میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

نائٹ کلب سے خانہ کعبہ تک !!!

صومالیہ کے مشہور شہر موغادیشو کے ایک پرائمری اسکول میں اساتذہ اور کلرک بڑے تعجب اور حیرت سے اس کی خوبصورت آواز میں نغمے سن رہے تھے۔ "غضب کی آواز ہے"ایک نے کہا۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا: "اتنی خوبصورت آواز میں نے کبھی نہیں سنی۔ اس کے پا س لحن داؤدی ہے"
اس نے ایک نغمہ ختم کیا ۔ اب وہ پرانی شاعری سنا رہا تھا۔ ایک کہنے لگا:"منحنی سی شکل و صورت کا عبداللہ…..جب بڑاہوگا تو کیا غضب ڈھائے گا۔ ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ یہ ہمارے اسکول کا طالب علم ہے"خوبصورت آواز اور اس کی ساتھ صحیح تلفظ ایک نعمت خداوندی ہے جو چھوٹے عبداللہ کو بڑی کم عمری میں میسر آگئی تھی۔ وہ جیسے جیسے بڑاہوتا گیا اس میں خود اعتمادی بڑھتی چلی گئی۔ اب وہ بڑے اجتماعات کے سامنے اپنی آواز کا جادو جگاتا اور لوگ مبہوت ہوکر رہ جاتے۔


ان دنوں صومالیہ پر صیاد بری کی حکومت تھی۔ ایک دن وزارت تعلیم کے ایک بڑے افسر نے اس کے قصائد سنے۔ "اگر یہ ہمارے صدر کی مدح میں اشعار پڑھے تو مزہ آجائے۔اس نے سوچا، چنانچہ عبد اللہ کیلئے خصوصی تعلیم اور اساتذہ کا بندوبست کیا گیا ۔ اب وہ گانے کے ساتھ ساتھ موسیقی کا بھی ماہر بن گیا۔ میٹرک کے بعد اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ اس وقت کے وزیر تعلیم نے اس کی آواز سنی تو گرویدہ ہوگیا۔ اس نے خصوصی قانون پاس کروایا…..اسکولوں میں موسیقی کے شعبے کا قیام عمل میں آیا اور نوجوان لڑکوں او رلڑکیوں کیلئے موسیقی اور رقص و سرور کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز سرکاری سرپرستی میں شروع ہوا۔ اس کا چیف عبد اللہ کو بنایا گیا۔

اسکولوں اور کالجوں میں موسیقی کی تعلیم شروع ہوگئی…..اندرون ملک اور بیرون ملک ثقافت کے نام پر ثقافتی طائفے جانے لگے…..عبد اللہ کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ صومالیہ ہی نہیں، ہمسایہ ملک جیبوتی میں بھی لوگ اس کی آواز کے دیوانے تھے۔ اسے متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا۔ عبد اللہ جہاں بھی جاتا لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے اکھٹے ہوجاتے۔ بڑے بڑے ہوٹلوںمیں ہفتوں پہلے اس کی بکنگ کی جاتی ۔ جب وہ اسٹیج پر آتا تو کئی منٹ تک مسلسل تالیاں بجتی رہتیں۔ جب گانا شروع ہوتا تو دلوں کی دھڑکنیں ٹھہر جاتیں۔ اس کا لقب شہنشاہ ترنم تھا۔

1977میں صومالیہ میں انقلاب برپا ہوا۔ روسی اقتدار اور اثر و رسوخ کا خاتمہ ہوگیا۔ حکومت تبدیل ہوگئی، اس کا رخ مغرب کی طر ف ہوگیا۔ ملک میں اشتراکیت کی بجائے جمہوریت کا غلغلہ ہوا۔ ایک اچھے بزنس مین کی طرح عبد اللہ نے بھی اپنا رخ تبدیل کیا۔ پہلے وہ اشتراکیت کے گن گاتا تھا، اس کے نغمے اور گیت اس نظام میں مدح سرائی میں ہوتے۔

نظام بدلا تو وہ بھی بدل گیا۔ اب اس کی زبان پر جمہوریت کیلئے نغمے تھے۔ ملک میں اقتصادی اصلاحات ہونے لگیں تو اس نے بھی اپنی کمائی کو محفوظ کرنے کا سوچا…..اور پھر وہ ایک عدد نائٹ کلب کا مالک بن گیا۔ موغادیشو  میں اول درجے کا نائٹ کلب، جہاں راتیں جاگتیں اور دن سوتے تھے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک بڑاگروہ اس کے گرد جمع ہوگیا۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اس کی شہرت تھی، اب وہ مختلف ممالک کے دوروں پر جانے لگا۔

