میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

نبی کریم ﷺ کےزیورات !!!

 نبی مہربان ،نبی آخر الزمان صلی الله علیہ وآلہ و سلم کا فرمان عالیشان ہے کہ   : اسلحہ مومن کا زیور ہے ۔(الحدیث) نبی صلی الله علیہ و سلم اور ان کے صحابہ اکرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی میراث میں سامانِ حرب کے علاوہ کبھی کوئی مال و زر کے انبار اور اپنی ضرورت سے بیشتر بغیر زکوٰۃ نکالے کوئی اضافی سامان نہیں ملے ۔
نبی کریم صلی الله علیہ و سلم اپنی میراث  میں یہی زیورات (سامانِ حرب )چھوڑ کر گئے تھے ۔نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کے زیورات(میراث)میں 9 تلواریں تھیں۔نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کے زیورات کے متعلق مکمل آگاہی ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ذیل میں ہر ایک تلوار کی مکمل  تفصیلات تصاویر کے ساتھ بیان کی جارہی ہیں :
(1البتّار
یہ تلوار نبی صلی الله علیہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے (بنو قینقاع ) سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس  تلوار کو (سیف الانبیاء) نبیوں کی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس تلوار پر حضرت داؤود علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، یسع علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور نبی صلی الله علیہ و سلم کے اسماء مبارکہ کنندہ ہیں۔ یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کو اس وقت مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی جب ان کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی۔اس تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہے جس میں حضرت   داؤود علیہ السلام کو جالوت کا سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے (جو کہ اس تلوار کا اصلی مالک تھا)۔تلوار پر  ایک ایسا نشان بھی بنا ہوا ہے جو بتراء شہر کے  قدیمی عرب باشندے (البادیون) اپنی ملکیتی اَشیاء پر بنایا کرتے تھے۔
بعض روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہی وہ تلوار ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  اس دنیا میں واپس آنے کے بعد اللہ کے دشمن ”کانے دجال“ کا خاتمہ کریں گے اور دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں گے۔اس تلوار کی لمبائی 101 سینٹی میٹر ہے ۔آج کل یہ تلوار ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کیپی۔استنبول“ میں محفوظ ہے۔
(2الماثور
یہ تلوار نبی صلی الله علیہ و سلم کو  اپنے والد ماجد کی وراثت کے طور پر نبوت کےاعلان سے قبل  ملی تھی۔ یہ تلوار ایک اور نام ”مأثور الفجر“سے بھی مشہور ہے۔ نبی صلی الله علیہ و سلم نے جب یثرب کی طرف ہجرت فرمائی تو یہی تلوار نبی صلی الله علیہ و سلم کے پاس تھی۔ بعد میں آپﷺ نے یہ تلوار بمع دیگر چند آلاتِ حرب حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو عطا فرما دیئے تھے۔ اس تلوار کا دستہ سونے کا بنا ہوا ہے اور دونوں اطراف سے مڑا ہوا ہے۔ مزید خوبصورتی کے لیے اس پر زمرد اور فیروزے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 99 سینٹی میٹر  ہے۔آج کل یہ تلوار بھی  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کیپی۔استنبول“ میں محفوظ ہے۔
(3الحتف
یہ تلوار  بھی نبی صلی الله علیہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے( بنو قینقاع) سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے بنی ہوئی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے  لوہے کے سازوسامان خاص طور پر ڈھالیں، تلواریں اور دیگر آلاتِ حرب بنانے میں خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی۔ حضرت داؤود علیہ السلام نے اس تلوار کو”البتّار“ سے ملتا جلتا لیکن سائز میں اُس سے بڑا بنایا۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے ”لاوی “کے پاس اپنے آباء و اجداد ”بنو اسرائیک“کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل محفوظ چلی آ رہی تھی حتیٰ  کہ آخر میں یہ نبی صلی الله علیہ و سلم کےمبارک ہاتھوں  میں مالِ غنیمت کے طور پر پہنچی ۔اس تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی 8 سینٹی میٹر ہے۔ آج کل یہ تلوار بھی  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ”توپ کیپی۔استنبول“ میں محفوظ ہے۔
(4)  الذوالفقار

