میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

وہ ہمارے تابوت میں آخری کیل ٹھونک گئے

یہ 11دسمبر 2003ء کا ذکر ہے۔ سہ پہر کے تین بج رہے تھے۔ تھکے ماندے گلی میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ سب سے چھوٹی بیٹی یمنیٰ گھر کے دروازے پر اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر بیٹھی گویا انتظار کر رہی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی اُس نے گیٹ سے گھر کے اندر کی طرف منہ ڈالا اور ایک زوردار نعرہ مارا:
’’ابو آگئے!‘‘
اُس کا یہ نعرہ سن کر عمار اور شمامہ بھی گھر سے نکل آئے۔ عمار میاں نے (جن کی عمر اُس وقت بارہ برس ہو چکی تھی) اپنے مخصوص سنسنی خیز انداز میں خبر دی:
’’ابو! جنھوں نے آپ کا نکاح پڑھایا تھا، اُن کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے‘‘۔

ہم تھکے ہوئے تو تھے ہی۔ بیزاری سے بولے:
’’وہ تو ہونا ہی تھا۔ مگر یار تمھیں ہر وقت مذاق ہی سوجھتا رہتا ہے۔ اتنی پرانی بات پر مولانا کو اب پچھتاوا ہوا؟ ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘۔
اِس ساری گفتگو میں سے عمار میاں کو صرف لفظ ’مذاق‘ سمجھ میں آیا۔ اُنھوں نے پوری سنجیدگی سے کہا:
’’ابو میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ عبید بھائی کا فون آیا تھا۔ شاید اُن کا انتقال ہوگیا ہے‘‘۔
اتنے میں اہلیہ بھی دروازے تک آچکی تھیں۔ کہنے لگیں:
’’یقین نہیں آرہا ہے۔ ابھی ابھی آپ کے لیے ’جسارت‘ سے بھی فون آیا تھا۔ الیاس سومرو تھے۔ انھیں بھی خبر نہیں تھی۔ کہہ رہے تھے کہ معلوم کرکے دوبارہ فون کروں گا‘‘۔
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ (اُس وقت تک موبائل فون عام ہوا تھا، نہ ہمارے پاس تھا)۔ فون پر سومرو صاحب ہی تھے اُنھوں نے اپنی مخصوص صحافتی زبان میں بتایا:
’’خبر درست ہے۔ آج دوپہر مولاناشاہ احمد نورانی پارلیمنٹ لاجز میں اپنی قیام گاہ پر غسل کرکے باہر تشریف لائے تو سینے میں درد کی شکایت کی۔ اُنھیں فوراً پولی کلینک لے جایا گیا۔ مگر جاں بر نہ ہوسکے۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے انتقال فرماگئے‘‘۔


مولانا سے ہماری قلم درازیوں کا تعلق بہت پرانا تھا۔ ہم نے کالم نگاری کا سلسلہ 1974ء میں شروع کیا۔ مولانا کی شان میں پہلا شوخ کالم ’رسمِ منہ دکھائی‘ کے عنوان سے 12جولائی 1979ء کو شایع ہوا تھا۔ مولانا ہمارے کالموں پر کبھی غضبناک نہیں ہوئے۔ ہمیشہ مصنوعی خفگی کا اظہار کیا۔ ہماری کوشش بھی ہمیشہ یہی رہتی تھی کہ شوخی و گستاخی، توہین و اہانت میں تبدیل نہ ہونے پائے۔

