میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

مرگِ انبوہ (Holocaust)

مرگ انبوہ، جسے انگریزی میں Holocaust بھی کہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران قتلِ عام کا شکار ہونے والے تقریباً یہودیوں کی جرمنی کے چانسلرایڈوولف ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت سے منسوب ہے۔
اس کو یہودیوں کی نسل کشی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ہولوکاسٹ دراصل یونانی لفظ  ὁλόκαυστον (Holókauston)سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں”مکمل جلادینا“۔
اس طرح سے لاکھوں یہودی مرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے، غلاموں،معذوروں، ہم جنس پرستوں، سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔تاہم بیشتر ماہرین دیگر قومیتی و مذہبی افراد کے قتلِ عام کو مرگِ انبوہ کا حصہ ماننے سے صریحاً انکار کرتے ہوئے، اس کو یہودیوں کا قتلِ عام قرار دیتے ہیں یاجسے نازیوں نے”یہودیوں کے سوال کا حتمی حل“ قراردیا۔ اگر نازی افواج کی بربریت کا شکار ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد تقریباً نو سے گیارہ ملین (90 لاکھ سے ایک کڑور دس لاکھ) تک جا پہنچتی ہے۔یہ انسانیت سوز مظالم و نسل کشی کی مہم مرحلہ وار انجام دی گئی۔
یہودیوں کو مہذب معاشرے سے الگ کردینے کی قانون سازی دوسری جنگِ عظیم سے کئی سال پہلے کی جا چکی تھی۔ خصوصی توجیہی کیمپس میں قیدیوں سے اُس وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا جب تک وہ تھکن یا بیماری کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔ جب نازی فتوحات کا سلسلہ مشرقی یورپ میں پہنچا تو اینساٹزگروپین (جرمنی کی خصوصی ٹاسک فورس) کو یہ ہدف دیا گیا کہ یہودیوں اور سیاسی حریفوں کو بے دریغ قتل کر دیا جائے۔ یہودیوں اوررومانیوں کو سینکڑوں میل دور بنائے گئے، مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح کی ریل گاڑیوں میں ٹھونس کر گھیتومنتقل کردیا گیا، جہاں زندہ پہنچ جانے کی صورت میں اُنہیں گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ جرمنی کے تمام افسرِ شاہی اس عظیم نسل کشی میں پیش پیش تھے، جس نے اس ملک کو”نسل کشی کے اڈے“ میں تبدیل کردیا۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مرگ انبوہ پر ترمیم پسندانِ مرگ انبوہ (یہ خود کو Revisionists کہلاتے ہیں مگر یہودی اور مرگ انبوہ پر مکمل یقین رکھنے والے ان کو Holocaust deniers کہتے ہیں) کے گروہ بھی موجود ہیں جن میں دانشور، مصنفین اور متحققین شامل ہیں۔ مگر دنیا میں 13 ممالک، جن میں فرانس اور جرمنی شامل ہیں، میں ایسے قوانین ہیں جو مرگ انبوہ پر کسی بھی نظر ثانی بلکہ اس کے بارے میں تحقیق کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اس پر تحقیقی بحث سے بھی بعض ممالک میں تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہوسکتے ہیں۔
**مرگِ انبوہ کے شکار:-
مرگِ انبوہ کی اصطلاح دراصل یونانی لفظ (Holókauston) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب”مکمل جلادینا“ یا راہِ خدا میں جان قربان کردینا ہے۔ اسی لفظ کیلاطینی شکل (Holocaustum) کو پہلی دفعہ یہودیوں کے قتلِ عام سے بارہویں صدی کے وقائع نگاروں روجرآف ہاؤڈن اور رچرڈ آف ڈیوس نے 1190ءمیں منسوب کیا۔اُنیسویں صدی کے اوائل تک یہ لفظ ناگہانی آفتوں اور مصیبتوں کے لئے مستعمل رہا۔ بائبل میں استعمال ہونے والا لفظ سوہ (שואה) (انگریزی میں Sho'ah اور Shoa)، جس کے معنی آفت کے ہیں 1940ء کے اوائل میں عبرانی میں ہولوکاسٹ کا متبادل مستند لفظ بن گیا۔سوہ کو یہودی بھی کئی وجوہات کی بناء پرزیادہ موزوں سمجھتے ہیں، جن میں سے ایک لفظ ہولوکاسٹ کی دل آزارہیئت بھی ہے۔
** تعریف:-
اٹھارہویں صدی تک لفظ ہولوکاسٹ ایسے واقعات کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، جس میں پرُ تشدد طریقوں سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا زیاں ہوا ہو۔مثال کے طور پر ونسٹن چرچل اور اُن کے ہم عصر ادیب و کالم نگار دوسرے جنگِ عظیم سے قبل یہ لفظ آرمینیوں کے قتل عام اور پہلی جنگ عظیم کے لئے استعمال کرتے تھے۔1950ء سے اس لفظ کے استعمال سے اجتناب کا رجحان بڑھا ہے اور اب یہ لفظ مرگِ انبوہ یا ہولوکاسٹ کے نام سے نازی مظالم کی یاد بن کر رہ گیا ہے، جس کو انگریزی میں بڑے H سے لکھا جاتا ہے۔ ”مرگِ انبوہ“ دراصل ہولوکاسٹ کا اردو ترجمہ ہے لیکن ہولوکاسٹ بھی عبرانی لفظ سوہ کا ترجمہ ہے، جس میں معنی ناگہانی آفت، مصیبت، وبا یا تباہی کے ہیں جوکہ 1940ء میں یروشلم میں چھپنے والے ایک کتابچے میں استعمال ہوا، جس کا عنوان تھا ”پولینڈ کے یہودیوں کا قتلِ عام“، اس سے قبل سوہ یا سوہا کا استعمال نازیوں کو مصیبت یا آفت سے مشابہت دینے کے لئے کیا جاتا تھا مثلاً 1934ء میں چیم عزرائل ویزمین نے صیہونی عملی کمیٹی کو کہا تھا کہ ہٹلر کا اقتدار میں آنا "unvorhergesehene Katastropha, etwa ein neur Weltkrieg" ترجمہ: ”ایک ناگہانی مصیبت ہے یا ایک نئی جنگ عظیم“، عبرانی صحافتی اداروں نے لفظ "Katastropha" کا متبادل ترجمہ سوہا کے طور پر کیا تھا۔1942ء کے وسط میں یروشلم کے مؤرخ بینزون دینئیر (دینابرگ) نے متحدہ امدادی کمیٹی برائے یہودانِ پولینڈ کے ذریعے ایک کتاب چھپوائی اور اس میں لفظ سوہا کا استعمال یورپ میں یہودیوں کو مٹانے کے کوششوں وضاحت میں کیا اور اس کو یہودیوں کے لئے ایک ناگہانی مصیبت و ایک نئی صورتحال قرار دیا، جس سے یہودی کبھی نبردآزما نہیں ہوئے تھے۔
لفظ ”سوہ“ کا انتخاب اسرائیل نے مرگِ انبوہ کی وضاحت کے لئے کیا، اس اصطلاح کی منظوری 12 اپریل، 1951ء کو اسرائیلی قانون سازی کے ادارے نے دی جس کو ”الكنيست“ بھی کہا جاتا ہے اور اس کو قومی یادگار دن کے طور پر منانے کی بھی منظوری دی۔1950ء تک مرگِ انبوہ”یاد ویشم“ کے نام سے مشہور ہوگیا، جس کو عام طور پر یورپی یہودیوں کے قتلِ عام سے منسوب کرنے کے لئے استعمال کیاجاتا تھا۔عام طور پر جرمن نازی دورمیں یہودیوں کی نسل کشی کے لئے”Endlösung der Judenfrage “ یعنی”یہودیوں کے سوال کا حتمی حل“ استعمال کرتے تھے۔ انگریزی اور جرمنی دونوں میں لفظ ”حتمی حل“ کو مرگِ انبوہ کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔دوسرے جنگ عظیم کے بعد ایک عرصے تک جرمن مورخین اس کے لئے ”Völkermord “ یعنی قتلِ عام یا اس کا مکمل جملہ “der Völkermord an den Juden“ یعنی “یہودی لوگوں کا قتلِ عام“ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے جبکہ آج کل جرمنی میں اس کی عام اصطلاح ”مرگِ انبوہ“ یا”سوہ“ ہے۔ لفظ مرگِ انبوہ کا استعمال محض یہودیوں کی نسل کشی کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس لفظ کی مدد سے نازیوں کے غیر انسانی مظالم کے وسیع تر معنوں میں وضاحت بھی پیش کی جاتی ہے۔ جس میں مختلف قوموں اور مذاہب کے لوگوں کی مثالیں دی جاتی ہیں مثلاً رومانیہ سے ہجرت کرنے والے تقریباً پانچ لاکھ رومانیوں، جپسیوں اورسنتیوں کا قتلِ عام،سوویت یونین کے لاکھوں جنگی قیدیوں کی ہلاکت، جنسی بے راہ روی کے شکاروں، معذروں اور اس کے علاوہ بے شمار سیاسی و مذہبی حریفوں کو موت، مرگِ انبوہ میں شامل ہے۔ تاہم کئی یہودی تنظیمیں اس لفظ کو دیگر معنوں استعمال کرنے پر اعتراض کرتی ہیں خصوصاً وہ تنظیمیں جو کہ مرگِ انبوہ کی یاد یا اس کی نسبت سے بنائی گئی ہیں۔ یہودی تنظیموں کا اصرار ہے کہ لفظ مرگِ انبوہ صرف یہودیوں کی نسل کشی کے اظہار کے لئے استعمال کیا جانا چاہیئے کیونکہ اس کا اصل مقصد محض یہودیوں کا خاتمہ تھا اور یہ جرم اتنا سنگین اور اتنا گھناؤنا تھا جوکہ یورپ میں یہودی مخالف عناصر کی جانب سے کیا گیا تھا کہ اس کو نازیوں کے عام جرائم کا حصہ نہیں بنانا چاہیئے۔ اس موضوع پر شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کو جنگِ عظیم دوئم کا حصہ نہیں کہا جاتا۔ روانڈین مرگِ انبوہ، کمبوڈین مرگِ انبوہ کی اصطلاح 1994ء میں روانڈامیں ہونے والے قتلِ عام اور نسل کشی کے واقعات کے لئے استعمال کی جاتی ہے، جس میں کمبوڈیا کی الخمير الحمر کی حکومت ملوث تھی اور افریقی مرگ انبوہ کی اصطلاح افریقہ میں ہونے والی غلاموں کی تجارت اور افریقی نوآبادبستیوں میں ہونے والے قتلِ عام کے اظہار کے لئے ہے، جس کومافا بھی کہا جاتا ہے۔
