میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

پنڈی ایکسپریس: ایک لازوال سفر کا اختتام

دنیائے کرکٹ کا تیز ترین باؤلر شعیب اختر 13اگست 1975ء؁کو راولپنڈی کے قریب واقعہ ایک قصبے مورگہ میں پیدا ہوا۔ ان کے والد صاحب اٹک آئل ریفائنری میں ملازم تھے۔شعیب اختر پاؤں چپٹے ہونے کی وجہ سے چار سال کی عمر میں اپنے پاؤں سے چل پایا۔شعیب نے ابتدائی تعلیم ایک مقامی اسکول ایلیٹ ہائی اسکول مورگہ میں حاصل کی اور بعد میں مزید تعلیم حاصل کرنے کےلئے اصغر مال کالج راولپنڈی میں داخلہ لیا۔



















شعیب اختر نے 19سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنی شروع کی۔شعیب نے فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز 1994ء؁میں ایگریکلچر ڈویلپمنٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے کھیل کر کیا۔شعیب نے انٹرنیشنل کرکٹ کا آغازنومبر1997ءمیں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیل کر کیا۔اور اپنی تیز رفتاری سے وہ جلد ہی پوری دنیا میں مقبول ہوگیا اورسب کو اپنی تعریف کرنے پر مجبور کردیا۔تیز رفتار بولنگ کے سبب انہیں ”راولپنڈی ایکسپریس“کا خطاب بھی دیا گیا ۔اس کے عروج کا آغاز1999ء؁میں کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل  ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کے ایک میچ میں انڈیا کے خلاف شاندار کارکردگی سے ہوا جس میں اس نے کلکتہ میں دو گیندوں پر بھارتی مایہ ناز بلے باز راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ کرکے تہلکہ مچادیا اور اس میچ میں اس نے کل 8وکٹیں حاصل کیں۔اسی طرح نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف کامیابی میں بھی شعیب اختر نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ لیکن 2003ء؁کا ورلڈ کپ شعیب کےلئے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس کو ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔لیکن شعیب نے ہمت نہیں ہاری اور 2004ءمیں نیوزی لینڈ کے خلاف میچز میں وہ ٹیم میں واپس آیااور اپنی شاندار کارکردگی سے اس نے ناقدین کے منہ بند کردئیے ۔2005ءمیں برطانیہ کا دورہ شعیب اختر کےلئے کافی مفید ثابت ہوا جہاں اس نے بیٹنگ کےلئے بنائی گئی وکٹوں پر عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔اس نے اس سیریز میں 17وکٹیں اپنے نام کیں۔

شعیب اختر دنیا کا واحد کھلاڑی ہے جس نے سو میل فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے گیند پھینکی۔اس نے یہ کارنامہ 2003ء؁کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں سرانجام دیا۔اس نے 100.2میل فی گھنٹہ (161.4کلومیٹرفی گھنٹہ)کی رفتار سے گیند پھینکی جو کہ ابھی تک کی سب سے تیز رفتار گیند ہے۔
جہاں شعیب اختر کا کیرئیر کئی کامیابیوں سے بھرا پڑا ہے وہیں بہت سے تنازعات ہیں جن کا سامناانہوں نے کیا۔ شعیب اختر ہروقت خبروں میں رہنے والے بھی مشہور ہیں۔
ان کے کیرئیر کے سب سے پہلے تنازعے کا آغاز1999ء؁میں ہوا جب امپائر ڈیرل ہئیر اور پیٹرویلی نے ان کے باؤلنگ ایکشن پہ اعتراض کیالیکن بعدازاں اس ایکشن کو جائز قرار دے دیا گیا۔پھر2001ء؁میں امپائرا سٹیوڈن اور ڈگ کوئی نے شعیب کے ایکشن پہ دوبارہ سے اعتراض کیا لیکن یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ان کے ایکشن پر نظرثانی کرنے کے بعد ان کے بازو میں قدرتی خم کی وجہ سے ان کے ایکشن کو ایک بار پھر جائز قرار دیاگیا۔2002ء؁میں زمبابوے کے خلاف ایک میچ میں ان پر بال ٹمپرنگ کا الزام عائد ہوا۔اسی طرح2003ءمیں سری لنکا کے خلاف میچ میں ان پر بال ٹمپرنگ کاالزام لگا جو کہ بعدازاں سچا ثابت ہوااور اس کی پاداش میں ان کو جرمانے اور پابندی کی سزا سہنا پڑی۔ اس طرح وہ دوسرے ایسے کرکٹر تھے جن کو یہ سزا سنائی گئی۔2005ء؁میں دورہ آسٹریلیا کے دوران ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ ناروا رویے اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں وطن واپسی کا پروانہ تھمادیا گیا۔اسی طرح اکتوبر2006ء؁میں شعیب اختر اور ان کے ساتھی باؤلر محمد آصف پر ممنوعہ ادویات (نینڈرولون)لینے کا الزام عائد ہوا اور ان پر کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگادی گئی۔اگست2007ء؁میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے شعیب اختر کو تین لاکھ روپے جرمانہ کیا کیونکہ انہوں نے کرکٹ بورڈ کے اعلی عہدیدار کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔اسی طرح شعیب اختر کئی بار چوٹ لگنے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوچکے ہیں۔اور اس کے علاوہ ان کے بالی وڈ اداکارہ دیا مرزا کے ساتھ معاشقوں کی خبریں بھی کافی عرصہ گردش میں رہی ہیں۔