1984ء میں ہمارے ایک ’ہم کالم‘ بھائی ’جسارت‘ چھوڑ کر ’جنگ‘ میں چلے گئے تھے۔ بڑے دھوم دھڑکّے سے گئے تھے مگر جلد ہی اُن کے کالم بند ہوگئے۔ ’آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے‘۔ پتا چلا کہ اُن کے ایک کالم پر حضرت مولانا شاہ احمد نورانی نے خود میر خلیل الرحمٰن سے احتجاج کیاہے، جس پر اُن کے کالم بند کردیے گئے ہیں۔ ہمیں افسوس کے ساتھ ساتھ اس بات پر تعجب بھی ہوا۔ مولانا تو کسی مسخرے سے مسخرے کالم نگار یا کارٹونسٹ کی تحریروں اور لکیروں کا بُرا نہیں مانتے تھے۔ موصوف کی کسی بات کو سنجیدگی سے کیسے لے لیا؟ دوستی اپنی جگہ، مگر ہمارے دوست نے بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تھا۔ غیر محتاط الفاظ استعمال کیے تھے۔ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی طرف سے ایک فرضی روزنامچہ لکھتے ہوئے یہ فقرہ بھی تحریرکر گئے کہ:
’’آج … کی غیبت سن کر میری طبیعت کو بڑی فرحت ہوئی‘‘۔
نقطوں کی جگہ ایک ’مسلکی مخالف‘ کا ذکر تھا۔ ’غیبت‘ کو جسے ’مردہ بھائی کا گوشت کھانے‘ کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے، مولانا کے لیے فرحت بخش غذا قرار دینا زیادتی کی بات تھی۔

یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ مولانا کی ’پان خوری‘ بہت مشہور تھی اور اکثر ہدفِ تنقید بنتی رہتی تھی۔ ایک بار صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی مولانا کا نام لیے بغیر ’قوم کی پان خوری‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اعداد و شمار پیش کر کے بتایا کہ محض اس پتے کو درآمد کرنے پر قوم کا کتنا زرِ مبادلہ خرچ ہو جاتا ہے۔ ضیاء الحق صاحب کی یہ پریس کانفرنس مولانا کے دِل پر’ٹھک‘ کرکے لگی۔ ضیاء صاحب اُس زمانے تک سر عام (بلکہ برسرپریس کانفرنس بھی) سگریٹ پیا کرتے تھے۔ مولانا نے اُن کی سگریٹ نوشی کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا:
’’اگر ضیاء صاحب ’ڈَن ہِل‘ پینا چھوڑ دیں تو ہم پان کھانا چھوڑ دیں گے‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ضیاء صاحب نے اس چیلنج کو قبول کرلیا اور سگریٹ ہی پینا چھوڑ دیا۔ مگر مولانا سے ’پان خوری‘ نہ چُھٹ سکی۔

جولائی 1986ء میں ہمارے ’یوم النکاح‘ سے ایک روز پہلے ہماری ہونے والی سسرال سے ایک معزز ہرکارہ آیا اور ہم سے ’استفتا‘ فرمایا:
’’اگر آپ کا نکاح پڑھانے کے لیے حضرت مولانا شاہ احمدنورانی کو مدعو کرلیا جائے تو کہیں ’ابونثر‘ کو کوئی حرج تو نہ ہوگا؟‘‘
ہماری ہونے والی منکوحہ ہمارے چچا کی دختر نیک اختر ہونے کے علاوہ نورانی میاں کی جماعت کے نائب صدر پروفیسر شاہ فرید الحق کی حقیقی بھانجی بھی تھیں۔ نام میں کیا رکھا ہے، مگرجب ہمارا رشتہ طے ہو گیا تھا تو ہماری ایک شریر بھتیجی، ہمیں دیکھتے ہی اپنی ہونے والی چچی کے نام کی رعایت سے یہ ’جماعتی‘ نعرہ لگانے لگتی تھی:
’’ربِّ کعبہ، ربِّ کعبہ … نصرت بھیج، نصرت بھیج‘‘
ہم نے ہرکارے کے حضور عرض کیا:
’’ہرگز کوئی حرج ہوگا نہ اعتراض ہوگا۔ بلکہ خوشی ہوگی۔ البتہ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کو ’ابونثر‘ کا یہ پیغام ضرور پہنچا دیجیے گا کہ وہ نکاح سنجیدگی سے کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا خطبۂ نکاح بھی عالمانہ ہی ہونا چاہیے، کالمانہ نہیں‘‘۔
ہمیں خوشی ہے کہ مولانا نے اپنی روایتی شفقت، محبت، علمیت، مسکراہٹ اور انتہائی درست شین قاف کے ساتھ ہمارا نکاح پڑھایا۔ ’کا لمیت‘ اُنھوں نے فقط اتنی دکھائی کہ ایجاب و قبول جب بہ زبانِ اُردو کروا چکے تو بڑی شریر مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا:
’’میاں یوں کہیے …قَبِلْتُ ‘‘
اور اُنھوں نے ہمارے عقد کو اُس وقت تک منعقد نہیں قرار دیا، جب تک ہم نے حلق کی گہرائیوں سے (جہاں سے ہم جیسے بے علمے صرف قے کرتے ہیں) … قَبِلْتُ … کہہ کر بیگم صاحبہ کو عربی میں بھی قبول نہ کر لیا۔