عبد اللہ نے ایک مرتبہ انٹرویو میں کہا:"میں جب نائٹ کلب کا مالک بن گیا تو پھر وہاں گانے گاتا…موغادیشو کے ہوٹل اور نائٹ کلب میری بکنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ رقومات پیش کرتے۔ راتوں کو زندہ کرنے کیلئے، لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اور اپنے آپ کو مزید پاپولر بنانے کیلئے میں نت نئے ناٹک رچاتا۔ عریاں ڈانس، فحش مکالمات اور عشقیہ گیتوں کے ذریعے پیسہ کمانا ہمارا مقصد حیات بن چکا تھا۔ جب یہ چیزیں میسر ہوں تو پھر شیطان خوب خوش ہوتا ہے۔ بگڑے ہوئے گھرانے، ان کی امیر لڑکیاں، اور لڑکے، شراب، نشہ، ہیروئن سب کچھ میسر تھا۔ رقص گاہیں ہماری وجہ سے آباد تھیں۔
"شیطان کے اہداف حاصل کرنے کیلئے ہمارے ارد گرد بدکار لوگوں کا ایک بڑا گروہ تھا…..اس دوران ملک میں اسلام کے خلاف حکومتی لابی دن رات کام کررہی تھی۔ علماء، صلحاءاور مساجد کو نشانہ  بنایا جا رہا تھا۔ جب کفر اور اسلام کے درمیان کشمکش جاری ہو تو طاغوت اور زیادہ خوبصورت چہرے کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ ہم نے بھی اسلامی اقدار کو ختم کرنے اور شیطانی مجالس کو فروغ دینے میں ساری قوتیں صرف کردیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان تھے۔ اسلامی روح کے بغیر…..ظاہری حد تک…..میں نے کتنے ہی یورپی ممالک کا سفر کیا۔ وہاں نائٹ کلبوں میں گاتا رہا، صومالیہ کے آرٹ کو اجاگر کرتا رہا، مغرب کو خوش کرنے کیلئے کہ ہم ترقی پسند قوم ہیں…..میرے ایمان کا، اسلام کا اور اخلاق کا جنازہ نکلتا گیا…..مگر میری جیب بھرتی گئی۔

"1983ءمیں میرے والد نے مجھ پر شادی کرنے کیلئے زور دیا۔ والدین کیلئے اپنی اولاد کی شادی بہت بڑی خوشی ہوتی ہے۔ والدین نے اپنے ہی خاندان میں سے ایک لڑکی کا انتخاب کیا۔ یوں تو صومالیہ کی بہت سی لڑکیاں میرے ساتھ شادی کی تمنا کرتی تھیں مگر یہ لڑکی میرے خاندان سے تھی۔ خوبصورت، خوب سیرت اور خاصی پڑھی لکھی تھی، لہٰذا میں نے ہزاروں لڑکیوں پر اس کو ترجیح دی اور شادی پر فوراً رضامند ہوگیا…..کچھ ہی دنوں کے بعد شادی کا ہنگامہ شروع ہوا۔ ایک گلوکار کی شادی…..یقینا بہت یادگار تھی۔ پورے صومالیہ سے گلوکار آئے، خوب ہلاگلا ہوا۔ ٹیلی ویژن، اخبارات، ذرائع ابلاغ کے نمائندے جمع ہوئے۔ یقینا یہ ایک یادگار شادی تھی۔

