میں بہت سا سامان لائے جس میں کٹّو کا دانہ بھی تھا اور پھر کٹّو نے دانے پر چونچ مارتے مارتے سوچا ”بطّو سچ ہی تو کہتی ہے کہ دُنیا میں کوئی بھی فالتو نہیں۔“
(نوٹ: اس کہانی کے جُملہ حقوق بحقِ پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ محفوظ ہیں۔ مصنفین: ڈاکٹر اصغر علی شیخ، الطاف فاطمہ، ایم اسحاق جلالپوری، اور اختر الحسن بھٹی۔ امید تو یہی ہے کہ اس کہانی کو اپنے بلاگ پر شائع کرنے سے کسی قسم کی قانونی بد مزگی نہیں ہو گی۔)شکریہ