القاعدہ سے منسلک تنظیم حرکت الجہاد الاسلامی کے رہنما چوہدری الیاس المعروف کشمیری پاکستان میں جاری شدت پسندی کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جاتے تھے۔
کشمیر میں جاری جہاد، وزیرستان ایجنسی میں جنگجوﺅں کے ساتھ تعلقات، القاعدہ سے مراسم اور پنجابی طالبان کے ساتھ رابطوں کی وجہ سے الیاس کشمیر ی کا شمار انتہائی مطلوب افراد میں ہوتا تھا۔امریکا کی جانب سے پاکستان کو مبینہ طور پر فراہم کی گئی پانچ انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں الیاس کشمیری بھی شامل تھے اور وہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے شدت پسندوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پرتھے۔
الیاس کشمیری پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے علاقے بھمبر تاٹھی میں فروری سنہ انیس سو چونسٹھ میں پیدا ہوئے۔الیاس کشمیری نے انیس سو اسی کی دہائی میں روس کے خلاف افغان جنگ میں حصہ لیا جہاں ان کی ایک آنکھ اور ایک انگلی ضائع ہو گئی تھی۔الیاس کشمیری کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ جنگ جو کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں ہی گزرا ہے۔روس کے خلاف افغانستان میں جنگ ہو یا بھارت کے زیرِانتظام کشمیر اور ممبئی میں حملے کرنا ہوں، سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ ہو یا یورپی ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں الیاس کشمیری کا نام ان میں نظر آتا ہے۔الیاس کشمیری جیشِ محمد اور دیگر تنظیموں میں کارکن کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد القاعدہ سے منسلک حرکت الجہاد الاسلامی کے رہنما بنے۔ الیاس کشمیری کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کراچی میں نیوی کے مہران بیس پر حملے کے بھی ماسٹر مائنڈ تھے۔الیاس کشمیری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان فوجی کے اسپیشل فورس میں کمانڈو کی حیثیت سے رہے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس کی تردید کر دی تھی۔ستمبر سن دو ہزار نو میں ایسی اطلاعات آئیں تھیں کہ وہ شمالی وزیرستان ایجنسی میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں لیکن وسط اکتوبر میں پھر معلوم ہوا کہ وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔دوسری جانب الیاس کشمیری کے بھائی نے کہا ہے کہ انہیں الیاس کشمیری کے بارے میں کوئی علم نہیں تاہم ان کی ہلاکت کی خبر ذرائع ابلاغ سے پتہ چلی ہے۔الیاس کشمیری کے بھائی چوہدری اصغر نے پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے علاقے بھمبر سے بی بی سی کو ٹیلیفون پر بتایا ’ہمیں ان ( الیاس کشمیری) کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور ہمارا ان کے ساتھ چھ سال سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔الیاس کشمیری کی بیوی، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا کالج میں پڑھتا ہے اور اس کی عمرسترہ سال ہے، جبکہ چھوٹا بیٹا نو برس کا ہے۔الیاس کشمیری کا ایک بھائی اور دو بہنیں بھی ہیں۔چوہدری اصغر کا، جو پرائیوٹ ملازمت کرتے ہیں، کہنا ہے کہ ان کی اپنے بھائی سے آخری ملاقات چھ سال پہلے ہوئی تھی جب وہ چھ ماہ کی قید سے رہائی کے بعد گھر آئے تھے اور اسی دوران ان کے والد بھی وفات پا گئے۔انہوں نے کہا وہ ( الیاس کشمیری) لگ بھگ ایک ماہ گھر پر رہے اور پھر چلے گئے اور دوبارہ گھر واپس نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے آج تک کوئی رابطہ کیا۔’میں نے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ ان کی گرفتاری کی وجہ سے تمام گھر والے پریشان تھے اور اب والد بھی نہیں رہے لہذا گھر میں رہو، کوئی کام یا نوکری کرو اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرو لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں وہی کروں گا جو میری مرضی ہو گی، مجھے جہاد کرنا ہے۔‘چوہدری اصغر نے بتایا کہ اس کے بعد دونوں بھائیوں کے درمیان ناراضگی ہو گئی اور وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ راولپنڈی منتقل ہو گئے۔اسی دوران انہیں معلوم ہوا کہ الیاس کشمیری گھر سے چلے گئے ہیں لیکن چوہدری اصغر کے مطابق انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں گئے۔چوہدری اصغر نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے بھائی چھ ماہ تک کس کی قید میں رہے البتہ اس وقت علاقے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں تھے۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے بھی وہ چھ ماہ مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی تحویل میں رہے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے اس وقت کے فوجی صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے ہندوستان کے زیرِانتظام کشمیر میں برسرِپیکار پاکستانی تنظیوں کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی تھی۔
مصنف : بشکریہ نمائندہ خصوصی روزنامہ جسارت کراچی ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]