**نمایا ں خدوخال:-
مشہور امریکی قلم کار مائیکل بیرینبون لکھتے ہیں کہ جرمنی ایک ”قتل گاہ“ بن چکا تھا۔ملک کے تمام افسر شاہی اس قتلِ عام میں کسی نہ کسی طرح ملوث تھے۔ بستی کے کلیساؤں اور وزارتِ داخلہ کے ریکارڈ سے یہ پتہ چلایا جاتا تھا کہ کون یہودی ہے۔ محکمہ ڈاک ملک بدری کے احکامات ارسال کیا کرتا تھا، وزارتِ خزانہ نے یہودیوں کی املاک ضبط کیں، جرمنی کے کاروباری اداروں نے یہودیوں کو ملازمت سے نکال دیا، یہودی سرمایہ داروں کو سرمائے سے محروم کردیا گیا، جامعات و تعلیمی اداروں نے یہودیوں کو داخلہ دینے سے منع کردیا اور جو پہلے سے زیرِ تعلیم یا فارغ التحصیل تھے، اُن کی ڈگری کو منسوخ کردیا گیا اور یہودی اساتذہ کو بھی ملازمت سے فارغ کردیا گیا، حکومتی مال برداری کے اداروں نے یہودیوں کو بذریعہ ریل گاڑی کیمپ میں پہنچانے کے انتظامات کئے، جرمنی کی ادویات بنانے والی فیکٹریوں نے کیمپ میں مقید یہودی قیدیوں تجرباتی دواؤں کو آزمانا شروع کردیا، مختلف کمپنیوں نے چولھے تیار کرنے کے لئے بولیاں لگائیں، مرگ انبوہ کا شکار ہونے والی کی فہرستیں تیار کرنے کے لئے جرمنی کی دیھومیگ کمپنی کی پنچنگ مشینیں استعمال کی گئیں، جنہوں نے تمام تر جزئیات کے ساتھ قتل ہونے والوں کا ریکارڈ مرتب کیا۔ جیسے ہی قیدی قتل کے لئے بنائے گئے خصوصی کیمپس میں لائے جاتے تھے، اُنہیں اُن کی تمام املاک جرمنی کے حوالے کرنی پڑتی تھیں، جن کو جانچ پڑتال اور باقاعدہ فائل بندی کے بعد الگ سے پرچی لگا کر حکومتِ جرمنی کو بھیج دیا جاتا تھا کہ وہ ان کو قابلِ استعمال یا دوبارہ سے کارآمد بنا سکے۔ مائیکل بیرینبون لکھتا ہے کہ ”یہودیوں کے سوال کا حتمی حل“ جرمنی کی نظر میں یہودیوں کی نسل کشی ”جرمنی کا عظیم ترین کارنامہ“ تھا۔امریکن نژاد یہودی مؤرخ ساؤل فرائیڈلینڈرلکھتا ہے کہ:”کسی ایک سماجی گروہ، مذہبی جماعت، تعلیمی ادارے یا پیشہ ورانہ اتحادیوں نے اس موقع پر یہودیوں سے باہمی تعاون کا اظہار نہیں کیا۔“وہ مزید لکھتا ہے کہ علاقائی مسیحی کلیساؤں نے یہ اعلان کیا کہ وہ یہودی جوکہ اپنے دین کو چھوڑ چکے ہیں، اُن کو مسیحیوں میں شمار کیا جائے لیکن وہ بھی ایک حد تک۔
اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے فرائیڈلینڈر کہتا ہے کہ مرگِ انبوہ کی ہولناکی بڑھنے کی وجہ یہودی سے نفرت پر مبنی حکمتِ عملی تھی جس کی بدولت امدادی ٹیموں اور تنظیموں کی مداخلت (جو کہ تقریباً ہر مہذب معاشرے میں موجود ہوتی ہیں) کے بغیر تمام صنعتوں، چھوٹے تجارتی اداروں، کلیساؤں کے اشتراک سے یہودیوں کے خلاف اتنی بڑی کاروائی ممکن ہوسکی۔
**اغلب نظریات اور نسل کشی کا میزان:-
نسل کشی کے دوسرے واقعات کی بہ نسبت اس نسل کشی میں علاقائی حکومت اور وسائل نسل کشی کا مرکزی کردار تھے۔ جامعہ عبرانی، یروشلم کے مشہور مؤرخ پروفیسریہودا باویر کہتے ہیں کہ:
”مرگِ انبوہ کا محرک خالصتاً نظریاتی تھا، جس کی بنیاد نازیوں کی تصوراتی دنیا تھی، جہاں ایک عالمی یہودی سازش دنیا پر حکومت کرنے کے درپے تھی اور نازی اس کے مقابلے میں ایک مقدس جنگ لڑ رہے تھے۔ نسل کشی کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی نسل کشی فرضی حکایات اور فریبِ خیالات کی بنیاد پر نہیں کی گئی، انتہائی بے بنیاد، کبیدہ خاطر نظریہ-- جس پر بڑے منظم انداز میں نتائج سے بے نیاز ہوکر عمل کیا گیا۔“
نازیوں کے زیرنگیں تمام علاقوں میں مذبح خانے تھے، جہاں انسانی ذبیحہ کیا جاتا تھا، اب اُن علاقوں میں 35 مختلف یورپی ممالک موجود ہیں۔وہ وسطی اور مشرقی یورپ کے لئے بدترین وقت تھا،1939ء یورپ میں تقریباً سترلاکھ (7ملین) یہودی آباد تھے، جن میں تقریباً پچاس لاکھ (5 ملین) یہودی مارے گئے۔ جس میں سے تیس لاکھ (3 ملین) پولینڈ میں قتل کئے گئے اور دس لاکھ (ایک ملین) سوویت یونین میں قتل کئے گئے ۔ اس کے علاوہ لاکھوں یہودی ہالینڈ، فرانس، بلجئیم، یوگوسلاویہ اور یونان میں قتل کیے گئے۔وانسی پروٹوکول نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ”یہودیوں کے سوال کا حتمی جواب“ کا یہ مشن انگلینڈ اور آئرلینڈ میں بھی کرنا چاہتے تھے۔ہر اس انسان کو نسل کشی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، جس کی تین یا چار نسل قبل بھی دادا، دادی، نانا یا نانی کوئی بھی یہودی تھا۔ نسل کشی کے دوسرے واقعات میں لوگوں کو جان بچانے کے لئے مذہب تبدیل کردینے یا کسی دوسرے مذہب کو قبول کرلینے پر جان بخشی کردی جاتی تھی لیکن مرگِ انبوہ کے دوران مقبوضہ یورپ کے یہودیوں کے لئے یہ گنجائش بھی نہیں تھی۔جرمنی کے زیرِ تسلط علاقوں میں یہودیوں سے نسب کے حامل تمام اشخاص کو نسل کشی کے نام پر قتل کر دیا گیا۔
**طبی تجربات:-
ٹھنڈے پانی میں ڈبوکر طبی تجربات کا ایک شکارڈچاؤ توجیہی کیمپ میں، ڈاکٹر ہولزہولنر(بائیں) اور ڈاکٹر راشر (دائیں) کی سربراہی میں مرگِ انبوہ کا ایک اور پہلو انسانی جانوں کا طبی تجربات کے لئے بے دریغ استعمال بھی تھا۔ جرمنی کے علم طب کے ماہرین نے ایسے تجربات آشویتس،ڈچاؤ، بوچن والڈ، ریوینسبرک،سشین ہواسین اور ناٹزویلر میں قائم توجیہی کیمپوں میں کئے۔
**طبی تجربات سے گزرنے والے رومانیہ کے بچے:-
ان میں پیش پیش جرمنی کے ممتاز ماہرِ جراحت ڈاکٹر جوزف مینگیلی تھے جنہوں نے آشویتس میں قائم کیمپ میں کام کیا۔ انسانوں کو تجربات کے استعمال کے دوران زندہ انسانوں کو پریشرچیمبرز، نئی ادویات کے تجربات، انسانوں کو منجمد کرنا، بچوں کی آنکھ میں کیمیائی محلول ڈال کر اُن کی آنکھ کی پتلی کا رنگ بدلنے کی کوشش کرنا، انسانی جسموں کی چیرپھاڑ اور اسی طرح کی غیر انسانی تجربات شامل تھے۔ان کے تجربات کا مکمل احاطہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے ان تجربات سے متعلق تمام تر مواد کاسیر ویلہیلم انسٹیٹوٹ نامی ادارے کے ڈاکٹر اتمروون ورشر کے سپرد کر دیا تھا، جسے بعد میں خود ڈاکٹر اتمروون ورشر نے تلف کردیا تھا۔جو انسان ان تجربات کے بعد بچ جاتے اُنہیں بھی ختم کر دیا جاتا یا پھر تجربے کے بعد انہیں چیرپھاڑ دیا جاتا۔ ڈاکٹر مینگیلی کے تجرباتی رجحان کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ رومانیہ کے بچوں پر ایسے تجربات کرکے بہت خوش ہوتے تھے، اسی لئے کثرت سے رومانیہ کے بچوں کو ان تجربات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ وہ ان بچوں کو خود مٹھائی اور کھلونے وغیرہ دیتا تھا اور پھر خود اُن کو گیس چیمبرز میں لے جاتا تھا۔ بچے اُس کو انکل مینگیلی کہہ کر بلاتے تھے۔وہیں کی مقامی یہودی ویرا الگزینڈر، جس نے آشویتس میں تقریباً پچاس جوڑے بچوں کو (یعنی 100 بچوں کو) ان تجربات کی بھینٹ چرھتے ہوئے دیکھا ہے، کہتی ہیں کہ” مجھے خاص طور پر بچوں کا ایک جوڑا یاد ہے: گیدو اور اینا، جن کی عمر تقریباً چار سال کے قریب ہوگی۔ ایک دن مینگیلی انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔جب وہ دونوں واپس آئے تو ان کی حالت نہایت خراب تھی، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ پشت کے ساتھ پشت ملا کر سی دیا گیا تھا، جس طرح جڑواں بچے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اُن کے زخم سڑ گئے تھے اور ان میں سے خون اور پیپ بہہ رہا تھا۔ وہ رات دن روتے رہتے تھےان کے ماں باپ، مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اُن کی ماں کا نام اسٹیلا تھا، انہوں نے اپنے بچوں کو اس تکلیف سے نجات دلانے کے لئے خود زہر دے کر قتل کردیا۔“

