میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

پیر ویلن ٹائن کی کرامات !!!


14 فروری کو دُنیا بھر کی طرح ہمارے یہاں بھی پیر ویلن ٹائن علیہ ماعلیہ کا عرس سراپا قدس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو صرف ہمارے یہاں سب سے زیادہ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم اس کالم کے ذریعے سے اپنے یہاں اِس عرس شریف کے دُنیا بھر سے زیادہ کامیاب انعقاد پر اپنی پوری قوم کو تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ’ایں کار از تو آئد و مرداں چنیں کنند‘… بلکہ… ’زناں بھی چناں کنند‘۔


ہم نے عرس منانے میں دُنیا بھر پر سبقت لے جانے کی جو بات کی ہے تو یہ بات کسی خوش فہمی یا محض اپنی خوش عقیدگی کے سبب نہیں کی ہے۔ امریکا اور برطانیہ وغیرہ میں بھی یہ عرس اتنے تزک و احتشام سے نہیں منایا جاتا جتنا پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر دکھایا جاتا اور Face Book وغیرہ پر پھیلایا جاتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں یہ عرس جتنی وارفتگی اور جس جوش وخروش سے منایا جاتا ہے، مغرب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔ وہاں بالفرضِ محال اگر کسی نے یہ عرس منایا بھی ہوگا تو نجی طور پر ہی منایا ہوگا۔ شاید ہوٹلوں میں۔ شاید ریستورانوں میں۔ (’گھر‘ …  تو وہاں رہا ہی نہیں)
باعثِ تحریر آں کہ کچھ بزرگوں نے ’ویلن ٹائن ڈے‘ کو (نعوذباللہ) ’لعنت‘ اور اِس کے منانے کو (استغفر اللہ) ’نیا فساد‘ قرار دے ڈالا ہے۔ حالاں کہ کلیۂ رئیسانی کی رُو سے: ’فساد، فساد ہوتا ہے، خواہ پرانا ہو یا نیا‘۔ ہم اپنے بزرگوںکا بہت احترام کرتے ہیں مگر کیا کریں کہ اب وہ(اپنی) عمر کے اُس مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں جہاں پہنچ کر بقولِ حفیظ ؔجالندھری مرحوم:
ہر بُری بات، بُری بات نظر آتی ہے
لہٰذا چند بزرگوں نے شاعری کی درانتی لے کر اس ’فساد‘ کی ’گہری جڑیں‘ کاٹنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ ان بزرگوں میں ہمارے کالموں کے سب سے بزرگ قاری جناب مختار حسین شارقؔ بھی شامل ہیں۔ شارقؔ صاحب فرماتے ہیں:
اپنے  کتوں  کو  سُلاتے  ساتھ  ہیں
اور  ماں  ہے  اولڈ ہاؤس  میں کہیں
ویلنٹائن سے  عقیدت  ہے  انھیں
آج  کل  اُن  کی   توجہ  ہے    یہیں
دھوم سے اس کا   منائیں گے یہ دن
ہوگا   جو  کچھ   وہ   بتا   سکتا   نہیں
ایسے  بدبختوں  کے  اس  تہوار  کو
میڈیا  نے  کر  دیا     ہے  دل نشیں
آ گیا   ہے   دور     کیسا   دیکھ  لیں
لوگ   شارقؔ   کی   نوا   سنتے  نہیں
بھئی سُن تو لی۔ اور کیسے سنیں؟ مزید کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اگلے وقتوں کے ایک اور شاعر مرزا اسد اﷲخان غالبؔ کا حکم ہمیں موصول ہوا ہے کہ:
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
سو ہم اِن ’دادا ابّا‘ کو کچھ نہیں کہتے۔ فقط پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ کے فضائل، مناقب اورکرامتیں ہی بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ تو اے بزرگو! جب تک ہمارے سماج کا نطق پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ کے نام سے رُوشناس نہ تھا… عشاق کے… ’تنِ حروف پہ مفہوم کا لباس نہ تھا‘ … اور تب تک ہماری شاعری بہت کچھ چھپاتی تھی۔ محبوب کے آگے کچھ نہ کہہ پاتی تھی۔ عُشّاقِ عُظّام بس فارغ بیٹھے محبوب کے بجائے اپنا  کفِ افسوس ملتے رہتے تھے کہ: ’’دِل میں کتنے مسودے تھے ولے… ایک پیش اُس کے رُوبرو نہ گیا‘‘… القصہ مختصر:
