میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

بھٹو خاندان کا اگلا پلے بوائے شہید !!!


 پی پی پلے بوائے گروپ کے خوبرو جیالے جوان بلاول زرداری نے کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کو مبارکباد کا پیغام دیتے ہوئے جب اس صلیبانہ خواہش کا اظہار کیا  کہ وہ پاکستان میں بھی ایک عیسائی وزیر اعظم دیکھنے کے خواہاں ہیں، تو ایسا گمان ہوا کہ گویا ان میں مصری آمر جنرل عبدالفتاح السیسی اور باراک اوبامہ کی زندہ روحیں حلوت کر چکی ہیں۔
 


والدہ مرحومہ کی برسی پر ان کی تازہ ترین تقریر سن کر یہ پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ اب بہت جلد جیالوں کو نئے ” شہید ” ملنے والے ہیں۔ بلاول کے تازہ ترین بیانات دراصل گذشتہ چند ماہ سے ” خالص سیکولر ” اور اعلانیہ ” صلیبی غلام ” پالیسی اپنانے والے زرداری گروپ کی نئی  صلیبی برانڈ حکمت عملی  ہی  کا  تسلسل  ہے۔  دو ماہ قبل  بھی وہ ایک  ایسی  ہی پرجوش تقریر میں  اپنے کرپشن کنگ سیاسی گروہ  کو شہیدوں اور بہادروں کی جماعت قرار دیتے ہوئے مقتول سلمان تاثیر اور انجہانی شہباز بھٹی کا ذکر کر رہے تھے ۔ تو اس موقع پر جہاں ان کی محبوبہء خصوصی خوش رنگ حنا کا دل دھڑک رہا تھا،  وہاں اہل نظر کو بھی یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ الیکشن میں بری طرح سے پٹے ہوئے جیالوں نے اگلے اقتدار کے حصول کیلئے اب عوام کی بجائے ، صلیبی بادشاہ گروں اور مغربی تہذیب و فکر کے علمبردار سیکولرعناصر کو خوش رکھنے کی پالیسی اختیار کر لی  ہے۔

 بلاول نے کہا  تھا کہ حضرت عیسٰی ؑکے چاہنے والوں کیلیے پارٹی کے لوگوں نے اپنی جانیں تو دے دیں لیکن ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی۔ ایک عرصہ لندن کی گوری میموں کے ساتھ رہ کر شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ جن لوگوں  کے ہجوم سے مخاطب ہیں وہ نبی آخر الزماں محمد ﷺ کے امتی اور چاہنے والے ہیں۔ ان مسلمانوں کے ایمان کا جزء اول عشق مصطفے اور خاصہء دین آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام سچے نبیوں پر ایمان اور ان کی توقیر و تکریم  ہے۔ لندن کے ٹھنڈے گرم شراب خانوں میں سلمان تاثیرکی طرح بروسٹ خنزیر کے لذیذ پکوان کھا کھا کر وہ اپنے گستاخ اسلام صلیبی دوستوں کی زبان تو سیکھ گئے لیکن آج تک یہ نہیں جان پائے کہ آج بھی انگلستان کے آئین و قانون کے مطابق توہینِ مسیح کی سزا عمر قید ہے۔ لیکن گوروں اور ان کے ٹکروں پر پلنے والے سلمان تاثیر برانڈ مسخروں، بال ٹھاکری داسی عاصمہ جہانگر برانڈ این جی اوز کوئینز کو توہین رسالت کی شرعی سزاؤں پر بلاجواز پیٹ میں مڑوڑ اٹھتے ہیں۔ 