عین تقریبِ نکاح کے وقت ایک ایسا واقعہ ہوا کہ ہم سمجھے اب بدمزگی ہوجائے گی۔ ہمارا ایک ننھا منا سا شریر بھتیجا ابوالاعلیٰ حسب عادت اپنے چچا کی گود میں آکر بیٹھ گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ چچا اِس وقت مشکل میں ہیں اور دولھا بنے بیٹھے ہیں۔ شاید صرف یہ دیکھا کہ دونوںطرف دو ’مولوی ٹائپ‘ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ دائیں جانب حضرت مولاناشاہ احمد نورانی اور بائیںجانب پروفیسر شاہ فرید الحق۔ ننھے ابوالاعلیٰ نے اپنی ننھی منی سی گردن اوپر اُٹھا اُٹھاکر اور چچا کی ٹھوڑی پکڑ پکڑ کر بار بار پوچھنا شروع کردیا:
’’چچا ایک لطیفہ سناؤں؟… چچا ایک لطیفہ سناؤں؟‘‘
چچا تو اُس وقت خود ہار پھول پہن کر ایک لطیفہ بنے بیٹھے تھے۔ بہت کہا کہ:
’’نہیں … نہیں … یہ غضب نہ کرنا‘‘۔
مگر بچہ کہاں ماننے والا تھا۔ اجازت ملے بغیر ہی اپنی زبان میں لطیفہ شروع کردیا… سنیں چچا سنیں… ایک مولوی ہوتا ہے … ایک اُس کا مؤذن ہوتا ہے … مولوی صاحب میلاد پڑھ رہے ہوتے ہیں … مؤذن اُن کے کان میں آکر پوچھتا ہے… ’لڈو کیسے بانٹوں؟‘ … مولوی صاحب میلاد پڑھتے پڑھتے کہتے ہیں … (اب یہاں سے بچہ بڑے ترنم سے گاگا کر سنانا شروع کردیتا ہے) …
بچوں کو ایک اِک ملے گا … بڑوں کو دو، دو ملیں گے … مولوی کو ڈبا ملے گا …یا نبی سلام علیکَ!‘‘
ہماری تو روح فنا ہوگئی۔ ہم کان دبائے اور ’نکاح روبرو‘ کیے بیٹھے رہے۔ بھتیجے کو بہت بھگانے کی کوشش کی۔ مگر وہ کہاں بھاگنے والا تھا۔ جب مترنم حصہ جھوم جھوم کربار بار دوہرانے لگا تو حضرت مولانا شاہ احمد نورانی نے ہماری گھبراہٹ بھانپ کر خود ننھے میاں کو چمکارا، پچکارا اور بڑے پیار سے پوچھا:
’’بیٹے آپ کانام کیا ہے؟‘‘
بیٹے نے بڑی کڑک دار آواز میں جواب دیا:
’’ابوالاعلیٰ‘‘
مولانا گھبراکر کسی اور طرف دیکھنے لگے۔

اس تقریبِ سعیدکے بعد مولانا کی شفقت و محبت میں اضافہ ہوگیا تھا۔ جب بھی کہیں اور کبھی ملاقات ہوتی تو ہمارے چچا کی خیریت ضرور دریافت فرماتے، کہ وہ بھی ان ہی کی طرح ’مریضِ دل‘ تھے۔ کسی سے ہمارا تعارُف کرانا پڑجاتا تو چچا ہی کے رشتے سے ہمیں اپنا ’داماد‘ قرار دیتے۔ اتفاق دیکھیے کہ ہمیں زندگی کے ایک نئے سفر پر گامزن کردینے کے بعد مولانا سے ہونے والی اکثر ملاقاتیں یاتو ہوائی اڈّوں پر ہوئیں یا ہوائی جہازوں میں۔ اُن سے ہونے والی آخری ملاقات بھی ’حسبِ اتفاقاتِ سابقہ‘ ہوائی جہاز ہی میں ہوئی تھی۔