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بِن جُتی سر بسر تھی
وہ تو کہیے کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ آگئے۔آکر وہ اپنے دستِ مبارک سے نہ جانے کتنے ہل چلوا گئے۔ اور کتنی بِن جُتی زمینیں جُتوا گئے۔ جب تک ہمارے لوگوں نے پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ کانام نہیں سُنا تھا تب تک ٹٹروں ٹوں محض وارث شاہؒ اور بلھے شاہؒ  وغیرھم کے عرس منایا کرتے تھے۔  خواجہ فریدؒ وغیرہ کی کافیاں گایا کرتے تھے ۔ بنیاد پرستی و رجعت پسندی کی حد دیکھیے کہ اِنھی ’غیر ماڈرن‘ پیروں فقیروں پر فخربھی فرمایا کرتے تھے۔ احسان دانش مرحوم ’دیہات کی صبح‘ کا منظرکھینچتے ہوئے اپنی دانش کے مطابق بس اسی کو نہایت پُرکیف عاشقانہ اور رومانی منظر سمجھ کر خوش ہولیا کرتے تھے کہ:
وہ  جنھیں  کچھ  ہیر  کا  قصہ  زبانی  یاد  ہے
اُن  کی  پُر تاثیر  تانوں  سے فضا آباد  ہے
ہمارے محبوب شاعر محترم ناصرؔ زیدی کے نام اُن کے محبوب کی طرف سے اگر… ’کبھی بسے ہوئے خوش بو میں نامے آتے تھے‘… تو وہ بچارے بھی (محبوب کی ٹی شرٹ پر لگے ہوئے پرفیوم یا بازار سے خرید کر اُس کے دیے ہوئے گلاب کے بجائے) اُسی کو سونگھ کر خوش ہوجایا کرتے تھے۔ پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ کی دکھائی ہوئی راہِ عشق کے مقابلے میں ہمارے صوفیوں کا عشق بڑا فرسودہ تھا۔ ’صوفی مومن و اشتراکی مسلم‘ حضرت مولانا حسرتؔ موہانی اپنے مریدوں کو ’باصفا‘ رہنے کی تلقین یوں کیا کرتے تھے:
شیوۂ  عشق  نہیں  حسن  کو  رُسوا کرنا
دیکھنا بھی تو اُنھیں دُور سے دیکھا  کرنا
ویلن ٹائن کارڈ‘ کا تو دوردور تک تصور بھی نہ تھا، پس اگر محبوب کا خط بھی مل جاتا تھا تواُس سے کسی پارک میں جاکر مل لینے کے بجائے بس یہ جواب بھجوا کر رہ جایاکرتے تھے کہ:
پڑھ کے تیرا خط مرے دِل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ    شوق    نے   اِک   حشر   برپا کردیا
پھر سب سے بڑا فرق یہ پیش آیا کہ پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ کے تشریف لانے سے قبل ہماری ساری عشق و عاشقی محبوب کو ’قیدِ شریعت‘ میں لانے تک طویل ہوا کرتی تھی (آج کل تو پوری قوم کو ’قیدِ شریعت‘ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے) اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ:
عاشقی قیدِ شریعت میں جب آجاتی ہے
جلوۂ    کثرتِ    اولاد   دکھا  جاتی ہے
جب کہ پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ کے آنے کے بعد سے عاشقی محبوب کو ’سیتا وھائٹ‘ بنا جاتی ہے۔ اس سے قبل عشاقِ کرام اگر کسی روشن خیال، وسیع المشرب، لبرل اور پروگریسو شاعر کی دُختر سے بھی عشق فرماتے تھے تو اُنھیں اُس سے عقدِ اوّل، ثانی، ثالث یا رابع کرکے تمام عمر محبوب کے نان و نفقہ اور اپنے کیے کرائے کا بوجھ اُٹھانا پڑتا تھا۔ پیر ویلن ٹائن علیہ ما علیہ کے آنے کے بعد سے یہ سہولت حاصل ہوگئی ہے کہ بیٹی اگر کسی دل پھینک شاعر کی بھی ہو توآپ اُسے ’گراں بارِ محبت‘ کرکے روپوش ہوجائیے۔ باقی معاملات عاصمہ جہانگیر سنبھال لیں گی۔

مصنف :           احمد حاطب صدیقی۔(ابو نثر )
حوالہ :             موصول بذریعہ بر قی خط
               
ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]