**مرگِ انبوہ کےدوران ہونے والی اموات:-

مرگِ انبوہ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے صحیح اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہوسکے، تاہم اُس وقت کے اعدا و شمار کے مطابق اندازوں کی بنیاد پر متاثرین و ہلاکتوں کو شمار کیا گیا۔ متاثرین و مرحومین کی تعداد لگائے گئے اندازوں کے مطابق انتہائی زیادہ ہے۔ اگر یہودیوں کو مرگِ انبوہ کا نشانہ تسلیم کر لیا جائے تو تقریباً ساٹھ لاکھ (چھ ملین) یہودی اس کا شکار ہوئے۔ اگر اس میں تقریباً تیس لاکھ (تین ملین) سوویت یونین کے جنگی قیدیوں، ڈیڑھ لاکھ (150،000) ذہنی و جسمانی معذوروں، ایک لاکھ تیس ہزار سے دو لاکھ پچیاسی ہزار روما اور سنتی کے باشندوں، پانچ سے پندرہ ہزار ہم جنس پرستوں اور اس کے علاوہ سیاسی قیدیوں، مذہبی حریفوں وغیرہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو مرگِ انبوہ میں ہلاکتوں کا میزان تقریباً نوے لاکھ (نو ملین) تک جاپہنچتا ہے اور اگر اس کے علاوہ بیس لاکھ (دو ملین) پولینڈ نژاد افراد کی اموات کو بھی شامل کرلیا جائے تو ہلاکتوں کا تخمینہ تقریباً ایک کڑوردس لاکھ (گیارہ ملین) بنتا ہے جبکہ مرگِ انبوہ کی وسیع تر تعریف کرکے اگر اس میں سوویت یونین کے عام شہریوں کی ہلاکت کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد ایک کڑورستر لاکھ (سترہ ملین) تک چلی جاتی ہے۔

**یہودی:-

نازیوں کا خصوصی دستہ سوندر کمانڈو جو کہ مرگِ انبوہ کے دوران لاشوں کو ٹھکانے لگانے پر مامور تھا، اگست 1944ء میں یہ تصویر البرٹو ایریرا نے لی تھی جو کہ اب آشویتس برکینیو عجائب گھر، پولینڈ میں ہے۔

