ملک کے دوسرے حصوں سے روزگار کی تلاش میں
” کراچی “آنے والوں کا” آہ و گریہ“
” کراچی “آنے والوں کا” آہ و گریہ“
ماں تمہیں تو یادہو گا کہ آج میرا جنم دن ہے
تیرا بیٹا تیرا شیر آج پندرہ برس کاہو گیا ہے
اور تجھ سے بچھڑے پورے دو برس بیت گئےہے
سوچتا ہوں توں کیسی دِکھتی ہو گی
سفید بالوں میں بھی کتنی جچتی ہو گی
صدرہ ،ثمرہ اور بابا سے یونہی الجھتی ہو گی
توں بھی مجھے اپنے من کے دیئے میں دیکھتی توہو گی
دیکھ کے مجھے قد میں بڑا پھر اشکبار توں ہوگئی ہو گی
تمہیں یاد ہے نا ماں !!!توتو جانتی ہو گی
جب تم نے تیرہ برس کے بچے کو گھر کا بڑا کہا تھا
اور بابا کی جگہ اُسے ہی محاذِ جنگ پر بھیج دیا تھا
جب میں تڑپ تڑپ کر رو دیا تھا
اور تم نے خالی باورچی خانہ دکھا دیا تھا
پھر بے قراری سے بازوؤں میں چھپا لیا تھا
مجھے اب بھی یاد ہے جو تو نے کہا تھا
یہ روٹی اور بھوک کی جنگ ہے بیٹا
عزت اور چاردیواری کی جنگ ہے بیٹا
بے گور لاشوں اور کفن کی جنگ ہے بیٹا
جو غیروں نے سازش بوئی تھی ہمارے گھر
اب وہی فصل کاٹنے کی جنگ ہے بیٹا
ماں مجھے یوں لگا تھا
جیسے تیرا آنچل بادلوں کے ساتھ ہی آگیا تھا
عمر بھر کے لیے دعاؤں کا سائبان ہو گیا تھا
اب بھی اکثر تم مجھ سے باتیں کرتی ہو
مجھے میرا منصب کام یاد دلاتی ہو
اور کہتی ہو میرے شہزادے
ہماری زمین پر شاعراور موسیقار مر رہےہیں
امن کے پیامبر، فلاسفر اور قلمکار مر رہے ہیں
جانتی ہوں تجھے ڈاکٹر انجینئر کچھ تو بننا ہے
پر جہاں نہ ہو امن وہاں کیا کسی نے بننا ہے
جا میرے بچے اور بچالے جو بچا سکے کچھ تو
اور ماں میں چلا تو آیا تھا سب کچھ چھوڑ کے
پر جی اب کرتا ہے لگ جاؤں گلے تیرے دوڑ کے
اور بھی ہے یہاں مجھ جیسے غریب الوطن
ذات پات کے سب اچھے پر نہیں قبائے تن
ماں یاد تجھے میں دن رات کرتا ہوں
اب تو خواب میں اکثر ڈر جاتا ہوں
کیسے بتاؤں تمہیں بارود کی بو میں دم میرا گھٹتا ہے
توہی بتا لاشوں کے ساتھ کوئی کیسے رہ سکتا ہے
طوقِ غلامی کوئی کب تک پہن سکتا ہے
سکوتِ جبر کوئی کب تک روک سکتا ہے
میری ماں !!! میری اچھی ماں!!!
آج میرا کہا کر دو
میرے جنم دن پر مجھے ایک تحفہ دے دو
مجھ کو میری عمر اور میرے خواب دے دو
تیرا بیٹا تیرا شیر آج پندرہ برس کاہو گیا ہے
اور تجھ سے بچھڑے پورے دو برس بیت گئےہے
سوچتا ہوں توں کیسی دِکھتی ہو گی
سفید بالوں میں بھی کتنی جچتی ہو گی
صدرہ ،ثمرہ اور بابا سے یونہی الجھتی ہو گی
توں بھی مجھے اپنے من کے دیئے میں دیکھتی توہو گی
دیکھ کے مجھے قد میں بڑا پھر اشکبار توں ہوگئی ہو گی
تمہیں یاد ہے نا ماں !!!توتو جانتی ہو گی
جب تم نے تیرہ برس کے بچے کو گھر کا بڑا کہا تھا
اور بابا کی جگہ اُسے ہی محاذِ جنگ پر بھیج دیا تھا
جب میں تڑپ تڑپ کر رو دیا تھا
اور تم نے خالی باورچی خانہ دکھا دیا تھا
پھر بے قراری سے بازوؤں میں چھپا لیا تھا
مجھے اب بھی یاد ہے جو تو نے کہا تھا
یہ روٹی اور بھوک کی جنگ ہے بیٹا
عزت اور چاردیواری کی جنگ ہے بیٹا
بے گور لاشوں اور کفن کی جنگ ہے بیٹا
جو غیروں نے سازش بوئی تھی ہمارے گھر
اب وہی فصل کاٹنے کی جنگ ہے بیٹا
ماں مجھے یوں لگا تھا
جیسے تیرا آنچل بادلوں کے ساتھ ہی آگیا تھا
عمر بھر کے لیے دعاؤں کا سائبان ہو گیا تھا
اب بھی اکثر تم مجھ سے باتیں کرتی ہو
مجھے میرا منصب کام یاد دلاتی ہو
اور کہتی ہو میرے شہزادے
ہماری زمین پر شاعراور موسیقار مر رہےہیں
امن کے پیامبر، فلاسفر اور قلمکار مر رہے ہیں
جانتی ہوں تجھے ڈاکٹر انجینئر کچھ تو بننا ہے
پر جہاں نہ ہو امن وہاں کیا کسی نے بننا ہے
جا میرے بچے اور بچالے جو بچا سکے کچھ تو
اور ماں میں چلا تو آیا تھا سب کچھ چھوڑ کے
پر جی اب کرتا ہے لگ جاؤں گلے تیرے دوڑ کے
اور بھی ہے یہاں مجھ جیسے غریب الوطن
ذات پات کے سب اچھے پر نہیں قبائے تن
ماں یاد تجھے میں دن رات کرتا ہوں
اب تو خواب میں اکثر ڈر جاتا ہوں
کیسے بتاؤں تمہیں بارود کی بو میں دم میرا گھٹتا ہے
توہی بتا لاشوں کے ساتھ کوئی کیسے رہ سکتا ہے
طوقِ غلامی کوئی کب تک پہن سکتا ہے
سکوتِ جبر کوئی کب تک روک سکتا ہے
میری ماں !!! میری اچھی ماں!!!
آج میرا کہا کر دو
میرے جنم دن پر مجھے ایک تحفہ دے دو
مجھ کو میری عمر اور میرے خواب دے دو
شاعر : نامعلوم۔
مجموعہ کلام : نامعلوم۔
انتخاب /ترتیب: ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)