 شعیب اختر کا کیرئیر تنازعات سے بھراپڑا ہے جس کی وجہ سے ان کو کئی مواقع پہ ٹیم سے باہر ہونے کی صورت میں نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے ۔ لیکن ان کو جب بھی پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا انہوں نے اپنی کارکردگی سے ناقدین کے منہ بند کردئیے اور پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ۔ اور آج بھی مخالف بلے باز شعیب اختر کو کھیلتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔یا یوں کہہ لیں کہ کرکٹ کے بڑے بڑے سورماؤں چاہے وہ رکی پونٹنگ ہو، برائن لارا ہو، سچن ٹنڈولکر ہو، راہول ڈریوڈ ہو، گنگولی ہو یا پھر ژاک کیلس ہو کوئی بھی ان کی دہشت سے نہیں بچ پایا۔ان تنازعات سے بھرے ہوئے کیرئیر میں بھی شعیب نے کئی موقعوں پر ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔

ذیل میں شعیب اختر کی ٹیسٹ ، ون ڈے اور T20 کرکٹ میں کارکردگی کا مختصر جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔
شعیب اختر نے اب تک کل 46ٹیسٹ میچ کھیلے جس میں اس نے 178وکٹیں حاصل کیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی بہترین باؤلنگ 78رنزکے عوض11وکٹیں ہیں۔ اور ٹیسٹ کرکٹ میں انہوں نے بطور بلے باز  544رنزبنائے ہیں اور ان کا ٹیسٹ میں بہترین اسکور 47 ہے ۔ بطور فیلڈر انہوں نے 12کیچز پکڑے ہیں۔
شعیب اختر نے کل 163ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کھیلے ہیں جس میں انہوں نے 247وکٹیں اپنے نام کیں۔ ان کی ایک میچ میں بہترین کارکردگی 16رنز کے عوض6 وکٹیں ہیں۔ اسی طرح ایک روزہ میچوں میں بطور بلے باز انہوں نے 394رنز بنائے اور ان کا بہترین اسکور 43ہے۔بطور فیلڈر ایک روزہ کرکٹر انہوں نے 20کیچ پکڑے ہیں۔
شعیب اختر T20کرکٹ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی ہے ۔ وہ اب تک کل 15ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچز کھیل چکے ہیں جس میں انہوں نے 19وکٹیں حاصل کیں اور ان کی بہترین باؤلنگ 38رنز کے عوض 3وکٹیں ہیں۔ اسی طرح اس مختصر طرز کی کرکٹ میں بطور بلے باز انہوں نے 21رنز اسکور کئے ہیں اور ان کا بہترین اسکور8رنز ناٹ آؤٹ ہیں اور بطور فیلڈر انہوں نے 2کیچز پکڑے ہیں۔

15مارچ2011ءبروز جمعرات کولمبو میں شعیب اختر نے اعلان کیا کہ ورلڈ کپ 2011کے بعد وہ انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ان کے والدین اب بوڑھے ہورہے ہیں اور وہ ان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ رواں سال کے آخر میں شعیب اختر شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس بات کا افسوس رہے گا کہ عمران خان کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیل پائے ان کو وہ پاکستان کی کرکٹ کی ترقی اور کامیابی کا اہم ستون قرار دیتے ہیں ۔ اور شعیب اختر نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ عمران خان کی طرح ایک ہسپتال قائم کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہسپتال راولپنڈی کے ایسے علاقے میں قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں پرمیڈیکل کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور انہیں امید ہے کہ اللہ پاک اس مقصد میں ان کی مدد کرے گا۔

ایک طرف تو ان کے ریٹائرمنٹ کے اعلان نے بعض حلقوں کو حیران کردیا ہے ۔ لیکن بعضوں کے نزدیک کا ان کا فیصلہ بالکل درست ہے اور کئی لوگوں نے اس کو سراہا ہے ۔ شعیب اختر کو ان کے کئی ہم عصر کرکٹرز نے زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔اور شعیب اختر کی خواہش ہے کہ انہیں ایک محب وطن کرکٹر کے طور پر یاد رکھا جائےاور انہیں اپنے محب وطن ہونے پر فخر ہے تو ہمیں بھی اپنے اس ہیرو پر فخر ہے ۔شعیب اختر کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد فاسٹ باؤلنگ ایک باب ہمیشہ کےلئے بند ہوگیا ہے اور مستقبل قریب میں ان کا تیزترین بال کا ریکارڈ ٹوٹنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ۔



مصنف:  عدنان شاہد ۔
http://www.adnanshahid.com/
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]