1945ء سے عام طور پر جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ساٹھ لاکھ (چھ ملین) یہودی مرگِ انبوہ کا شکار ہوئے۔ یروشلم میں ”یاد ویشم“ مرگِ انبوہ کے شہداء اور ہرو (یہودیوں کے لئے) کی یاد میں بنائی گئی تنظیم لکھتی ہے کہ”ہلاک ہونے والے یہودیوں کے صحیح اعداد و شمار حاصل نہیں ہوسکے۔“ عام طور پر ساٹھ لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کا اندازہ بھی ایڈولف اچمین (نازیوں کے اہم فوجی افسر، جن کو مرگِ انبوہ کا منصوبہ ساز بھی کہا جاتا ہے) کے بیان کو بنیاد بنا کر لگایا جاتا ہے۔ امریکی مؤرخ اور سائنسدان راؤل ہلبرگ کے پیش ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد اکیاون لاکھ تھی، جو بعد میں جیکب لیسکہینسکی کے پیش کردہ اعداد و شمار کے بعد انسٹھ لاکھ پچاس ہزار ہوگئے۔ اس کے بعد یسرائیل گٹمین اور روبرٹ روزٹ نے مرگِ انبوہ کا ایک دائرۃ المعارف مرتب کیا اور اس میں یہودیوں کی ہلاکتیں پچپن لاکھ انسٹھ ہزار سے اٹھاون لاکھ ساٹھ ہزار بتائی گئیں۔تاہم ٹیکنیکل جامعہءبرلن کے وولف گینگ بینز کی تحقیق کے مطابق یہ تعداد باون لاکھ نوے ہزار سے باسٹھ لاکھ کے درمیان تھی۔یاد ویشم کے مطابق مندرجہ تخمینہ جنگ سے پہلے اور جنگ کے بعد کی جانے والی مردم شماری، آبادی کے اعداد و شمار اور ملک بدری اور ہلاکتوں سے متعلق نازی دستاویزات کی بناء پر مرتب کئے گئے ہیں۔ یاد ویشم کے مطابق اس میں مرگِ انبوہ کا شکار ہونے والے تقریباً چالیس لاکھ افراد کے نام بھی شامل ہیں۔
ہلبرگ کے مطابق یورپی یہودیوں کی تباہی کے تیسرے حصے میں یہ تعداد اکیاون لاکھ تک پہنچ گئی تھی، جس میں آٹھ لاکھ سے زائد وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کہ ضروریاتِ زندگی سے محرومی اور بدترین غلامانہ زندگی کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کا شکار ہوئے، چودہ لاکھ وہ افراد جن کو کھلی فضا میں گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا، انتیس لاکھ وہ بھی شامل ہیں، جن کو کیمپوں میں زندہ جلا دیا گیا۔ ہلبرگ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پولینڈ میں تیس لاکھ یہودی ہلاک ہوئے۔تاہم ہلبرگ کے مرتب کردہ ان اعداد و شمار کو قدامت پسندانہ سمجھا جا تا ہے کیونکہ اس میں صرف اُن اموات کو شمار کیا گیا ہے، جن کے متعلق ریکارڈز موجود ہیں۔، اس طرح ہلبرگ نے تمام تر خیالی و تصوراتی بڑھا چڑھا کر بتائے جانے والے اعداد و شمار کو مسترد کردیا۔برطانوی تاریخ دان مارٹن گلبرٹ نے بھی مرگِ انبوہ کے نقشہ جات مرتب کرتے وقت تقریباً اسی طرح کی تاویلات سے اتفاق کیا، جیسا کہ اوپر ہلبرگ نے تذکرہ کیا، تاہم مارٹن کے مطابق ہلاک ہونے والے یہودیوں کی تعداد ستاون لاکھ پچاس ہزار تھی، کیونکہ اس کے مطابق روس اور دوسری جگہوں پر بھی یہودیوں کی بڑی تعداد قتل کی گئی۔جبکہ لوسی ڈیوڈاوش نے جنگ سے پہلے کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی مدد سے تقریباً انسٹھ لاکھ چونتیس ہزار یہودیوں کی ہلاکت کا اندازہ لگایا ہے۔
اُس وقت اسی لاکھ سے ایک کروڑ کے قریب یہودی نازیوں کے زیرنگوں علاقوں میں آباد تھے(غیریقینی کی وجہ سوویت یونین میں یہودیوں کی صحیح تعداد کا علم نہ ہونا ہے۔)۔ ساٹھ لاکھ یہودی مرگِ انبوہ میں مارے گئے، جس کا مطلب ہے کہ کُل یہودی آبادی کا ساٹھ سے ستر فی صد، اس کی نذر ہوگیا۔ اس کے علاوہ پولینڈ کے تینتس لاکھ یہودیوں میں سے نوے فیصد قتل کردئیے گئے، تقریباً اسی تناسب سے لٹویااور لٹوانیا میں بھی یہودیوں کو قتل کیا گیا لیکن استونیا کے زیادہ تر یہودی وہاں سے وقت پر ہجرت کرگئے۔ جرمنی اور آسٹریا کے ساڑھے سات لاکھ یہودیوں میں سے صرف ایک تہائی یہودی بچ سکے۔ گو بیشتر جرمن نژاد یہودی 1939ء سے قبل ہی ترکِ وطن کرکے چیکو سلواکیہ، فرانس یا نیدرلینڈز کی طرف جا چکے تھے، جہاں سے اُنہیں ملک بدر کرکے مقتل گاہ کی طرف موڑ دیا گیا۔ چیکو سلواکیہ، یونان، نیدر لینڈز اور یوگو سلاویہ میں ستر فیصد (%70) سے زائد یہودیوں کو قتل کردیا گیا جبکہ بلجئیم، ہنگری اور رومانیہ میں یہ تناسب پچاس فیصد رہا۔بیلاروس اور یوکرائن میں بھی تقریباً اسی تناسب سے یہودیوں کو قتل کیا گیا، تاہم یہ اعداد و شمار یقینی نہیں ہیں۔ نسبتاً سب سے کم ہلاکتیں بلغاریہ، ڈنمارک، فرانس، اٹلی اور ناروے میں ہوئیں۔
**نسل کشی کے قائم کیمپوں میں ہلاکتوں کا تناسب:-
 آشویتس برکینیو میں چودہ لاکھ (4۔1 ملین)، تریبلنکہ:آٹھ لاکھ سترہزار، بیلزیک:چھ لاکھ،مجدانک:تین لاکھ ساٹھ ہزار،چیلمنو: تین لاکھ بیس ہزار،صوبیبر: دولاکھ پچاس ہزار،اور مالے ٹروستینٹس میں پینسٹھ ہزار یہودیوں کو قتل کیا گیا۔اس طرح کُل ہلاکتیں تین لاکھ اسی ہزار(8۔3 ملین) بنتی ہیں، جن میں سے اسی سے نوے فیصد (%90-80) یہودی تھےمندرجہ بالا سات نسل کشی کے کیمپوں میں ہونے والی ہلاکتیں مرگِ انبوہ کی کُل ہلاکتوں کا نصف بنتی ہیں۔ یعنی پولینڈ کی کُل یہودی آبادی ان کیمپوں میں قتل کی گئی۔ مندرجہ بالا ہلاکتوں کے علاوہ تقریباً پانچ لاکھ یہودی دوسرے نسل کشی کے کیمپوں میں موت کا شکار ہوئے، جن میں سے زیادہ تر جرمنی میں واقع تھے۔ جرمنی میں واقع یہ کیمپ دراصل نسل کشی کے لئے نہیں بنائے گئے تھے بلکہ وہاں مختلف وقتوں میں یہودیوں قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی، خصوصاً پولینڈ سے نازی افواج کے اخراج کے آخری سال کے دوران۔ ان کیمپوں میں تقریباً دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے، گوکہ ان ہلاکتوں میں یہودیوں کا صحیح تناسب معلوم نہیں تاہم قیاس ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد یہودی تھے۔ اس کے علاوہ سوویت کے مختلف مقبوضہ علاقوں میں اینساٹزگروپین کے ہاتھوں آٹھ لاکھ سے دس لاکھ یہودی قتل کئے گئے( اینساٹزگروپین کی کاروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی صحیح اعداد و شمار کی عدم فراہمی کی وجہ، یہ تھی کہ زیادہ تر قتل بلا کسی دستاویز یا دفتری رپورٹ کے کئے گئے)۔اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کی ہلاکت ملک بدری سے قبل سزائے موت یا پولینڈ میں بنائے گئے گھیتو میں بیماری کے سبب ہوئیں۔

**دیگر متاثرین:-

سلاوک

جنگ کے شروع میں ہٹلر کی خواہش تھی کہ سلاوک باشندوں کی نسل کشی، ملک بدری یا غلام بنا لیا جائے تاکہ نئی بستی کے لئے، جرمنی کو جگہ میسر آجائے۔ نسل کشی کے اس منصوبے کونازیوں نے پچیس سے تیس سال (30-25) میں رفتہ رفتہ عملی جامہ پہنایا۔

پولینڈ نژاد باشندے

جرمنی کے منصوبہ سازوں نے نومبر 1939ء میں نعرہ لگایا کہ”پولینڈ کے باشندوں کی مکمل تباہی سے کم کچھ بھی منظور نہیں“۔ہنرچ ہملر نے اس موقع پر قسم کھائی کہ”پولینڈ کے تمام باشندے اس دنیا سے غائب ہوجائیں گے۔“ پولینڈ کی ریاست کو جرمنی قبضہ کرکے پولینڈ کے باشندوں سے پاک کردے گی اور جرمنی کی بستیاں بسانے والوں کو جرمنی کی بستی بنانے کی ایک اور بستی مل جائیگی۔ منصوبے کے مطابق 1952ء تک صرف تیس سے چالیس لاکھ (3سے 4 ملین) پولینڈ کے باشندوں کو پولینڈ میں رہنے دیا جائیگا اور وہ بھی محض اس لئے کہ وہ جرمنی سے آنے والے باسیوں کے غلام بن کر رہیں۔ پولینڈ کے باشندوں کے شادی کرنے، کسی بھی قسم کی طبی امداد لینے پر پابندی ہوگی اور اسی طرح کی پابندی پولینڈ کے باشندوں پر جرمنی میں بھی عائد کی جائیگی اور اس طرح رفتہ رفتہ پولینڈ کے باشندوں کو بالکل ختم کردیا جائیگا۔
22 اگست، 1939ء جنگ سے تقریباً ایک ہفتہ قبل، ہٹلر نے مشرقی حصے میں ان تیاریوں کو حتمی شکل دیتے ہوئے، میرا سربکف نامی خصوصی دستہ بناتے ہوئے احکامات جاری کیے کہ تمام عورتوں، بوڑھوں، پولینڈ نسل کے بچوں اور پولینڈ کی زبان بولنے والوں کو بلا تاسف یا رحم قتل کر دیا جائے۔ یہی ایک راستہ ہے جرمنی کی نئی بستی کے لئے جگہ حاصل کرنے کا۔تاہم پولینڈ نژاد باشندوں کا قتلِ عام اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا کہ جتنے بڑے پیمانے پر یہودی یا یہودی نژاد افراد کا کیا گیا۔ نازی منصوبہ سازوں نے فیصلہ کیا تھا کہ پولینڈ کے باشندوں اور یہودیوں کی نسل کشی بیک وقت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ”پولینڈ کے باشندوں کے سوال کے جواب سے“ جرمنی کے لوگوں پر مستقبل میں اضافی بوجھ پڑے گا اور کہیں ہماری ہر جگہ حکومت کرنے کی حکمت عملی تصادم کا شکار نہ ہوجائے، پولینڈ کے لوگوں کا بھی حساب کیا جائیگا لیکن مناسب وقت پر۔جنگ کے دوران اٹھارہ لاکھ سے اکیس لاکھ غیر یہودی پولینڈ کے شہری قتل کیے گئے، جن میں سے اسی فیصد (%80) پولینڈ نژاد باشندے تھے اور بقیہ بیس فیصد (%20) یوکرائن اور بیلاروس سے آئے ہوئے اقلیتی افراد تھے اور ان میں سے بیشر عام شہری تھے۔ان میں سے کم از کم دولاکھ ہلاکتیں نسل کشی کے لئے قائم کئے گئے مختلف کیمپوں میں ہوئیں، جن میں سے بھی ایک لاکھ چھیالیس ہزار ہلاکتیں آشویتس کیمپ میں ہوئیں۔زیادہ تر ہلاکتیں عمومی قتلِ عام میں ہوئیں جیساکہ وارسا کی بغاوت کے دوران ایک لاکھ بیس ہزار سے دو لاکھ عام شہری ہلاک کردئیے گئے۔پولینڈ میں غذائی اشیاء کی قلت یا خود ساختہ قحط، حفظان صحت کے اُصولوں کی خلاف ورزی اورعوام کو طبی سہولیات سے محروم کرنا بھی جرمنی کے منصوبہ سازوں کی ترجیحات میں شامل تھا۔ جس کی بدولت پولینڈ میں شرحِ اموات تیرہ فیصد سے بڑھ کر اٹھارہ فیصد پر ہزار ہوگئی۔کل ملا کر اکیاون لاکھ پولینڈ کے شہری نازیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔جن میں یہودی اور غیر یہودی دونوں شامل تھے، یعنی جنگ کے دوران پولینڈ میں ہونے والے نقصان میں جنگ سے پہلے کی مردم شماری کے مطابق پولینڈ اپنی سولہ فیصد آبادی سے محروم کردیا گیا۔، چونتیس لاکھ میں سے اکتیس لاکھ پولینڈ نژاد یہودی (%90) اور بیس لاکھ (%6) غیر یہودی پولینڈ نژاد باشندے جرمنی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ہلاک ہونے والوں میں نوے فیصد (%90) سے زائد عام شہری تھے کیونکہ جرمنی اور سوویت کی افواج نے جان بوجھ کر عام شہریوں کو اپنی کاروائیوں کا نشانہ بنایا تھا۔مقبوضہ پولینڈ میں شہر کی سڑکوں پر پولینڈ کے شہویوں کو قطاریں لگا کر کھڑا کرنا، شہر کا چکر لگوانا اور پھر انہیں ریل گاڑی کے ذریعے جرمنی بھیج دینا، نازی افواج کی معمول کی کاروائی تھی۔ جس کے لئے اُس وقت لپانکا (Lapanka) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جوکہ 1944-1942 کے درمیان انگریزی بچوں کے ایک کھیل سے ماخوذ تھا، جس کے معنی ”پرچی لگانا“ یا”امتیازی بنانا“ تھا۔صرف وارسا میں اس مشق کے ذریعے تقریباً روزانہ چارسوافراد اس مشق کی نظر ہوجاتے تھے جبکہ کبھی کبھی تو یہ تعداد ہزاروں تک چلی جاتی تھی۔ جیسا کہ 19 ستمبر، 1942 کو تین ہزار مرد و خواتین کو اس مشق کے ذریعے پکڑا، پورے وارسا میں چکر لگوائے اور پھر ریل گاڑی کے ذریعے جرمنی بھیج دیا۔اس کے علاوہ تقریباً بیس ہزار سے دولاکھ نفوس کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا۔پولینڈ کے بچوں کو زبردستی اُن کے والدین سے جدا کردیا گیا اور اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد، اُن میں سے جن بچوں کے جرمن نژاد پایا گیا، اُنہیں پرورش کے لئے جرمنی بھیج دیا گیا، جہاں جرمنی خاندانوں کو اُن کی پرورش کا ذمہ دیا گیا۔