بلاول کو یاد رکھنا چاہیے تھا کہ ان کی والدہ  اور ان کے عزیز سلمان تاثیر انہیں صلیبیوں کی بغل بچگی کی قیمت اپنی جانیں دیکر ادا کر چکے ہیں۔ بلاول کو محتاط رہنا چاہئے کہ اس آگ میں کود کر اگر وہ بھی سلمان تاثیر کی طرح خامخواہ میں “شہید” بن گئے تو بھٹو خاندان کے اقتدار کی امیدوں کا چراغ ہمیشہ کیلئے گل ہو جائے گا۔ ایک عاشق ہونے کے ناطے انہیں اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے بعد ان معشوقہء خصوصی خوش رنگ حنا کھر کا کیا ہو گا۔ شاید انہیں بھول گیا ہو لیکن حنا  صاحبہ کی طرف سے انہیں بھیجے گئے عید کارڈ پر لکھی اضطرابی تحریر کے الفاظ ”ہم نے بہت انتظار کر لیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے انتظار کو ختم کریں” مجھے بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ سیاست میں کیریئر بنانے کیلئے سامراجی آشیرباد حاصل کرنے سے لیکر برہمن لابی تک کی ہر خواہش پوری کرنے کیلئے تیار خوش رنگ حنا نے یہ جملہ پاکستان کے مستقبل کے ممکنہ وزیر اعظم بلاول کےقریب تر ہونے کیلئے ہی کہا تھا۔ بلاول صاحب کوضرور یہ خیال رکھنا چاہیے کہ سیاست میں آگے سے آگے بڑھنے کے نظریے پر رواں دواں حنا ربانی کھر آج بھی ملکہ عالیہ بننے کے خواب دیکھ رہی ہوں گی۔


بلاول بھٹو زرداری نے کیا خوب کہا کہ ہے ان کی پارٹی نے گذشتہ انتخابات میں اپنے کارکنوں کی جانیں بچانے کے لیے سو سیٹیں قربان کر دیں۔ جبکہ عیاں حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ سیاست دان ہی اپنے کارکنوں کے جنازوں کی سیڑھیوں پرایوان اقتدار تک پہنچنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ بلاول صاحب یہ بھی بھول گئے  کہ ان کے والد گرامی نے بھی ان کی امی جان کے جنازے کی چارپائی پر چڑھ کرہی ایوان صدر کی دیوار پھلانگی تھی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو بہادروں اور شہیدوں کی پارٹی قرار تو دیا لیکن ماں کی طرح “شہید ” ہونے کے ڈر سے سال کے تین سو ساٹھ دن لندن کی گوری آغوشوں اور کروڑوں ڈالرز کے سیکورٹی پیکج کے خول میں رہنے کی وجہ نہیں بتائی۔

 بلاول صاحب نے سونامی خان کی تحریک انصاف کو”بزدل خان” کی جماعت قراردیکر کہا کہ وہ پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے چرچ کے باہر کھڑے ہو کر دہشت گردوں کے لیے طرح طرح کے بہانے تلاش کر رہا تھا۔ لیکن موت کے ڈر سے لندن کے گرم بستروں اور گوری مٹیاروں کی آغوش میں رہ کر اماں جی کے قتل کا غم  ولائیتی شراب میں غرق کرنے والے بہادر بلاول نے یہ نہیں بتایا کہ لیاری کے جیالے دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہء اجل بننے والوں کے خون کا الزام کس کے سر دھریں گے۔

 بلاول بھٹو نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کے دونوں ماموں کس کے ہاتھوں قتل ہوئے اور ان کے مقدمات رکوانے میں کونسی شخصیت پیش پیش رہی۔ درراصل یہ بات ماں کو کھو کر مسکین ہو جانے والے بلاول بھی جانتے ہیں کہ اپنی والدہ کے قاتلوں کو تختہء دار تک پہنچا کر وہ خود بھی یتیم ہو جائیں گے۔ سو ماں کے خون سے غداری کرنے والے بہادر سپوت  نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اپنی مقتول والدہ کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے اپنی جیالی حکومت کی حسن کارکردگی کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ لیکن یہ ضرور کہا کہ کراچی اب بھی برطانوی کالونی ہے۔ شاید وہ بھول گئے کہ وہ موت کے خوف سے سارا سال جس گوری گود میں رہتے ہیں وہ بھی برطانوی سرزمین ہے اور ان کے محافظ بھی برطانوی گورے ہی  ہیں۔ شرم اور غیرت سے عاری اس بہادر نوجوان کو کوئی صاحب یاد دلا دیں کہ کراچی کو برطانوی کالونی بنانے والے برطانوی اور بھارتی بغل بچے کے ٹارگٹ کلر بھتہ خور اسی کے باپ کے حلیف ہیں۔ انہیں یاد دلایا جائے کہ ان کے باپ کے ہی حلیف ایک برطانوی لے پالک کے ساتھی عشرت العباد جیسے قاتل کو اس کے جیالے بزرگوں نے ہی ایک عرصہ دراز سے گورنر ہاوس سندھ کے تختِ دہر پر بٹھائے رکھا ہے۔

