(موجودہ پاکستانی نام نہاد جمہوریت کے آلہ کاروں کے نام ”مظلوم پاکستانی“ کی آہ و فغاں)
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
اس دور کے رسم رواجوں سے
اس تختوں سے ، ان تاجوں سے
جو ظلم کی کوکھ سے جنتنے ہیں
انسانی خون سے پلتے ہیں
جو نفرت کی بنیادیں ہیں
خونی کھیت کی کھادیں ہیں
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
وہ جن کے ہونٹ کی جنبش سے
وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے
قانون بدلتے رہتے ہیں
مجرم پلتے رہتے ہیں
ان چوروں کے سرداروں سے
انصاف کے پہرے داروں سے
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
جو عورت کو نچواتے ہیں
بازار کی جنس بنواتے ہیں
پھر اس کی عصمت کے غم میں
تحریکیں بھی چلواتے ہیں
ان ظالم اور بد کاروں سے
بازار کے ان معماروں سے
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
جو قوم کے غم میں روتے ہیں
اور قوم کی دولت ڈھوتے ہیں
وہ محلوں میں جو رہتے ہیں
بات غریب کی کہتے ہیں
ان دھوکے باز لٹیروں سے
سرداروں اور وڈیروں سے
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
مذہب کے جو بیوپاری ہیں
وہ سب سے بڑی بیماری ہیں
وہ جن کے سوا سب کافر ہیں
جو دین کا حرف ِ آخر ہیں
ان جھوٹے اور مکاروں سے
مذہب کے ٹھیکے داروں سے
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
جہاں سانسوں پہ تعزیریں ہیں
جہاں بگڑی ہوئی تقدیریں ہیں
ذاتوں کے گورکھ دھندے ہیں
جہاں نفرت کے یہ پھندے ہیں
سوچوں کی ایسی پستی سے
اس ظلم کی گندی بستی سے
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
مرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے
مرے سر پہ ظلم کا پھندا ہے
میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں
میں موت کی خاطر زندہ ہوں
مرے خون کا سورج چمکے گا
تو بچہ بچہ بولے گا
میں باغی ہو ں !!! میں باغی ہوں !!!
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
اس نظم کی ویڈیو بھی ملاحظہ فر مائیے ۔(شکریہ)
شاعر : نامعلوم۔ مجموعہ کلام : نامعلوم۔
ماخذ : فیس بک۔
انتخاب /ترتیب: ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)