جنوبی اور مشرقی سلاویہ

بلقان (یوگوسلاویہ) میں پانچ لاکھ سربیائی باشندوں کو قتل کیا گیا۔جنوب مشرقی یورپ میں ہٹلر کے انتہائی قریبی عساکر میں سے ایک ہرمان نیوباچر لکھتا ہے کہ:
”یہاں کی دہشت گرد جماعت اسٹاس نے کہا ہے کہ تقریباً دس لاکھ راسخ العقیدہ سربیائی باشندے (بشمول مرد، بچے، عورتیں اور بوڑھے) تہہ تیغ کردئیے گئے تومجھے یہ گمان گزرا کہ یہ انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں، جو اعداد و شمار بعد میں مجھے موصول ہوئے، ان کے مطابق دس لاکھ کا تین چوتھائی حصہ نہتے لوگ ذبح کردئیے گئے۔“جرمنی کی افواج، ہٹلر کی ہدایات کے مطابق اُن سربوں سے انتہائی منتقم انداز اور جذبے سے لڑے،جو کہ یہاں کے نسلی باشندے تھے۔اسٹاس کے معاونین نے ایک نہایت منظم و مربوط نظام کے تحت بڑی تعداد میں مذہبی سیاسی اور نسلی تفاوت کو وجہ بناتے ہوئے نسل کشی کی۔ جس کا بدترین نشانہ سربیائی باشندے بنے۔ عجائب خانہ برائے مرگِ انبوہ امریکا اور یہودی معنوی لائبریری کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق چھپن ہزار سے ستانوے ہزار کے درمیان سرب باشندوں کو کروشیائی توجیہی کیمپ میں ہلاک کیا گیا۔تاہم یاد ویشم کے اعداد و شمار کے مطابق کروشیائی توجیہی کیمپ میں چھ لاکھ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔بیلاروس میں نازی جرمنیوں نے ظالم نسل پرست حکومت بنائی، جس نے نو ہزار گاؤں جلا دئیے، تین لاکھ اسی ہزار (380،000) لوگوں کو غلام بنانے کی غرض سے ملک بدر کردیا گیا اور لاکھوں شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔ختین جیسے چھ سو گاؤں مع آبادی کے جلادئیے گئے، جن کی کم سے کم آبادی بھی پانچ ہزار دوسو پچیانوے تھی، بیلاروسی رہائشی نازیوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئے اور وہاں کے کچھ یا تمام باشندے قتل کر دئیے گئے۔ جرمنی کے تین سالہ قبضے کے دوران بائیس لاکھ تیس لاکھ نفوس (کل آبادی کا %24 فیصد) قتل کردئیے گئے۔جس میں تیس لاکھ ستر ہزار فوجی اور اینساٹزگروپین کے ہاتھوں دولاکھ پینتالیس ہزار یہودی بھی شامل ہیں۔یوکرائن میں دورانِ جنگ اور جرمنی کے قبضے کے دوران کل انسانی نقصان کا اندازہ تقریباً پچپن لاکھ سے ستر لاکھ (کل آبادی کا %17-13) لگایا جاتا ہے، جس میں تیرہ لاکھ چھیاسٹھ ہزار فوجی ہلاکتیں بھی شامل ہیں اور تقریباً چھ لاکھ سے نو لاکھ یہودی جوکہ اینساٹزگروپین کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

سوویت کے جنگی قیدی

مائیکل بیرن باؤم کے مطابق جون 1941ء سے مئی 1945ء کے درمیان بیس لاکھ سے تیس لاکھ کے قریب جنگی قیدی جوکہ اُس وقت کے جنگی قیدیوں کا ستاون فیصد تھا، فاقہ کشی، غیر انسانی سلوک اور موت کی سزاؤں کی بدولت موت کا شکار ہوئے اور ان میں سے بھی زیادہ تر اموات قید میں لینے کے بعد پہلے سال کے دوران ہوئیں۔ ڈینیل گولڈ ہیگن کے مرتب کردہ اندازے کے مطابق 1941ء-42 کے دوران اٹھائیس لاکھ سوویت جنگی قیدی ہلاک ہوئے جبکہ 1944ء کے وسط تک کل ہلاک ہونے والے جنگی قیدیوں کی تعداد پینتیس لاکھ تک پہنچ گئی۔امریکی یادگاری عجائب گھر برائے مرگ انبوہ کے پیش کردہ اندازوں کے مطابق سوویت کے ستاون لاکھ میں سے تینتیس لاکھ قیدی، جرمنی کی قید میں مارے گئے جبکہ امریکہ اور برطانیہ کے دو لاکھ اکتیس ہزار قیدیوں میں سے آٹھ ہزار تین سو قیدی مارے گئے۔بعد میں اموات کا تناسب کم ہونے کی وجہ یہ تھی کہ جرمنی کو جنگی قیدیوں کی ضرورت تھی کہ وہ جنگ کے دوران غلاموں کے طور پر کام کریں، ان میں پانچ لاکھ کو بطور غلام یا مزدور رکھا گیا تھا۔اس کے برعکس یہ بھی یقین کیا جاتا ہے کہ اتنے ہی جرمن جنگی قیدی جوزف اسٹالن کے دورِ حکومت میں قید و بند کی صعوبت برداشت نہ کرتے ہوئے، ہلاک ہوگئے۔

