24 مئی کو شائع ہونے والے فتوے میں سعودی عرب کے مفتی عام اور سعودی ہیئت العلماء کے سربراہ مفتی عبدالعزیز بن عبد اللہ آل الشیخ نے زور دیا تھا کہ : ”انسان صرف اسی وقت سجدہ کرسکتا ہے جب اس کو اللہ کی کوئی نعمت نصیب ہو جب کہ میرے خیال میں فٹ بال اور فٹ بال کی کامیابیوں میں کسی قسم کا کوئی فائدہ و منفعت نہیں ہے... جوشخص خدا کو یاد کرنا چاہتا ہے بہتر ہے کہ اپنے وجود کے اندر ہی خدا کو یاد کرے اور اندرونی ذکر و یاد اس قسم کی حرکتوں سے زیادہ بہتر ہے۔“
کھیلوں کی دنیا میں بھی کچھ عرصے سے دینی جذبات کا اظہار رسم بنتی چلی آرہی ہے اور مسلمان کھلاڑیوں کے اس اقدام کی تبلیغی اثرات بھی بڑے نمایاں ہیں۔ ان ہی علامتی حرکات میں سے ایک «”سجدہ شکر“» ہے اور جیتنے والے کھلاڑی عموماً سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔ سعودی فٹ بالروں نے بھی گول کرنے اور ساتھ ہی کھیل ختم ہوجانے پر فائنل راؤنڈ میں اپنی کامیابی پر سجدہ شکر بجا لایا اور اس کو خدا کی بارگاہ میں شکرگزاری کی علامت قرار دیا۔ان کھلاڑیوں میں ایک الوحدہ ٹیم کا کیپٹن «علاء کویکبی» خاص طور پر قابل ذکر ہے جو سعودی قومی فٹ بال ٹیم کا کھلاڑی بھی ہے۔قطع نظر اس کے کہ مذہبی شخصیات کی طرف سے اس کی ممانعت شایع ہو چکی تھیں ۔
کویکبی نے اسلام آن لائن ویب سائٹ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے اور اپنی ٹیم کے ارکان کے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ”فٹ بال گراؤنڈ کے بیچ سجدہ شکر خوشی کا بہترین اظہار اور دنیا والوں کو ایک اہم پیغام دینے سے عبارت، عبادت اور قرب خداوندی کا پیغام۔ بہتر یہی ہے کہ مسلمان کھلاڑی کامیابی کے وقت شکر کا سجدہ بجالائیں نہ یہ کہ دوسری فٹ بالروں کی طرح ناچنا شروع کریں یا مغربی فٹ بالروں کی تقلید کریں۔ سجدہ ایک اسلامی عمل ہے جب کہ مغربی فٹ بالروں کی حرکتوں کی تقلید شریعت اسلامی کے خلاف اور ان سے شباہت پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارا یہ عمل درحقیقت خدا کی طرف دعوت دینا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کھیل کا نظارہ کرنے والے افراد میں سے ایک دو افراد''جو خدا سے دور ہوگئے ہیں – خدا کی جانب لوٹ آئیں''۔“
علاء کا کہنا ہے : ”2006 عالمی فٹ بال کپ کے لئے جرمنی میں کھیلے جانے والے فٹ بال میچ میں میں نے بھی اور میرے دوسرے دوستوں نے بھی ایک گول کرنے کے بعد سجدہ شکر بجالایا اور اس میچ کے بعد ایک یورپی خاتون نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس عالمی کپ کا بہترین اور حسین ترین واقعہ سعودی کھلاڑیوں کا سجدہ شکر تھا اور میری آرزو تھی کہ یہ ٹیم عالمی کپ جیت جائے۔“
كويكبي نےناقدین کے اعتراضات پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ”حالیہ زمانے میں کھلاڑی کھیل کے میدان میں مختلف قسم کی حرکتیں کرکے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ان اعمال میں سے بعض اعمال ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہیں مگر کوئی بھی ان اعمال پر اعتراض نہیں کرتا اور ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاتا؛ لیکن نجانے سعودی کھلاڑی جو سجدہ شکر کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اتنے سارے اعتراضات و تنقیدات کا سامنا کیوں کررہے ہیں!؟۔“
”الاہلی“ فٹ بال ٹیم کا گول کیپر ”منصور النجعي“بھی ”علاء کویکبی“ کی رائے سے متفق ہے اور کہتا ہے کہ: ”سجدہ شكر کھیل کے میدان میں خوشی کا بہترين اظہار ہے اور ان دیگر اعمال سے برتر و بالاتر ہے جو نوجوان تماشائیوں اور بچوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔“
النجعي نے کہا:”جب کوئی فٹ بالر گول کرتا ہے اور انعام کا مستحق قرار پاتا ہے کیا اس کو خدا کی جانب سے نعمت نہیں ملی ہے؟ کیا اسے اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرنا چاہئے؟ کیا شکر کا اس سے بہتر اظہار ہوسکتا ہے کہ انسان بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوجائے؟۔“
ہم ان تمام اخباری بیانات اور ویب انٹروویو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
خوشی کا اظہار فطری عمل ہے اس سے مذہب کا تعلق صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ خوشی کے اظہار میں حدود اللہ و رسول اور حدود احکام شریعت کے منافی کوئی کام نہ ہو ۔اگر ایسا کوئی کام جو بالواسطہ یا بلاواسطہ بنیادی احکام شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو تو ایسے کام کی انجام دہی میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
خوشی کے اظہار میں سجدہ شکر ایک بہترین اور مستحسن عمل ہے ۔اسے متنازعہ بنانے سے گریز کر نا چاہیے ۔ میرے خیال میں کم از کم یہ عمل لہو و لعب کے ضمن میں نہیں آتا کہ اس کو ناجائز قرار دیا جائے ۔میں اس معاملے میں کھلاڑیوں کا ساتھ دوں گا کہ ان کا نظریہ درست ہے اور یہ جاری رہنا چاہیے اور دوسرے فریق سے میری گزارش ہے کہ کھیل کے معاملے میں نرم رویہ بعض حالات میں نوجوانوں کو مزید دین سے قریب کر سکتا ہے ۔اس میں سخت رویہ نوجوانوں کو باغی اور دین سے دور کر سکتا ہے ۔ہمیں دلوں میں قربت پیدا کرنی چاہیے نہ کہ دوریا ں ، جو کہ زہر قاتل ہے ۔
نوٹ :
اس مضمون کے ابتدائی حصے اس ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں ۔اس ویب پر اس تنازعہ کو اور متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے ۔
اس لیے تحریر کے ترتیب کے دوران اس تحریر سے تنازعہ کو متنازعہ بنانے والے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں ۔
دور حاضر میں اسلامی احکامات کو خود مسلمانوں کی طرف سے متنازعہ بنا نا غیر ذمہ دارانہ فعل ہے جس کی فی الحال کو ئی گنجائش نہیں ہے ۔
مضمون نگار : ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)