"شادی کے دوران میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ میری بیوی اتنی زیادہ خوش و خرم نہیں ہے جتنا کہ میرے جیسے معروف آدمی سے شادی کے بعد کسی لڑکی کو خوش اور فخرہونا چاہیے۔ میں نے اس کو اس کی فطری حیا پر محمول کیا…..شادی کے بعد ہم ہنی مون کیلئے چلے گئے۔ یہ دن اتنی تیزی سے گزرے کہ اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ میں نے دوبارہ اپنی ڈیوٹی سنبھال لی…..میرا کاروبار رات کو شروع ہوتا، میں فجر سے ذرا پہلے گھر آجاتا…..پھر میں سو جاتا اور عصر کے وقت اٹھتا…..میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ جب صبح گھر آتا ہوں تو میری بیوی جاگ رہی ہوتی ہے اور عموماً اس کے ہاتھ میں قرآن پاک ہوتا ہے جسے وہ پڑھ رہی ہوتی ہے۔ میں آکر اسے بڑے جوشیلے انداز میں اس رات کی کارکردگی سناتا۔ اپنے پرستاروں کی چاہت سے آگاہ کرتا۔ آج کتنی لڑکیوں اور لڑکیوں کے فون آئے جو میرے فن کے شیدائی ہیں۔ میری بیوی ان باتوں کو ناگواری سے سنتی اور میرے لیے ہدایت کی دعا کرتی۔ اس دوران میں فجر کی اذان ہوجاتی اور وہ مصلے کی طرف بڑھ جاتی، جب کہ میں نماز پڑھے بغیر ہی سوجاتا۔ میں جب بھی اس سے نائٹ کلب کا ذکر کرتا، وہاں کی باتیں سنانا، اپنی کمائی کا ذکر کرتا، بینک بیلنس کا رعب جماتا تو وہ جواباً کہتی: "رازق تو صرف اللہ کی ذات ہے"

"ہماری شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ میں مسلسل اپنے فن میں مبتلا اور فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نماز اور عبادت کے بغیر زندگی گزارتا رہا…..پھر اچانک ہماری زندگی میں ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ یہ 1988کی بات ہے، میری بیوی نے مجھ سے کہا:"میں اس شخص کے ساتھ ہرگز زندگی نہیں گزارسکتی جو اپنے رب کا وفادار نہیں، جو نماز ادا نہیں کرتا…..اس کی کمائی حرام ہے جو فجر کے وقت گھر آتا ہے"

"میری وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ میری بیوی میرے لیے ایسا سوچ سکتی ہے۔ بہرحال گھر میں لڑائی شروع ہوگئی۔ میں نے اس کی باتیں سنی ان سنی کردیں"

"کچھ دن گزرے، ایک دن جب میں گھر میں داخل ہوا تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔ شہر کی مساجد میں اذانیں بلند ہورہی تھیں۔ ہر طرف اللہ اکبر۔۔۔اشھد ان لا الہ الا اللہ ،حی علی الصلاة کی گونج تھی۔ جب سونے کیلئے اپنے کمرے میں جانے لگا تو میری بیوی نے کہا: "آپ مسجد میں نماز کیلئے کیوں نہیں جاتے؟ کیا آپ نے اذان کی آواز نہیں سنی؟"

میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھ اکہ کسی نے مجھے نماز کیلئے کہا تھا۔ اس لمحے میں نے خود بھی نماز پڑھنے کے بارے میں سوچا…..میرے جسم میں جھرجھری سی آئی۔ بیوی کی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی تھی۔ "اس وقت مسلمان مسجد کی طرف جارہے ہیں۔ آپ کیوں مسجد کا رخ نہیں کرتے؟ یہ رحمن کا بلاوا ہے۔ یہ مالک الموت کی طرف سے دعوت ہے"اور پھر میرے ذہن میں خیر اور شر کی کشمکش ہوئی۔ فطرت کی آواز بلندہوئی: تمہارا نام کتنا خوبصورت ہے…..عبد اللہ…..تم اللہ کے بندے ہو۔ مگر نہیں…..تم تو شیطان کے چیلے بنے ہوئے ہو۔ کبھی تم نے اپنے مالک کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تم کب تک زندہ رہو گے ، کب تک زندگی رہے گی، کب تک جوانی رہے گی؟ میرے سامنے ماضی آگیا…..ضمیر نے ملامت شروع کی…..مگر فوراً کلب کی رعنائیاں، ٹیلی ویژن کی اسکرین، اسٹیج، شہرت، عزت…..کیا میں بیوی کی بات مان لوں؟ یہ کام چھوڑ دوں؟ یہ مقام حاصل کرنے کیلئے میں نے بے حد محنت اور جدوجہد کی ہے۔ یہی سوچتے سوچتے میں حسب عادت سوگیا"

"شام کے وقت میں نے کپڑے تبدیل کیے۔ کلب جانے کیلئے تیاری کی…..میری بیوی نے میرے کان میں سرگوشی کی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کہہ رہی تھی: ذرا بیٹھ جائیں…..ذرا میری بات تو سنیں…..کیا ہمارا رازق اللہ نہیں ہے؟ حلال کا ایک لقمہ حرام کے ہزاروں لقموں سے بہتر ہے"