روما

 روما اور سنتی بنیادی طور پر ایسے تھے، جن کی ثقافت و تاریخ زبانی تھی، اس لئے ان کے بارے میں اعداد و شمار اتنے زیادہ یقینی نہیں، جتنا کہ کسی دوسری قوم یا گروہ کے لوگوں کے تھے۔یہودا باؤر لکھتا ہے کہ معلومات کی کمی کی وجہ روما کی بد اعتمادی اور شک و شبہ کی خصلت تھی، جس کی وجہ اُن کی سماجی حیثیت میں کمی اور رومانیہ کی ثقافت میں اُن کی مناہی تھی، آشویتش میں اُن کی شخصی و جنسی تاراجی ہوئی۔ باؤر لکھتا ہے کہ زیادہ تر رومانی ظلم و تشدد و انسانیت سوز واقعات کو منظرِ عام پر نہ لاسکے اور خاموشی سے ہر ظلم و ستم کو سہتے گئے، جس سے ان واقعات کا کرب اور بڑھ گیا کیونکہ جس اذیت کا سامنا اُنہوں نے کیا وہ صیغہء راز میں ہی رہا۔نیوک ڈونلڈ اور فرانسیس نیکوسیا لکھتے ہیں کہ نازیوں کے زیرِ تسلط یورپ میں دس لاکھ میں سے ایک لاکھ تیس ہزار روما اور سنتی موت کا شکار ہوئے۔مائیکل بیرن باؤم کے مطابق، سنجیدہ محققین کے اندازوں کے مطابق یہ تعداد نوے ہزار سے دو لاکھ بیس ہزار کے درمیان ہے۔جبکہ امریکی یادگاری عجائب گھر برائے مرگ انبوہ کے معروف سابقہ تاریخداں سائیبل ملٹن کی تفصیلی تحقیق و مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق کم از کم دو لاکھ بیس ہزار اموات ہوئیں اور ممکنہ طور پر یہ تعداد پانچ لاکھ سے قریب ترین تک ہے۔جامعہء ٹیکساس، آستن میں مطالعہء رومانیہ اور مرکز برائے رومانی دستاویزات کے مہتمم آئین ہنکوک استدلالی اندازمیں اس تعداد کو انتہائی زیادہ بتاتے ہوئے پانچ لاکھ سے پندرہ لاکھ اموات کا تخمینہ پیش کیا ہے۔ہنکوک لکھتا ہے کہ روما اور سنتی اموات کا تناسب تقریباً یہودیوں کے برابر تھا۔نسل کُشی کے کیمپوں میں بھیجنے سے قبل قیدیوں کو گھیتوؤں میں بھیج دیا جاتا تھا، اسی طرح سینکڑوں وارسا گھیتو بھیجے گئے۔اینساٹزگروپین کی مشرقی ٹولیوں نے خیمہ زن رومانیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُنہیں موقع پر ہی مار ڈالا اور جاں بحق ہونے والوں کے اعداد و شمار کا کوئی سُراغ نہیں چھوڑا۔ اس کے علاوہ، یہ اُن کٹھ پتلی حکومتوں کا بھی نشانہ بنے جو کہ نازیوں سے تعاون کررہی تھیں، مثال کے طور پرکروشیا کی اُستاس حکومت، جہاں روما کے باشندوں کی بڑی تعداد جیسینوویک توجیہی کیمپ میں موت کا شکار ہوئی۔اُن کی خواہش تھی کہ ہر اُس چیز کو گھیتو کی نذر کردیں جو اختصاصی طور پر گندی، خستہ یا منفرد ہو یا جس کے متعلق ذرا بھی خطرہ ہو یا جس کو بہر صورت تباہ کرنا مقصود تھا۔
مئی 1942ء میں روما کے باشندوں کے لئے یہودیوں کی طرح امتیازی قوانین وضع کئے گئے۔ 16 دسمبر، 1942ء کو ایس ایس کے کمانڈر اور جس کو نازیوں کے قتلِ کی مہم کا معمار بھی کہا جاتا ہے،ہنرچ ہملر نے حکمنامہ جاری کیا کہ”بدبخت جپسیوں (مخلوط یا نژاد) روما جپسیوں اور بلقان نژاد لوگ، جن کی رگوں میں جرمن خون نہیں ہے، کو آشویتس بھیج دینا چاہیے، ماسوا اُن لوگوں کے جوویہرماچٹ میں کام کررہے ہیں۔29 جنوری، 1943ء، کو ایک اور حکمنامےکے تحت جرمنی سے تمام روما کے باشندوں کو نکال کر آشویتس بھیجنے کا حکم جاری کیا گیا۔ 15 نومبر، 1943ء کو اس حکم میں ترمیم کی گئی، جب ہملر نے حکم جاری کیا کہ جپسی مخلوط یا جپسی نژاد کو ملک کا شہری سمجھا جائے۔ مہاجر جپسیوں اور اقامت پذیر جپسیوں کے ساتھ بالکل ایسے ہی برتاؤ کیا جائے جیسا کہ یہودیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔باؤر اس ترمیم پر کہتا ہے کہ اس سے نازیوں کا نظریہ متاثر ہوتا ہے کہ روما، جوکہ دراصل آریان نسل سے تعلق رکھتے ہیں، غیر رومانی خون کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوئے۔

جسمانی و ذہنی معذور

جینز کی بیماری میں مبتلا اس شخص کی زندگی بھر کا خرچہ ساتھ ہزار رچمارک تھا جوکہ جرمن سماج برداشت کرتا تھا۔ دوست جرمن،یہ تمہارا بھی پیسہ ہے۔”ہمارا نقطہء آغاز کوئی ایک انسان نہیں ہے:” ہم یہ نہیں مانتے کہ بھوکے کو کھانا کھلایاجائے، پیاسے کو پانی پلایا جائے یا کسی ننگے کا تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے دئیےجائیں۔۔۔ہمارے اہداف مختلف ہیں:اس دنیا پرغالب آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے لوگ صحت مند ہوں۔“جوزف گیوبیلز، 1938
1939ء میں اٹکن ٹی 4 کے نام سے ایک پیش نامہ بنایا گیا، جو کہ دراصل جرمن لوگوں کی آبادی اور وراثہ کا معیار برقرار رکھنے کے لئے جرمن اورآسٹریا کے لوگوں کی تقسیم یا قتل کرنے کا منصوبہ تھا، جن کو جسمانی طور پر معذور قرار دے دیا گیا ہو یا جو ذہنی بیماری میں مبتلا ہوں۔1939ء سے 1943ء کے درمیان اسی ہزار (80،000) سے ایک لاکھ (100،000) بالغ ذہنی مریض بحالیء دماغی صحت کے مراکز میں قتل کردئیے گئے، اس کے علاوہ، پانچ ہزار (5،000) بچے اور ایک ہزار (1،000) یہودی بھی ان مراکز میں قتل کردئیے گئے۔ان دماغی بحالی کے مراکز کے علاوہ، اندازوں کے مطابق بیس ہزار (20،000) (آسان موت کے لئے قائم کیے گئے مرکز شوولس ہرتھیم کے ڈائریکٹر جارج رینو کے مطابق) یا چار لاکھ (400،000) (موتھاؤسنگوسن توجیہی کیمپ کے کمانڈنٹ فرانک زیریز کے مطابق)۔اس کے علاوہ تین لاکھ (300،000) زبردستی بانجھ کر دئیے گئے۔کل ملا کر مجموعی اندازوں کے مطابق مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا دو لاکھ (200،000) سے زائد افراد موت کے گھات اُتار دئیے گئے، گو کہ ان کے بہیمانہ قتل کو مقابلتاً تاریخی توجہ ملی۔ حالانکہ نفسیاتی طبیبوں اور اداروں کو کوئی سرکاری حکم اس سلسلے میں جاری نہیں کیا گیا تھا کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں لیکن نفسیاتی طبیبوں اور اداروں نے ہر مرحلے پر اس طرح کی سرگرمیوں میں بھرپور سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، تعاون کا مظاہرہ کیا اور بعد میں یہودیوں و دیگر ناپسندیدہ لوگوں کو تباہ و برباد کرنے میں اور مرگ انبوہ کو کامیاب بنانے میں اپنا بھرپور کردارادا کرکے نازی حکومت سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔اس پیش نامے کا نام ٹائرگارٹن اسٹراسے 4 سے منسوب کیا گیا جو کہ دراصل برلن کے قصبے ٹائر گارٹنمیں موجود حویلی کا پتہ ہے جوکہ Gemeinnützige Stiftung für Heil und Anstaltspflege یعنی عمومی بنیاد برائے فلاح و بہبود و ادارتی توجہ کا مرکزی دفتر فلب باؤہلر کی سربراہی میں تھاجو کہ ہٹلر کے ذاتی دفترِ سفارت کے منتظم بھی تھا اور کارل برانڈٹ، ہٹلر کا ذاتی معالج۔ دسمبر 1946ء میں برانڈٹ و دیگر 22 افراد پر نوریمبرگ میں مقدمہ چلایا گیا جو کہ ”ریاست ہائے متحدہ امریکہ بمقابلہ ڈاکٹر کارل برانڈٹ“ اور ”مقدمہء معالج“ کے نام سے مشہور ہوا۔ 2 جون، 1948ء کو اُسے لینڈزبرگ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