مخصوص سیکولر زبان و انداز میں بلاول نے کہا کہ وہ مذہب کے ٹھیکداروں کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی اپنی پانچ سالہ حکومت میں دہشت گردی کو ختم نہیں کر سکی۔ لیکن ان کی جماعت نے دہشت گردوں کے آگے سر نہیں جھکایا بلکہ سینہ تان کر ان کا مقابلہ کیا۔ اب اس کا تعین قارئین ہی کر سکتے ہیں کہ بہادر بلاول  نے لندن کے پلے بوائے ہاؤس میں کسی گوری معشوقہ کے سامنے سینہ تانا تھا یا اربوں روپے کی مالیت کے قصرِ دبئی کے میکدے میں عربی حور کے سامنے، لیکن لوگ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ  بلاول جیسے ہجڑے میں اتنی جرات نہیں کہ وہ وزیرستان کے کسی دوراہے پر کھڑا ہو کر اپنے ماں کے فرضی قاتلوں سے سرگوشی میں بھی بات کر سکے۔ بلاول جیسے ہزاروں بہادر ہجڑے محمد شاہ رنگیلا کی اس فوج میں بھی موجود تھے۔ جنہوں نے نادر شاہ درانی کے محل میں داخل ہونے پر ” اللہ ان کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں” اور ” اللہ ان کی تلواریں ٹوٹ جائیں” کے بہادرانہ جنگی طریق سے اس کی فوجوں کا مقابلہ کیا تھا۔ 

