قلم اٹھانے سے پہلے بلند آواز میں کہیں کہ ملک اس وقت نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ اگر ملک کا خیال نہیں ہے تو لکھنے سے پہلے اپنے جسم کے نازک حِصوں کے بارے میں سوچیں، ان پر اگر نازک وقت آگیا تو کیا ہوگا؟
اگر کسی خبر میں مسلح افواج کا ذکر آئے تو اس کے لیے فوج کا لفظ استعمال مت کریں، عسکری یا مقتدر حلقوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ بلکہ آپ کی اور آپ کے اخبار کی صحت کے لیے بہتر ہوگا کہ لفظ مقتدرہ استعمال کریں۔ بزرگ پڑھنے والے سمجھیں گے کہ آپ مقتدرہ قومی زبان جیسے اداروں میں فخرزمان یا افتخار عارف کاحوالہ دے رہے ہیں ، نوجوان سوچیں گے کوئی نئی عربی ڈش ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
اگر آپ کی طبیعت شاعری کی طرف مائل ہے تو یہ شعر خوشخط لکھ کر اپنے سامنے آویزاں کرلیں:
لےسانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا
کیا پلاٹ لے لیا ہے؟ اگر کل مرجاؤ گے تو بچے کیا تمہارے ضمیر کا اچار ڈال کر کھائیں گے؟
ہمارا خیال ہے کہ اگر کراچی میں صحافت کرتے ہیں تو وہ آفاق والا شعر اتار دیں۔ کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ آپ آفاق گروپ کے آدمی ہیں۔
جیسے ہی کسی خبر میں لفظ بلوچ، بلوچی یا بلوچستان آئے تو اس کو کاٹ کر لفظ نامعلوم ڈال دیں۔ مثلاً َ کچھ نامعلوم افراد ایک نامعلوم شخص کو اغواء کر کے ایک نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں اس پر نامعلوم طریقے سے تشدد کر کے نامعلوم جگہ پر پھینک دیا گیا۔
یہ لکھنا نہ بھولیں کہ نامعلوم افراد کے خلاف ایک نامعلوم مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اگر بچپن میں کہیں قلم اور تلوار کی طاقت والا لطیفہ سنا تھا تو اسے بھول جائیں اب اس پر کوئی نہیں ہنستا۔
قومی سلامتی کے امور پر لکھنے سے پہلے وضو کر لیں اور اگر ایمان کمزور ہے تو اس طرف مت جائیں۔ اور بہت سے موضوعات ہیں جن پر لکھا جاسکتا ہے ، ہمارے گٹر کے ڈھکن کون چراتا ہے، بھکاری مافیا کے نئے انداز، قبضہ گروپ کی کارستانیاں وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یاد رہے کہ قبضہ گروپ اور مقتدرہ کا ذکر ایک ساتھ نہ آئے۔
اس ہدایت نامے کے عنوان میں برادری کے مطلب کہنے کے لیے کسی پنجابی بھائی سے رجوع کریں۔ چیمہ، چٹھہ، کیانی ویسے تو سب برادریاں کہلاتی ہیں لیکن برادری کے اندر چھوٹے بڑے کا احترام ضروری ہے۔ مثلا َ َ کیانی برادری کے اندر ایک فالسے کی ریڑھی لگانے والا بھی ہو سکتا ہے اور ایک میجر بھی۔ پہلے برادری میں اپنے مقام کا تعین کریں۔ اس سے پہلے کہ برادری آپ کو اپنا مقام یاد کرائے، برادری میں اپنا مقام پیدا کریں۔
بعض ناعاقبت اندیش لوگ ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے نام سے پکارنے لگے ہیں یا انہیں خفیہ ایجنسیاں کہہ کر بلانے لگے ہیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں کوئی بات خفیہ نہیں ہے۔ آپ پرلازم ہے کہ انہیں ہمیشہ حساس ادارے کہہ کر پکاریں۔ اگر آپ اپنے حساس اداروں کے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے محسوسات کو ایک طرف نہیں رکھیں گے اور معاملے کی حساسیت کا خیال نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے جسم کے کسی حساس حصے پر ضرب آئے اور پھر آپ بلبلاتے ہوئے حساس اداروں کو الزام دینے لگیں، حالانکہ آپ کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
مصنف : محمد حنیف ۔(کراچی)
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]