ہم جنس پرست

محتاط اندازوں کے مطابق پانچ ہزار سے پندرہ ہزار جرمن شہری ہم جنس پرست ہونے کی پاداش میں توجیہی کیمپوں میں بھیج دئیے گئے تھے۔جیمس ڈی اسٹیکلی لکھتا ہے کہ جرمنی کا اصل مسئلہ مجرمانہ کردار نہیں بلکہ مجرمانہ افکار تھا اور "Gesundes Volksempfinden" (لوگوں کی معقول صحت) ایک نمایاں ڈھال بن گیا اور اس طرح سے یہ ایک عام قانون کی طرح لاگو ہوگیا۔1936ء میں ہملر نے مرکزی دفتر برائے انسدادِ ہم جنس پرستی و حمل قائم کیا اور ہم جنس پرستی کو صحت کے لئے نقصان دہ قرار دے دیا گیااور آخر کار ہم جنس پرستوں کو”پراگندہ جرمن خون“ قرار دے دیا گیا۔ گسٹاپو نے ہم جنس پرستوں کے اڈوں پر چھاپے مارے اور اُن سے کڑی در کڑی ہم جنس پرستوں کو گرفتار کرتے چلے گئے، ہم جنس پرستی کے جرائد کے صارفین کی فہرستیں بھی اس امر کے لئے استعمال کی گئیں اور عوام میں ہم جنس پرستی کی فوری شکایت درج کرانے کی حوصلہ افزائی کی گئی، یہاں تک کہ ہم جنس پرستوں کے پڑوسیوں تک پر کڑی نظر رکھ کر اُن کے عمل و کردار کی جانچ پڑتال کی کہ کہیں اُن میں یہ خرق عادت تو نہیں۔1933ء سے 1944ء کے دوران ہزاروں لوگوں کو سزا کے طور پر کیمپوں میں بھیج”بحالیء صحت“ کے لئے بھیج دیا گیا، جہاں اُن کی شناخت کے لئے ہاتھوں میں پیلے رنگ کی ڈوری باندھ دی جاتی،پھر بعد میں ایک گلابی رنگ کا تکون نشان اُن کی صدری (جیکٹ) کی بائیں جانب سینے پر اور پاجامے پر دائیں ٹانگ کی جانب لگا دیا جاتا، جس کا مطلب ہوتا تھا کہ اب نشان دہندہ کی صحت بحال ہوچکی ہے۔سینکڑوں عدالتی احکامات کے تحت آختہ کاری کرکے بانچھ یا جنسی اعضاء سے محروم کر دئیے گئے۔اُن کی تذلیل کی گئی، تشدد کیا گیا اور انگیزیاتی تجربات میں استعمال کیا گیا جوکہ ایس ایس کے معالجوں نے منعقد کئے اور ان کو قتل کردیا۔اسٹیکلی لکھتا ہے کہ ہم جنس پرستوں کے پر ڈھائے گئے ستم و انسانیت سوز مظالم جنگ کے بعد آہستہ آہستہ منظرِ عام پر آئے۔ بہت سے متاثرین نے اپنی داستانیں خود تک محدود کرلیں کیونکہ جنگ سے پہلے بھی جرمنی میں ہم جنس پرستی ایک جرم تھا۔تاہم اس کے باوجود بہت ہی کم تناسب میں (قریباً دو فیصد) نازیوں نے ہم جنس پرستوں کو نشانہ بنایا۔

سیاسی مخالفین

سب سے پہلے جرمنی اشتمالیت و اشتراکیت پسند اور تجارتی اتحادیوں نے نازی ازم کی مخالفت کی، نتیجتاً سب سے پہلے توجیہی کیمپوں میں انہیں لوگوں کو بھیجا گیا۔ اُنہوں نے سوویت اتحادیوں سے اپنے تعلقات کی بناء پر ہٹلر کو الگ فریق قرار دیا کیونکہ نازی جماعت کھلے بندوں اشتمالیت کی مخالفت کررہی تھی اور یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا کہ یہ یہودیوں کا پیش کردہ نظریہ ہے، جسے نازیوں نے ”یہود نواز ازم“ قرار دیا اور اسی پروپیگنڈے کے ذریعے نازیوں نے اشتمالیت پسندوں کو کچلنے کے لئے 1933ء میں خصوصی اختیارات کا قانون نافذ کیا، وہقانون جس کی بدولت ہٹلر کو تمام تر آمرانہ طاقتوں کو استعمال کرنے کے اختیارات مل گئے۔
مقدمہء نوریم کے دوران ہرمن گورنگ نے بعد میں اقرار کیا کہ جرمن اشتمالیت پسندوں کو کچلنے کی نازی خواہش نے پاؤل وون ہندنبرگ سمیت دیگر اشراف و اکابرین کو یہ ترغیب دی کہ وہ نازیوں کے ساتھ تعاون کریں۔ پہلا توجیہی عقوبت خانہ مارچ، 1933ء میں ماچوؤ میں اشتمالیت و اشتراکیت پسندوں، تجارتی اتحاد پرستوں اور دیگر نازی مخالف قوتوں کے لئے بنایا گیا تھا۔اشتمالی، سماجی، جمہوری اور دیگر سیاسی قیدیوں کو تکون لال ٹوپی پہننے کی پابندی تھی۔ توجیہی مراکز میں اس طرح کی چیزیں سارے قیدیوں کے لئے تھیں تاکہ قیدیوں کی شناخت رہے، زیادہ تر نشانات ایسے تھے، جن سے تذلیل کا پہلو نکلتا تھا یا نفسیاتی و ذہنی کرب و اذیت کا سبب بنتے تھے۔ ہٹلر اور نازیوں کو بائیں بازو کے جرمنوں سے بھی نفرت تھی کیونکہ انہوں نے نسلی عصبیت کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ بائیں بازو کی زیادہ تر جماعتوں کے جرمن رہنما یہودی تھے جوکہ جنوری 1919ء میں انقلابی اشتراکی پارٹی کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ ہٹلر پہلے ہی مارکسیت اور کمیونسٹ کو یورپ کے گوروں کے خلاف بین الاقوامی یہودی سازش اور نازیوں کی بقاء کے لئے خطرہ قرار دے چکا تھا۔ عقوبت خانوں میں بالخصوص بوچن والڈتوجیہی کیمپ میں یہودی کی بنسبت جرمن خون ہونے کی وجہ سے جرمن کمیونسٹوں کو مراعات حاصل تھیں۔جب بھی نازیوں نے کسی نئی جگہ کو فتح کیا تو اُس کی اولین ترجیح اشتراکیت پسندوں، اشتمالیت پسندوں اور دیگر انارکی پھیلانے والوں کی حراست یا خاتمہ ہوتا تھا۔ جس کا ثبوت ہٹلر کے ایک غیر معروف حکم نامہء کمیسر سے ملتا ہے، جس کے خلاصے کے مطابق تمام سیاسی سرکردہ افراد، سوویت کے جنگی قیدیوں اور اس کے علاوہ جرمنی میں اشتراکیت پسندوں کے کارکنان کی بیخ کُنی کا حکم دیا گیا۔
مشرقی علاقوں میں اینساٹزگروپین نے ایسے احکامات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔7 دسمبر، 1941ء میں ہٹلر کے ایک عمومی حکم نامے کے ذریعے ”رات اور دُھند“ نامی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کو نازی افواج کے سپہ سالار ولہیم کیٹیل نے نافذ العمل کیا، نتیجتاً سیاسی کارکنان کے اغوا اور غائب ہونے کے واقعات پورے نازی جرمنی اور جرمنی کے زیرِ تسلط علاقوں میں پھیلتے چلے گئے۔