"مجھے ایسا محسوس ہو اکہ بیوی کی آواز…..اس کی گفتگو…..اس کے کلمات…..یقینا درست ہیں۔ ان میں صداقت ہے…..یہ فطرت کی آواز ہیں…..مگر…..میرا فن…..میری آواز…..میری شہرت؟…..میں تیزی سے بھاگا کہیں بیوی کی بات مان نہ لوں"

"راستے میں بیوی کے کلمات میرا پیچھا کر رہے تھے کہ میں نائٹ کلب کے دروازے پر پہنچا۔ اس دوران عشاءکی نما ز کا وقت ہوچکا تھا۔ میرے کانوں میں موذن کی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی آواز گونجی…..حی علی الصلاة…..حی علی الفلاح….. "

"بیوی کی نصیحت یاد آئی…..اللہ کی رحمت جوش میں آگئی۔ فسق و فجور اور کفر کے غبار کی تہہ بیٹھنے لگی…..ایمان کی حرارت اور اسلام کی قوت زوردکھانے لگی…..اور پھر میرا رخ نائٹ کلب سے مسجد کی طرف ہوگیا"

"میں مسجد میں داخل ہوا، وضو کیا۔ جماعت ہورہی تھی، میں نے نماز ادا کی۔ بعض نمازیوں نے مجھے پہچان لیا۔ کوئی ہاتھ ملا رہا ہے، کوئی دور سے سلام کررہا ہے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ اور میرا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ الحمد اللہ میں نے فطرت کو پالیا ہے"

"کسی نے مجھے صحیح بخاری کا نسخہ تحفے میں دیا۔ یہ اب میرے لیے متاع حیات تھی…..میں اپنی نئی ماڈل کی قیمتی گاڑی میں سوار ہوا۔ اس کا رخ نائٹ کلب کی بجائے گھر کی طرف دیکھا۔ میری بیوی جو مجھے فجر کے وقت گھر آتے دیکھاکرتی تھی…..آج عشاءکے بعد گھر میں دیکھ رہی تھی۔ بیوی کی طرف بڑھا۔ "بیگم…..تمہیں مبارک ہو…..میں نے آج سے گانوں سے توبہ کرلی ہے۔ میں نے فسق وفجور اور لہو و لعب کی زندگی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ میں نے سچی توبہ کرلی ہے۔ میں الحمد اللہ تائب ہوگیا ہوں۔

پھر میں نے محسوس کیا گویا میں نے نئی زندگی کا آغاز کیا ہے…..سب سے پہلا کام…..وہ اسٹوڈیو، جس کا میں مالک تھا، جس میں گانے ریکارڈ کراتا تھا، جس میں دنیا بھر کی جدید مشینیں تھیں، جن کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کرتا رہا تھا…..میں نے اس اسٹوڈیو کو دعوت الی اللہ کیلئے وقف کردیا کہ اب یہاں قرآن پاک کی کیسٹیں، علمائے کرام کی تقاریر اور اسلامی ترانے ریکارڈہونگے…..میں نے قیمتی گاڑی فروخت کردی، خوبصورت محل نما کوٹھی فروخت کردی…..میں ایک اوسط درجے کے مکان میں آگیا۔ اب میرا وقت اپنے گھر میں گزرنےلگا۔ میری ایک ہی تمناتھی…..ایک ہی جستجو…..میں حلقہ قرآن سے وابستہ ہوگیا…..اب مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کی خواہش تھی"

