یہ 11دسمبر 2003ء
کا ذکر ہے۔ سہ پہر کے تین بج رہے تھے۔ تھکے ماندے گلی میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ
سب سے چھوٹی بیٹی یمنیٰ گھر کے دروازے پر اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر بیٹھی
گویا انتظار کر رہی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی اُس نے گیٹ سے گھر کے اندر کی طرف منہ
ڈالا اور ایک زوردار نعرہ مارا:
’’ابو آگئے!‘‘
اُس کا یہ نعرہ سن کر عمار اور شمامہ بھی گھر سے نکل آئے۔ عمار میاں نے
(جن کی عمر اُس وقت بارہ برس ہو چکی تھی) اپنے مخصوص سنسنی خیز انداز میں خبر دی:
’’ابو! جنھوں نے آپ کا نکاح پڑھایا تھا، اُن
کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے‘‘۔