**عوامل اور عمل در آمد:-

نقطہء آغاز

یکم اپریل، 1933ء مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے حملہ آور دستے کے اراکین سارے جرمنی میں نکل آئے اور یہودیوں کاروباری مراکز کے سامنے کھڑے ہوگئے، ان کے ہاتھوں میں نوشتے تھے، جن پر تحریر تھا کہ ”جرمنیو! اپنے آپ کو بچاؤ اور یہودیوں سے لین دین نہ کرو“، یہ تصویر اسرائیلی ڈپارٹمنٹ اسٹور کی ہے، جوکہ 1930ء میں پورے جرمنی پھیلا ہوا، یہودیوں کا خوردہ فروشی کا سب سے بڑا کاروبار تھا۔ یہ اسٹور 1938ء میں تباہ کردئیے گئے اور غیر یہودی جرمنیوں کو سونپ دئیے گئے۔
نازی جماعت ہٹلر کی قیادت میں 30 جنوری، 1933ء کو جرمنی میں برسرِ اقتدار آئی اور اس کے فوراً بعد پانچ لاکھ پچیس ہزار (525،000) یہودی کے خلاف سازشیں اور اُن کے انخلا کا آغاز ہوگیا۔ اپنی خود نوشتمیری جدوجہد“ میں ہٹلر نے کھل کر یہودیوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا اور اُنہیں تنبیہ کی کہ وہ جرمنی کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی سے نکل جائیں۔ گوکہ اس نے یہ نہیں لکھا تھا کہ وہ اُنہیں قتلِ عام کرکے نسل کشی کرے گا لیکن ہٹلر کی نجی نشستوں میں اس بارے میں قطعیت کے شواہد پائے جاتے ہیں۔ 1922ء کے اوائل میں ہٹلر نے مبینہ طور پر اُس وقت کے ایک صحافی کو کہا کہ:
ایک بار میں برسرِ اقتدار آجاؤں تو میرا پہلا اور بنیادی مقصد یہودیوں کی تعدیم ہوگا۔ جیسے ہی میں اقتدار میں آگیا، میں میرین پلاٹس میونخ میں جتنا زیادہ ممکن ہوسکے، پھانسی گھاٹ قطار سے تعمیر کراؤں گا۔ پھر تمام یہودیوں کو بلا تخصیص پھانسی دے دی جائیگی اور یہ اُس وقت تک پھانسی پر لٹکے رہیں گے کہ جب تک ان کے مردہ جسموں سے بدبو نہ آنے لگ جائے اور اُن کو اُس وقت تک لٹکا رہنے دیا جائیگا کہ جب تک ان کے تعفن سے بیماریاں پھوٹنے کا خطرہ نہ ہوجائے۔ پھر جیسے ہی اُن کے مردہ جسموں کو پھانسی پر سے اُتارا جائیگا، یہودیوں کا اگلا گروہ پھانسی پر لٹکا دیا جائیگا اور یہ سلسلہ اُس وقت تک چلتا رہے گا کہ جب تک میونخ کا آخری یہودی بھی ختم نہ ہوجائے۔ دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے منصوبوں پر عمل در آمد کیا جائیگا تاوقتیکہ تمام جرمنی یہودیوں سے پاک نہ ہوجائے۔“

**قانونی دباؤ اور ہجرت:-

جنگ سے پہلے نازی جرمنی میں یہودی مخالف قوانین، نازی جرمنی کی نسلی حکمتِ عملی اور قانونِ نمبرگ1930ء تک یہودیوں کے قانونی، معاشی اور سماجی حقوق پر مکمل پابندی لگ چکی تھی۔ ”یہودی کون“ کی قانونی تعریف نازیوں کے نزدیک ہر وہ شخص جس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی ایک بھی شخص یہودی ہو، حتٰی کہ وہ یہودی جو کہ 18 جنوری 1871ء (جرمن ریاست کے قیام کی تاریخ) سے قبل یہودیت چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرچکے ہوں، یہودی تصور کئے جاتے تھے۔
 فرائیڈ لینڈر لکھتا ہے کہ:” نازیوں کے نزدیک جرمن کی اصل طاقت ”خالص جرمن خون“ تھا، جن کی جڑیں ”جرمنی کی مقدس سرزمین“ سے جڑی ہوئی ہیں۔1933ء میں متعدد قوانین منظور کئے گئے۔ جن میں آرین پیرا، تحت یہودیوں کو کئی بنیادی پیشوں سے خارج کردیا گیا۔ قانون برائے بحالیء شہری خدمات کے تحت یہودیوں کو طب، قانون، زراعت اور زرعی زمین کی خریداری سے روک دیا گیا۔ ڈرسڈین میں یہودی وکلاء کی رکنیت منسوخ کردی گئی، یہودی وکلاء اور مصنفین کو عدالتوں اور دفاتر سے باہر نکال کر انہیں زدوکوب کیا گیا۔اُس وقت کے جرمنی کے صدر ہنڈن برگ کے دباؤ پر ہٹلر نے ایک رعائیتی ترمیم یہ کی کہ جن یہودیوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران خدمات سرانجام دی تھیں اور وہ عمررسیدہ ہوچکے ہیں یا وہ کہ جن کے باپ اور بیٹوں نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا، صرف وہ بدستور اپنی موجودہ نوکری کو جاری رکھ سکتے تھے۔ تاہم 1937ء میں ہٹلر نے یہ ترمیم بھی منسوخ کردی۔ یہودیوں کو مدارس و جامعات سے نکال دیا گیا (مدارس میں طلبہ کی زیادہ تعداد کے قانون کے تحت) اور صحافیوں کی انجمن یا کسی بھی اخبار کی ملکیت یا مدیری کے لئے بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔

**مرگ انبوہ پر شک کے خلاف قوانین:-

مرگ انبوہ پر شک کرنے والے بھی موجود ہیں جنہیںترمیم پسندانِ مرگ انبوہکہا جاتا ہے۔ ان میں دانشور، مصنفین اور محققین شامل ہیں۔ مگر دنیا میں 13 ممالک، جن میں آسٹریا، بیلجیئم، جمہوریہ چیک ، اسرائیل، لکسمبرگ، پولینڈ، پرتگال، سویٹزرلینڈ، فرانس اور جرمنی وغیرہ شامل ہیں، میں ایسے قوانین ہیں جو مرگ انبوہ پر کسی بھی نظر ثانی بلکہ اس کے بارے میں تحقیق کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اس پر تحقیقی بحث سے بھی بعض ممالک میں تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہوسکتے ہیں۔ان تمام ممالک میں جہاں مرگ انبوہ وقوع پذیر ہوا تھا، اس کے بارے میں تحقیق غیر قانونی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی اس سلسلے میں درست تحقیق کرنا چاہے تو متعلقہ ممالک میں تحقیق جاری رکھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ ان ممالک میں سے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں آزادیِ اظہار کے خلاف بھی قوانین موجود ہیں جیسے آسٹریا، جرمنی اور رومانیہ، جن میں نفرت آمیز گفتگو اور تقریروں پر پابندی ہے جس کا زیادہ تر اطلاق مرگ انبوہ کے خلاف بات کرنے پر ہوتا ہے۔
مرگِ انبوہ کے محققین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قوانین آزادیِ اظہار کے بارے میں یورپی کمیشن برائے انسانی حقوق ( European Commission of Human Rights)، انسانی حقوق کی یورپی عدالت (European Court of Human Rights) اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی(United Nations Human Rights Committee) کے متضاد ہیں۔
ایسے قوانین کے مخالف مشہور افراد میں نوم چومسکی، ایران کے صدر محمود احمدی نژاد، راول ہلبرگ (Raul Hilberg)، رچرڈ ایونز (Richard J. Evans)، پئیغ ویدال (Pierre Vidal-Naquet)، ڈیبورا لیپستاٹ (Deborah Lipstadt)، کرسٹوفر ہچنز (Christopher Hitchens)، ٹموتھی گارٹن (Timothy Garton Ash) ، اور پیٹر سنگر (Peter Singer) جیسے دانشور شامل ہیں۔
 یاد رہے کہ ان قوانین کی وجہ سے متعلقہ ممالک کے دانشور کھل کر اظہارِ خیال نہیں کر سکتے اور ماضی میں کئی مصنفین و دانشوران کو سزا بھی ہو چکی ہے جن میں برطانوی مصنف ڈیوڈ ارونگ (David Irving) شامل ہیں جنہیں حال ہی میں آسٹریا میں تین سال قید کی سزا صرف ان کے خیالات کی بنیاد پر سنائی گئی ہے۔

**تجدید پسندان مرگ انبوہ:-

تجدید پسندانِ مرگ انبوہ (جنہیں بعض گروہ منکرینِ مرگ انبوہ بھی کہتے ہیں) ان لوگوں پر مشتمل ہیں جو مرگ انبوہ پر تحقیق کے خواہش مند ہیں یا اس کی کسی بات پر متفق نہیں مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے بہت کم تھی۔ ان میں سے کچھ مشہور لوگوں کی فہرست درج ذیل ہے:
مکمل فہرست کے لیے  یہاں کلک کیجیے۔
(حالیہ فلسطین پر قابض اسرائیلی دہشت گردوں کے ظلم وستم کو دیکھ کر کون کہے گا کہ ان پر ”ہولوکاسٹ“کا واقعہ رونما ہوا تھا؟؟؟ یہودی مظلوم ہوتے تو کبھی بھی وہ فلسطینیوں پر ظلم نہیں کرتے۔ مظلوم کبھی بھی ظالموں کا راستہ اختیار نہیں کرتا۔ یہودی کبھی مظلوم ہو نہیں سکتے۔اگر اس واقعے کو سچ مان لیا جائے تو ،اسرائیلیوں نے اس واقعے سے کوئی بھی سبق نہیں سیکھا؟؟؟واقعی ایڈوولف ہٹلر ٹھیک تھا، ایسی دشمن ِ دنیا قوم کو تو اس دنیا سے نیست و نابود کر دینا چاہیے۔میری سوچ تو یہ ہے کہ کاش ہٹلر مسلمان ہو جاتا تو اس عظیم نیکی(ہولوکاسٹ) کی بدولت اسے لازماً جنت مل جاتی ۔:`::ادارہ سنپ::`:)

اقتباس (بشکریہ): آزاد دائرۃ المعارف(وکی پیڈیا)۔

ادارہ’’سنپ‘‘ وکی پیڈیا کا تہہ دل سے مشکور ہے۔
امید ہےقانونی بکھیڑوں میں الجھنے نہیں دیں گے۔[شکریہ]