میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

”انکار“سے ”انقلاب “تک!!!

دسمبر ۱۹۵۵ء؁کی ایک سرد شام کو دِن بھر کی پُر مشقت اور تھکا دینے والے سلائی کڑھائی کے کام سے فراغت پا کر روزا پارکس نامی ایک سیاہ فام عورت، اپنےدستی تھیلے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹائے اور اُس سے گرمی کا احساس پاتے ہوئے سڑک پر جا رہی تھی۔
دائیں بائیں دیکھ کر احتیاط سے سڑک عبور کر تے ہوئے وہ اُس بس اسٹاپ پر جا کر کھڑی ہوگئی جہاں سے اُس کے گھر کی طرف جانے والی بس کو گزرنا تھا۔تقریبا دس منٹ تک بس کا انتظار کرتے ہوئے روزا پارکس کے ذہن میں وہ افسوس ناک غیر انسانی مناظر گھوم گئے جو اُن دنوں امریکہ میں عام دیکھنے کو ملتے تھے، اور وہ تھے کسی بھی سیاہ فام کو اُس کی نشست سے اُٹھا دینا تاکہ وہاں پر ایک سفید فام بیٹھ سکے۔
یہ رویہ بھائی چارے کے جذبات یا مہذب معاشرے کی نفی تو کہاں محسوس ہوتا، اُلٹا امریکی قانون سیاہ فاموں کو اِس بات سے سختی سے منع کرتا تھا کہ وہ کسی سفید فام کے کھڑے ہونے کی صورت میں قطعی نہیں بیٹھ سکتے۔
معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں تھا، اگر کوئی سیاہ فام بزرگ عورت کسی نوجوان سفید فام کے کھڑے ہونے کی صورت میں بیٹھی پائی جاتی تو اُس بزرگ اور بوڑھی عورت پر جُرمانہ کیا جاتا تھا۔
جی ہاں، یہ اُسی زمانے کی بات ہے جب دُکانوں یا کھانے کے ریستورانوں کے دروازوں پر فخر سے ایسی تختی لٹکائی جاتی تھی جِس پر لکھا ہوتا کہ ”یہاں بِلیوں، کتوں اور سیاہ فاموں کا داخلہ منع ہے۔“
نسل پرستی پر مبنی یہ رویئے روزا پارکس کو غمگین اور افسُردہ کیے رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ یہی سوچتی رہتی کہ کب تک ہم سیاہ فاموں کے ساتھ یہ امتیازی اور کمتر سلوک جاری رہے گا؟ کب تک سیاہ فاموں کو تو قطاروں کے آخر میں رکھا جائے گا مگر سفید فاموں کے جانوروں کو بھی برابری کے حقوق دیئے جائیں گے؟ اِنہی سوچوں میں گُم روزا پارکس اپنے سینے میں درد چُھپائے بس کے آنے پر اُس میں سوار ہو گئی۔
بس میں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے روزا کو ایک خالی نشست نظر آگئ، بس کے انتظار میں کھڑے شل ہوئی ٹانگوں کے ساتھ وہ نشست پر بیٹھ گئی، دستی تھیلے کو اُس نے مزید بھیچتے ہوئے سینے سے لگا لیا۔ اپنی سوچوں میں گُم وہ سڑک کو دیکھنے لگ گئی جسے بس گویا کھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف دوڑ رہی تھی۔کُچھ ہی دیر بعد اگلا سٹاپ آ گیا جہاں سے بس میں مزید لوگ سوار ہو ئے اور بس بھر گئی۔
بس میں سوار ہونے والا ایک نوجوان سفید فام آہستگی سے اُس کرسی کی طرف بڑھا جہاں روزا پارکس بیٹھی ہوئی تھی۔ سفید فام اِس انتظار میں تھا کہ روزا اُس کے لیے نشست چھوڑے گی مگر آج معاملہ اُلٹا ہو گیا تھا، روزا نے سفید فام کو اُچٹی سی نگاہ سے دیکھا تو سہی مگر اُس کے لیے  نشست خالی نہ کی اور ایک بار پھر اپنی نظریں باہر کی طرف سڑک پر ٹِکا دیں۔ سفید فام کے چہرے پر توہین کا احساس نمایاں تھا۔
یکا یک بس میں سوار ہر مسافر کا رویہ معاندانہ ہو گیا، لوگ طنز سے بھی بڑھ کر روزا کو گالی گلوچ تک کرنے پر اُتر آئے تھے اور اُسے فورا اُس سفید فام کے لیے نشست خالی کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔لیکن روزا اپنے موقف پر قائم خاموشی سے اپنی نشست پر براجمان تھی۔ بس کا ڈرائیور ایک سیاہ فام عورت کی اِس قانون شکنی کی جراءت اور سفید فام کی توہین پر یوں خاموش نہیں رہ سکتا تھا، اُس نے بس کا رُخ پولیس اسٹیشن کی طرف موڑ دیا تاکہ پولیس اِس سیاہ فام عورت کو ایک معزز سفیدفام کی توہین کرنے کی جراءت کا مزا چکھا سکے۔
حقیقت میں ایسا ہی ہوا، پولیس نے روزا پارکس کوگرفتار کر کے تحقیق کی اور بعد میں اُس کا جرم ثابت ہونے پر اُسے 15 ڈالر جرمانے کی سزا سُنائی گئی، تاکہ اُس کی سزا دوسروں کے لیے  ایک مثال بن جائے اور آئندہ کوئی ایسی جراءت نہ کرے۔
بات تو چھوٹی سی تھی مگر امریکا کی سر زمین پر ایک چنگاری بن کر گری۔ مُلک بھر میں بسنے والے تمام سیاہ فام روزا پارکس کے ساتھ پیش آنے والے اِس ناروا سلوک پر آگ بگولہ ہو گئے اور ایک تحریک چل پڑی کہ وہ نقل و حمل کے تمام وسائل کے خلاف اُس وقت تک احتجاج کے طور پر بائیکاٹ کریں گے جب تک امریکی حکومت اُن کو تمام تر انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتی اور اُن کے ساتھ مہذب معاملے کا وعدہ نہیں کر لیا جاتا۔
یہ بائیکاٹ اپنی تمام تر ثابت قدمی کے ساتھ ایک طویل عرصے تک چلا، سیاہ فاموں نے ۳۸۱ دنوں تک احتجاج کیا اور امریکی حکومت کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔





روزا پارکس کی فتح ہوئی اور عدالت نے مُلک میں نہ صرف نسلی امتیاز کے اِس قانون کو بلکہ اِس جیسے کئی امتیازی رواجوں کو فوری طور پر ختم کردیا۔
 اِس واقعہ کے ۴۶ برس بعد مؤرخہ ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء؁ کو، امریکی تاریخ میں پیش آنے والے اِس تاریخی واقعے کی یاد ایک بار پھر اُس وقت تازہ ہو گئی جب مِیشی گن کے شہر ڈیئر بورن میں واقع ہنری فورڈ عجائب گھر کے منیجر اسٹیو ہامپ نے اُس پرانی بس کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔
جی ہاں 1940ء؁ ماڈل کی یہ بس جس میں روزا پارکس کے ساتھ وہ سانحہ پیش آیا تھا، ایسا سانحہ جس نے امریکا میں انسانی حقوق کی تحریک کو جنم دیا اور پھر سیاہ فاموں کو بھی برابر کے حقوق حاصل ہو گئے۔
 یہ پرانی بس چار لاکھ بیانوے ہزار ڈالر میں خرید کی گئی۔
۱۹۹۴ء؁میں جب روزا پارکس کی عمر ۸۰ سال تھی, اُس پر لکھی گئی ایک کتاب بعنوان ”خاموش طاقت “میں وہ اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ :”اُس دن مجھے اپنے ماں باپ اور اجداد بہت یاد آئے تھے، اُس دن میں نے خدا کے حضور گڑگڑا کر التجاء کی تھی کہ یا رب تو ہی ہے جو کمزوروں کو طاقت سے نواز سکتا ہے۔“


 پھر ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۵ء؁کو 92 سال کی عمر میں وفات پانے والی اِس بہادر خاتون کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے  ہزاروں سوگوار جمع ہوئے۔
وہ با ہمت اور بہادر خاتون، جِس نے انسانی حقوق کی برابری کے لیے  علم بُلند کیا تھا۔
 روزا پارکس کے جنازے میں کئی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی اور ہزاروں لوگ ڈھاریں مار مار کر رو رہے تھے، امریکا کا جھنڈا سر نگوں ہو کر اِس عظیم خاتون کو سلامِ عقیدت پیش کر رہا تھا۔روزا پارکس کی میت کو وفات سے دفنانے تک امریکی کانگریس کی ایک عمارت میں رکھا گیا، تعظیم کا یہ اعزاز سربراہانِ مملکت یا اہم ترین شخصیات کو دیا جاتا ہے۔
۱۸۵۲ء؁سے لے کر آج تک صرف 30ایسے لوگ گُزرے ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہوا جب کہ اِن تمام 30 اشخاص میں سے روزا پارکس واحد خاتون ہیں۔
روزا پارکس اِس دنیا سے رُخصت ہوئیں تو اپنے سینے پر کئی تمغے سجائے ہوئے تھیں، 1996ء؁ میں اُنہیں آزادی کے صدارتی تمغہ سے نوازا گیا جب کہ1999ء؁ میں اُنہیں کانگریس سے گولڈ میڈل عطا کیا گیا۔



روزا کے لیے  اِن سب اعزازات سے بڑھ کر اُن کا اپنا ایک لفظ تھا اور وہ تھا”””نہیں“““، یہ نہیں امریکا کی تاریخ کا سب سے طاقتور انکار تھا جِس کی ہاں میں ہاں مِلانے میں اُس کی تمام سیاہ فام نسل نے ساتھ دیا تھا۔

روزا پارکس کی مکمل حالات زندگی وکیپیڈیا میں یہاں سے دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
مضمون نگار :  محمد سلیم ملتانی ۔(عرف حاجی صاحب)
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]