امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد خاص امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نہایت ذہین اور حاضر جواب تھے۔ان کی حاضر جوابی اور شستہ جوابی زبان زدعام تھی۔
ایک مرتبہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ حج پر تشریف لے گئے ۔ظہر یا عصر کے وقت انہوں نے امامت کی ۔چوں کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ مسافر تھے اس لیے انہوں نے قصر (یعنی چار رکعت والی نماز میں دو رکعت کے بعد سلام پھیر دینا)کیا اور سنت کے مطابق سلام پھیر کر کہا کہ :”مقیم لوگ اپنی نماز پوری کر لیں ، میں مسافر ہوں۔“
اہل مکہ(مقیم ) میں سےایک شخص نے نماز کے دوران ہی نہایت ہی تحقیر کے انداز میں کہا کہ :”ہم لوگ یہ مسئلہ تم سے اور جس نے تم کو سکھایا ہے اس سے بہتر جانتے ہیں ۔“
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی تحمل اور بردباری سے جواب دیاکہ :”آپ کی بات بھی ٹھیک ہے۔لیکن یہ مسئلہ آپ کو معلوم ہوتا تو آپ نماز میں بات چیت نہ شروع کر دیتے ۔“
اس جواب پر خلیفہ ہارون الرشید بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ :”اگر نصف سلطنت کے بدلہ مجھے یہ جواب مل جاتا تو بھی میں پسند کرتا۔“
بہ اقتباس : مفتاح السعادۃ۔صفحہ نمبر 104
انتخاب /ترتیب : ابن ساحل ۔(بہ کی بورڈ خود)