یہ تلوار نبی صلی الله علیہ و سلم کو غزوہِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔  بعد میں  نبی صلی الله علیہ و سلم نے یہ تلوار حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرما دی تھی۔ غزوہِ اُحد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  اسی تلوار کے ساتھ میدانِ جنگ میں اُترے اور مشرکینِ مکہ کے کئی بڑے بڑے سرداروں کو واصلِ جہنم کیا۔ یہ تلوار خاندانِ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں باقی رہی۔ اس تلوار کی وجہ شہرت یا تو دو دھاری ہونے کی وجہ سے ہے یا پھر اس پر بنے ہوئے ہوئے دو نوک نقش و نگار کی وجہ سے ہے اور آج کل یہ تلوار  بھی  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کیپی۔استنبول“ میں محفوظ ہے۔
(5)  الرسّوب
یہ تلوار نبی صلی الله علیہ و سلم کی ملکیتی 9 تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ خاندانِ رسول صلی الله علیہ  و سلم  میں یہ تلوار بالکل ویسے ہی محفوظ منتقل ہوتی رہی  جس طرح ’تابوت العہد‘ بنو اسرئیل میں خاندان در خاندان محفوظ رہا اور نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی کنندہ ہے۔اس تلوار کی لمبائی 140 سینٹی میٹر ہے ۔ آج کل یہ تلوار  بھی  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کیپی۔استنبول“میں محفوظ ہے۔
(6)  المخذم
اس تلوار کے حوالے سے دو مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔:
اول یہ تلوار نبی صلی الله علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی اور بعد میں اولادِ علی میں وراثت کے طور پر نسل در نسل چلتی رہی۔
دوم یہ  تلوار  علی رضی اللہ عنہ کو اہلِ شام کے ساتھ ایک معرکے میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار پر  ’زین الدین العابدین‘ کے الفاظ کنندہ ہیں۔اس تلوار کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے۔ آج کل یہ تلوار بھی  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کیپی۔استنبول“ میں محفوظ ہے۔
(7)  القضیب
یہ تلوارنحیف اور بہت کم چوڑائی والی ہے بلکہ اسی طرح جس طرح کسی تنگ راستے کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ تلوار نبی صلی الله علیہ و سلم کے ہمراہ دفاع یا رفیقِ سفر کے طور پر تو ضرور موجود رہی مگر اس تلوار سے کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ تلوار پر چاندی کے ساتھ ’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب‘ صلی الله علیہ و سلم  کے الفاظ کنندہ ہیں۔کوئی ایسا تاریخی حوالہ اس بات کی طرف اشارہ نہیں  دیتا  کہ تلوار کسی طور سے بھی نبی صلی الله علیہ و سلم  کی حیاتِ طیبہ میں کسی جنگ میں استعمال ہوئی۔ تلوار ہمیشہ نبی صلی الله علیہ و سلم کے گھر میں موجود رہی۔ لیکن فاطمی عہدِ خلافت میں اس تلوار کو استعمال کیا گیا۔ اس تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور اس تلوار کی  میان کسی جانور کی کھال کی بنی ہوئی ہے۔ آج کل یہ تلوار بھی  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ”توپ کیپی۔استنبول“میں محفوظ ہے۔
(8)  العضب
یہ تلوار (العضب یعنی تیز دھار والی) نبی صلی الله علیہ و سلم  کو  آپ صلی الله علیہ و سلم  کے صحابی سعد بن عبادہ الانصاری نے غزوہ اُحد سے قبل تحفہ دی تھی۔ نبی صلی الله علیہ و سلم نے اُحد والے دن یہی تلوار معروف صحابی ابو دجانہ الانصاری کو عطا فرما دی تاکہ وہ میدانِ جنگ میں اُتر کر اللہ اور اُس کے رسول صلی الله علیہ  و سلم  کے دشمنوں پر اسلام کی قوت و عظمت کا مظاہرہ کریں۔آج کل یہ تلوار مصر کے شہر قاہرہ کی ”مشہور جامع مسجد الحسین بن علی رضی اللہ عنہما“میں محفوظ ہے۔  
(9)  القلعی
لفظ قلعی کا تعلق  شام کے کسی علاقہ سے دکھائی دیتا ہے یا پھر ہندوستان اور چین کے کسی سرحدی علاقے سے ہے۔ جب کہ ایک طبقہ کے علماء یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ کیونکہ قلعی ایک قسم کی دھات کا نام ہے جو دیگر دھاتی چیزوں کو چمکانے یا ان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے اس تلوار کی وجہ تسمیہ ہو سکتی ہے۔ یہ تلوار ان تین تلواروں میں سے ایک ہے جو نبی صلی الله علیہ و سلم کو  یثرب کے یہودی قبیلے( بنو قینقاع) سے جنگ میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ اس تلوار کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ و سلم کے دادا حضرت عبد المطلب نے اس تلوار  اور سونے کے بنے ہوئے دو ہرنوں کو زمزم کے کنویں سے نکلوایا تھا جو کہ قبیلہ  جرہم الحمیریہ (حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سسرالی قبیلے) نے یہاں پر ایک زمانہ قبل دفن کیا تھا۔ بعد میں حضرت عبد المطلب نے اس تلوار کو بمعہ دیگر قیمتی سامان بیت اللہ میں حفاظت سے رکھوا دیا۔
تلوار پر دستے کے قریب  یہ الفاظ کنندہ ہیں (ھٍذہ السیف المشرفی لبیت محمد رسول اللہ صلی الله علیہ و سلم: یہ تلوار محمد رسول اللہ صلی الله علیہ و سلم کے گھرانے کی عزت کی علامت ہے)۔  تلوار کی خوبصورت میان اس کو دوسری تلواروں میں ایک نمایاں مقام دیتی ہے۔ اس تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور آج کل یہ تلوار بھی  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کیپی۔استنبول“ میں محفوظ ہے۔
حوالہ جات :
ان تلواروں کی تصویریں ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہیں۔ انہوں  نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929 ء؁میں اپنے مقالے  بنام ”رسول اللہ صلی الله علیہ و سلم کی تلواریں اور سامانِ حرب“ کے سلسلہ میں بنائیں۔

حوالہ برائے ویب:              http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=206411
مضمون نگار :  محمد سلیم ملتانی ۔(عرف حاجی صاحب)
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]