جب ہمارے کالموں کا انتخاب ’زیر و زبر‘ کے نام سے شایع ہوا تو ہم اپنی اِس ’پہلوٹھی‘ کی کتاب کے چند نسخے لے کر قدردانوں میں تقسیم کرنے کے لیے اسلام آباد سے کراچی جارہے تھے۔ جہاز میں بیٹھے تو پھر وہی اتفاق ہوا۔ ہم بیٹھ چکے تھے کہ مولانا جہاز میں داخل ہوئے اور ہم سے چند نشست آگے تشریف فرما ہوگئے۔ ہم نے جلدی سے بالائے سر بنے ہوئے خانے میں سے اپنا ’بریف کیس‘ اُتارا، اُس میں سے کتاب کا ایک نسخہ نکالا۔ تیزی سے چند سطریں اُس پر گھسیٹیں اور لے کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ بعد سلام کے، اُنھیں کتاب پیش کی تو بہت خوش ہوئے۔ اپنی مخصوص پُرکشش مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں ’کتاب خواں‘ سے ترقی کرکے ’صاحبِ کتاب‘ ہوجانے پر مبارکباد پیش کی۔ ہمارے قلم سے لکھا ہوا اپنے نام ’کتابی انتساب‘ پڑھ کر مزید مسکرائے۔ اپنی جیب سے اپنا قلم نکالااورہمارے لکھے پر اپنے لکھے، یعنی اِس لفظ کا اضافہ کردیا: ’’در جہاز‘‘۔ اس کے بعد داد طلب مسکراہٹ سے ہمیں پھر دیکھا۔
ہم واپس آکر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ ’بلند گو ‘پر کراچی پہنچ جانے اور جہاز کے اُترنے کی تیاریوں کا اعلان سن کر ہم نے ایک بار پھر مولانا کی طرف دیکھا تو وہ اپنا بریف کیس کھول کر ہماری کتاب اُس میں رکھ رہے تھے۔ گویامولانا راستے بھر ہمارے شوخ و گستاخ کالموں سے دادِ سفر دیتے رہے۔ ہمارے لیے بڑی خوشی اور فخر کی بات تھی کہ مولانا کے لیے ہماری کتاب ’بور‘ نہیں ثابت ہوئی۔