کچھ عرصہ ٹھیک گزرا….. مگر جب کوئی اسلام کی راہ پر چلے گا تو آزمائش لازماً آئے گی…..یہ تو سنت اللہ ہے ۔ حق کی راہ میں یقینا بہت سی مشکلات ہیں …..دنیا مومن کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے…..یہ پھولوں کی سیج نہیں، یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ عبد اللہ کیلئے سب سے پہلی آزمائش مال کی کمی تھی…..وہ گانے بجانے کی علاوہ کوئی کام نہیں جانتا تھا۔یہ گانا بجانا ختم ہوا تو مصدر رزق بھی ختم ہوگیا۔ پہلے کا کمایا ہوا مال…..وہ حرام کی کمائی تھی…..لہٰذا اس میں برکت تو سرے سے تھی ہی نہیں…..پس انداز بھی کم ہی تھا…..کئی دن، کئی راتیں، کئی ہفتے گزرگئے…..آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ بن سکا…..جس شخص نے ساری زندگی عیش و عشرت میں گزاری ہو، اب اس کیلئے فاقہ کشی…..شیطان نے کئی بار بہکایا۔ ماضی یاد آیا…..کس طرح مال و دولت میں کھیلتا تھا اور اب روٹی کیلئے ترس رہا ہوں…..اسی زندگی میں لوٹ جاؤں؟ …..مگر ایمان کے تقاضے کچھ اور تھے۔ اور پھر ایک دن اس کے پرانے رفقاءآگئے…..موجودہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور دامِ تزویر پھیلایا: "عبد اللہ…..ایک رات ہمیں دے دو…..صرف ایک رات…..اور معاوضہ؟ …..تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ جو پہلے ایک رات میں کماتے تھے اس سے دوگنا…..تین گنا زیادہ ….. پانچ ….. سات ….. نو….. ہم دس گنا زیادہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ ایک مرتبہ ہاں کردو "مگر جب ایمان باللہ پختہ ہوجائے تو پھر انقلابات برپا ہوجاتے ہیں، سخت پہاڑ بھی راستہ چھوڑ دیتے ہیں…..ایمان اور اس کے مقابلے میں دنیا بھر کی دولت، دنیا بھر کی سیادت اورحکمرانی پرِکاہ کے برابر بھی حیثیت ہیں رکھتی …..عبد اللہ کے دل میں رب تعالیٰ کی محبت راسخ ہوچکی تھی۔ تمام اقسام کی مراعات، لالچ، فوائد …..کچھ منظور نہیں ….. میں نے رحمن کو راضی کرنے کا عزم صمیم کیا ہوا ہے۔

آزمائش کا اگلا دور شروع ہوا….. حکومت کو معلوم ہوا کہ عبد اللہ نے گانا گانے سے توبہ کرلی ہے۔ اس کی یہ مجال؟ …..اس کو بلایا گیا، پوچھا گیا، تنبیہ کی گئی، منع کیا گیا کہ یہ تمہارا فیصلہ نہایت نامقعول اور احمقانہ ہے۔

بعض نے کہا کہ چھوڑ دو، چند دن کی بات ہے۔ خود ہی واپس آجائے گا…..پھر اس کے ساتھ متعدد دانشوروں نے …..اپنے تئیں عصر حاضر کے نام نہاد دانشوروں نے عبد اللہ سے مناقشہ شروع کیا، مناظرہ ہوا، اس سے بحث ہوئی ….. تو معلوم ہو اکہ یہ وہ عبد اللہ نہیں ہے جس نے 18 سال فن کاری کی ہے….. یہ وہ مشہور مغنی، وہ گلوکار نہیں ،کوئی اور عبد اللہ ہے۔ ان کو خوب معلوم ہوگیا کہ اب وہ عبد اللہ گویّا نہیں بلکہ داعی الی اللہ ہے۔

اور جب مناقشہ، مناظرہ، بحث، لالچ، سب ناکام ہوگئے، عبد اللہ کو منوانے میں سب مکمل طور پر ناکام ہوچکے تو …..پھر منوانے کا، رام کرنے کا نیا انداز اختیار کیا گیا….. وہی انداز، جو تمام طاغوتی طاقتیں اختیار کرتی ہیں۔ ہر زمانے میں، ہر دور میں، ڈرانے کا، دھمکانے کا انداز …..تمہیں ٹیلی ویژن پر آناہوگا اور اعلان کرنا ہوگا ….."میں نے گانے بجانے سے جو انکار کیا تھا اب دوبارہ اس سے رجوع کررہا ہوں …..وہ میری غلطی تھی، وہ وقتی طور پر تھا"

…..اور اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو پھر جیل، قید خانہ، مقدمات، بدنی سزا…..مگرایک سچا مومن، جس کا ایمان راسخ ہے، جسے رب کی تائید اور مدد کا پختہ یقین ہے …..اس کے رویے میں کوئی نرمی نہیں آئی …..یہ زندگی ہے نا، ایک ہی، اسے ختم ہوجانا ہے …..اگر رب کی فرمانبرداری میں ختم ہوتی ہے تو سودا مہنگا نہیں ….. عبد اللہ نے اپنے رب کے ساتھ سچا سودا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو وہ حق سے نہیں پھرے گا …..پھر عبد اللہ نے شدت سے اور پوری قوت سے ان کے تمام مطالبات کو ٹھکرا دیا….. "خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے …..میں تمہاری بات ماننے کیلئے نہیں"