بلاول بھٹو زرداری اپنی سیاست کا آغاز اپنی والدہ پر حملے کی برسی کے موقع پر کریں یا ان کی نام نہاد شہادت کے موقع پر، ان کی والدہ کا جنازہ ان کے ولد حضور کیش کروا چکے ہیں اور جنازے بار بار کیش نہیں ہوتے۔ اب جبکہ زرداری صاحب نے ان کو پارٹی قیادت بھی سونپ دی ہے تو امید ہے کہ وہ سچ مچ کی بہادری دکھا کر جلد ہی اپنے قریبی عزیز سلمان تاثیر کے پاس پہنچ جانے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ صرف ملکہ ء عالیہ کے خواب دیکھنے والے حنا ربانی کھر ہی نہیں، شرمیلا ٹیگور اوہ سوری شرمیلا فاروقی، ماروی  اور سسی جیسی کئی حسن پریاں ان کی جادوئی آغوش میں آنے کیلئے بے قرار ہیں۔ اگر انہوں نے پاکستان میں رہنے کا حوصلہ کر بھی لیا تو اس ملک کی سیاست کے انداز اور اسلام دوست عوام کے دینی و نظریاتی رحجان کو دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ وہ ان کی ماں بینظیر بھٹو کی شہادت ہو، انکے محبوب عزیز سلمان تاثیر کی ہلاکت ہو یا بشیر بلور جیسے دوسرے سیکولر سیاست دانوں کی ” شہادت” ان سب کا سبب ان کے وہی سلمان تاثیربرانڈ صلیبی نظریات تھے جن کا اعادہ آج وہ بھی کر رہے ہیں۔
 انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ان کے آقا امریکی و مغربی جادوگروں کے جادو کا ہی کمال ہے کہ اس وقت پاکستان میں روشن خیال اور اسلام دوست نظریات کا عیاں ٹکراؤ ہے۔ اس سے ملک میں انارکی اور بیرون سے در آمد دہشت گردی پھیلی ہوئی ہے۔ انہیں دیکھنا چاہیئے کہ مغربی غلام میڈیا اور سیکولر گروپس کی جان توڑ کوششوں کے باوجود ملالہ برانڈ سب ڈرامے فلاپ ہو رہے ہیں۔ صد شکر کہ پے درپے ٹھوکریں کھانے والی خوابیدہ قوم میں اب مذہبی اور قومی غیرت بیدار ہو رہی ہے۔ اب ہماری نئی نسل بھی مغرب اور ہندوآتہ کی اس نظریاتی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے جس کا منجن بیچنے گوری کالی رکھیلوں کے یہ عیاش عاشق صاحب بھی آن ٹپکے ہیں۔
 بلاول صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے پانچ سالہ دور حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے وہ انتہائی ناقص اور قاتل مفلس رہی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرے لگانے والے بہروپیوں سے مفلس عوام کو ریلیف تو نہیں ملا البتہ ان جیالوں کے اندھا دھند لوٹ مار پروگراموں کے باعث مہنگائی ناقبل برداشت حد تک ضروربڑھ گئی ہے۔ قومی اداروں میں لوٹ کھسوٹ سے بیروزگاری میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لوگ زرداری اینڈ کمپنی مافیہ کے ناموں سے سے ہی نفرت کرنے لگے ہیں۔ افسوس کہ بہادر بلاول عدلیہ کو بھی ٹارگٹ کر کے یہ کھلا اشارہ دے رہے تھے آج بھی عدلیہ سے محاذ آرائی جیالوں کی اولین ترجیح ہے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ عدلیہ کیخلاف زبان چلا کر اسے نشانہ بنایا گیا تو یہ جمہوریت کی نہیں سیاسی غنڈہ گردی کی خدمت نہ ہوگی۔ کچھ مبصرین نے درست کہا ہے کہ مستقبل میں بلاول کا جو بھی سیاسی کردار ہو لیکن پی پی کی پانچ سالہ ناقص ترین کارکردگی سے عوام اتنی متنفر ہو چکی ہے کہ اب بہادر بلاول کو سیاسی میدان میں لانے سے پی پی کو مدد ملنے کا چانس کم ہی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ حنا ربانی کھر کو ابھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ ابھی بھی زرداری مافیہ کے پاس پھر سے اقتدار حاصل کرنے کا ایک طریقہ ضرور بچا ہے۔ وہ یہ کہ بینظیر کی طرح اب بہادر بلاول زرداری بھٹو کو ” سیاسی شہید” بنا کر آصفہ زرداری بھٹو کو وزیر اعظم پاکستان بنوایا جائے۔ اور پھر سے وہی پرانا کھیل شروع ہو جائے جو جیالوں کے ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے یعنی ” جئے بھٹو، رج کے لٹو”۔

لیکن ذرا سوچیے کہ پھر بلاول بھٹو زرداری کی خوش رنگ حنا کا کیا ہو گا۔ جی ہاں وہی جو پاکستانی سیاست دانوں کے اس پراگندا معاشرے کا خوش رنگ حسن ہے۔ کہ نہ تو یہاں اقتدار کی دوڑ میں شریک سیاسی گھرانوں میں بلاول سے بڑھ کر خوبرو اور وجیہہ القامت مردوں کی کمی ہے اور نہ ہی سیاسی وابستگیاں بدلنے کے حوالے سے کسی سیاسی مرد و زن میں کوئی غیرت باقی ہے۔ بلاول کے بعد اگلا قرعہء عشق حمزہ شہباز شریف یا حتی کہ مردانہ وجاہت کے شاہکار خوبرو حضرت سونامی عمران خان صاحب کے نام بھی تو نکل سکتا ہے ۔


مصنف :           فاروق درویش ۔
حوالہ:             http://farooqdarwaish.com/blog/?p=5041

ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]