جیسا کہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں، مولانا اکثر ہمارے اِن شوخ و گستاخ کالموں کی داد ایک مصنوعی خفگی بھری دلفریب مُسکراہٹ سے دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایک طویل …’ہُوں‘ … کرکے بڑے معنی خیز انداز میں اپنی گردن بھی اوپر نیچے ہلاتے۔ ایسا ہی اُس وقت بھی ہوا جب ہم نے ’آخری کیل ٹھونک دی‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔ ایک بار پھر یہی سوچ کر کہ … دامن کو آج اُن کے، ’ظریفانہ‘ کھینچیے …ہوا یوں کہ مولاناکے کسی عقیدت مند نے ایک اخباری بیان داغ دیاکہ:
’’مولانا شاہ احمد نورانی نے پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کے تابوت میں آخر ی کیل ٹھونک دی‘‘۔
یہ بیان پڑھ کر ہم بھی ضمیر جعفری والی کیفیت سے سرشار ہوگئے کہ … ’طبیعت اچانک رواں ہوگئی ہے‘ … اورفی الفور ایک کالم سرزد ہوگیا جو مارچ 1990ء کے ’جسارت‘ میں شایع ہوا۔ اُس کالم سے چند اقتباسات آپ کی دلچسپی کا باعث ہوں گے:
’’بیان میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ دونوںپارٹیوں کے لیے الگ الگ تابوت تیار کیے گئے، اور اُن میں الگ الگ ’آخری کیل‘ ٹھونکی گئی یا دونوں پارٹیوں کا ایک ہی تابوت تیار کرکے، دونوں میں ایک ہی ’آخری کیل‘ ٹھونک کر دونوں کا ایک ساتھ کام تمام کر دیا گیا‘‘۔
’’اِس بات پر توخیر یقین کیا جاسکتا ہے کہ کسی کارگاہ میں پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کے لیے تابوتوں کی تیاری کا کام کیا جارہا ہو۔ جب یہ دُنیا ہی فانی ہے تو کیا پیپلز پارٹی اور کیا آئی جے آئی؟ ایک نہ ایک دن سب ہی کا تابوت تیار ہونا ہے۔ لہٰذا تابوتوں کا تردّد ہمیں نہیں۔ البتہ اِس بات پر ضرور تشویش و تردّد ہے کہ کیا مولانا نے اپنا مشغلہ بدل لیا؟… یا …کیا اپنی دیگر گوناگوں مصروفیات کے ساتھ ساتھ … مولانانے تابوتوں میں کیلیں ٹھونکنے کا کام بھی شروع کردیا ہے؟ ہم نے یہ منظر تو بارہا دیکھا ہے … اور آپ نے بھی کم ازکم تصاویر میں تو دیکھا ہی ہوگا کہ … مولانا کہیں میلاد پڑھ رہے ہیں، کسی کا جنازہ پڑھا رہے ہیں، کسی کے لیے دُعائے مغفرت کر رہے ہیں، کسی سیاسی جلسے سے خطاب فرمارہے ہیں اور کسی کے خلاف پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ مگر واﷲ یہ منظر ہماری گنہگار آنکھوں نے بھی (بے حد گنہگار ہونے کے باوجود) کبھی نہیں دیکھا کہ مولانا اپنے ہاتھوںمیں ہتھوڑا لیے اور (آخری) کیل پکڑے، کسی تابوت کے سامنے کھڑے اوّل الذکر کی مدد سے، ثانی الذکر کو، آخرالذکر میں ٹھونکنے کی کوشش کر رہے ہوں‘‘۔
’’نہیں صاحب نہیں … ’یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی‘:
یہ  باتیں  جھوٹی  باتیں  ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم  ’مولانا‘   کا  نام  نہ  لو ،  کیا  ’مولانا‘ سودائی  ہیں
اخبار میں چھپ جانے کے باوجود ہمیں یقین نہیں آرہا ہے کہ مولانائے مکرم تابوتوں میں کیلیں بھی ٹھونکتے ہیں یا کم از کم ’آخری کیل‘ تو ضرور ہی ٹھونک دیتے ہیں۔ گوکہ ابھی حال ہی میں مولانا کی ’جمعیت علماء‘ کے کچھ لوگ ان کے حلقۂ ارادت سے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں اور بھاگ کر ’جمعیت علمائے پاکستان‘ کا ایک علیٰحدہ گروپ بنا بیٹھے ہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ کسی اور ڈر سے بھاگے ہوں گے‘‘۔
’’ابھی ہم اپنا کالم یہیں تک لکھ پائے تھے کہ ایک صاحب بھاگے بھاگے، بھوں بھوں روتے اور آنسوؤں سے منہ دھوتے، چیختے چلاتے ہمارے پاس چلے آئے۔ اورسخت احتجاجی لہجے میں ہمیں ڈانٹ ڈانٹ کرکہنے لگے کہ:
’’صاحب ! آپ یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ مولانا تابوتوں میں ’آخری کیل ٹھونکنے‘ کا کام کبھی نہیں کرتے؟بالکل کرتے ہیں!‘‘
ہم نے پوچھا:
’’کیا آپ نے کبھی خود اپنی آنکھوں سے انھیں یہ کام کرتے دیکھا ہے؟‘‘
بلبلا کر بولے:
’’دیکھنا چہ معنی دارد؟ ہم نے تو بھگتا ہے۔ ہم اچھی بھلی چین کی بانسری بجا رہے تھے کہ ایک دن مولانا آئے اور ہمارا نکاح پڑھا کر چل دیے‘‘۔


مصنف :           احمد حاطب صدیقی۔(ابو نثر

حوالہ :                        (مصنف کی کتاب ’’جو اکثر یاد آتے ہیں‘‘ سے انتخاب)



ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]