ان حالات میں طاغوت کے دیگر حربوںمیں سے ایک حربہ …..حق کی آواز کو روکنے کا …..قید، جیل، حبس، نظر بندی، مقدما ت ہوتاہے۔ چنانچہ یہ حربہ بھی آزمایا گیا …..اس کو جیل میں ڈال دیاگیا، شاید لوٹ آئے …..اس کا جرم، اس کا قصور، رقص و سرود اور گانے سے انکار….. جی ہاں ….. اس مقبول شخصیت کو جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیاگیا کیونکہ اس نے اس بات کا اعلان کیا تھا: …..میرا رب اللہ ہے …..اور اگر وہ ان کی بات مان لیتا …..غنا کو، رقص کو، رات کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیتا تو ا س کی عزت و احترام، منصب، دولت، شہرت، سب برقرار رہتے اور وہ اس کو کندھوں پر بٹھاتے۔
عبد اللہ ایک مدت تک قید میں رہا۔ اس دوران میں اس کو تعذیب دی گئی، مارا گیا، سزائیں دی گئیں کہ ترک غنا سے رجوع کرلے ….. مگر وہ اللہ کا بندہ اپنے عزائم پر ثابت قدم رہا۔ جیل میں ایک مدت گزارنے کے بعد میں اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو حکمران اس سے مایوس ہوگئے اور اسکو رہا کردیا۔

جیل سے نکلنے کے بعد معاشی حالات بہت پریشان کن ہوگئے مگر ان مشکل حالات میں، کٹھن اوقات میں اس کی بیوی اس کا مکمل ساتھ دیتی رہی۔ اس کا حوصلہ مزید بڑھاتی رہی کہ دنیا کے مال و متاع بالکل ناپائیدار ہیں۔ حقیقی طور پر امیر کون ہے، وہ نہیں جس کے پاس مال و دولت کے انبار ہوں بلکہ حقیقت میں امیر وہ ہے جس کا دل امیر ہے…..حقیقی قوت کیا ہے، عقیدہ اور ایمان کی قوت ….. حقیقی خوشی، سعادت اور خوش بختی کس چیز کا نام ہے ….. یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور اس کی رضا میں ہے۔

1990میں عبد اللہ نے اپنے وطن کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا۔ یوں بھی ملک کے حالات خراب ہوچکے تھے، خانہ جنگی شروع تھی۔ مختلف قبائل ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور قتل و غارت گری میں مبتلا تھے….. اور پھر وہ پہلی مرتبہ اس گھر کی زیارت کیلئے آیا جس کی زیارت اور جس کے گرد چکر لگانے کی تڑپ دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ وہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا، نیک بخت بیوی بھی ہمراہ تھی۔ عمرہ ادا کیا تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مکہ مکرمہ میں بعض اہل خیر کو معلوم ہوا ،وہ اس سے واقف تھے …..اس کی سابقہ زندگی سے…..اس کے ماضی سے ….. اس کی اسلام پر پختگی سے …..اور پھر انہوں نے عبد اللہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اس کی تکریم کی، اس کی کفالت کی ….. کچھ ہی عرصہ میں اس نے قرآن کے دس پارت حفظ کرلیے۔

اس کے وطن میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ ان حالات میں اس نے اک مصلح کا کردار اداکیا، وہ وطن واپس گیا۔ قبائل کے درمیان صلح کی کوشش کی، فساد کو ختم کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ اور شہرت کو استعمال کیا….. اب وہ ایک مبلغ تھا …..عقیدہ کا، اسلام کا ، قرآن کا، حدیث کا …..پھر وہ اس دوران میں کئی مرتبہ عمرہ کرنے کیلئے مکہ مکرمہ آیا۔ پھر اس کو اس بلد الحرام میں، مکہ مکرمہ میں، اس مبارک اور مقدس شہر کی مقدس مسجد میں بطور موذن موقع مل گیا۔ عبد اللہ آج بھی مبلغ ہے، وہ موذن ہے اسلام کی آواز کا …..وہ سعودی عرب میں ہو یا صومالیہ میں، ہر جگہ وہ دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے اور نجانے کتنے ہی گنہگاروں اور خطاکاروں نے اس کے ہاتھ پر توبہ کی ہے اور اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بنالی ہیں تاکہ وہ بھی حقیقی سعادت سے بہرہ ور ہوسکیں …..بالکل اسی طرح جس طرح عبد اللہ سعادت حاصل کرچکا ہے۔


 ماخوذ از :       فیس بک  ۔


               
ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]