میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

محترمہ کال ’’المعروف مس کال‘‘


آج کا دور ”مس یونیورس“، ”مس ورلڈ“ کے علاوہ ”مس کال“ کا بھی ہے۔ ”مس ورلڈ“ اور ”مس یونیورس“ تو ہر کسی کو نہیں مل سکتیں، لیکن مس کال ہر کسی کے حصے میں آسکتی ہے۔ بلکہ وہ وقت بے وقت آبھی رہی ہے۔ مس کال اگرکسی ”مس“ کی جانب سے ہو تو باچھیں کھِل جاتی ہیں، اور اگر اپنی مسز“ کی جانب سے ہو تو منہ لٹک جاتا ہے، تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں۔ ”مس کال“ صرف وہی لوگ نہیں دیتے جن کے ہاں روپیہ پیسہ کا ”کال“ ہوتا ہے، بلکہ وہ مالامال حضرات بھی دیتے ہیں، جن کا بینک بیلنس تو بہت ہوتا ہے، لیکن
موبائل میں بیلنس نہیں ہوتا۔ موبائل رکھنے اور موبائل کو بیلنس فری رکھنے اور مس کال کرنے کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مس کال کرنے والا خاموشی سے یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ آپ کو بڑی بے چینی سے ”مسکررہا ہے، جسے بیان کرنے کے لیے اس کے پاس الفاظ بھی ہیں اور منہ میں زبان بھی ہے مگر بیلنس ختم ہوچکا ہے۔

بعض حضرات ”مس کال“ کو کسی ”مسکی کال سمجھ کر کال کے مس ہوجانے پر دل مسوس کر رہ جاتے ہیں اور دل کی دھڑکنیں ”مس“ ہونے لگتی ہیں۔ لفظ ”مس کال“ روزمرہ بن کر ہماری عام بول چال میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ گرلز کالج کے راستے میں کھڑے ایک لڑکے نے دوسرے سے کہا: ”وہ دیکھ تیری کال آرہی ہے!“ یہ سن کر اس لڑکے نے کہا: ”بے وقوف وہ مس کال ہے، میری کال تو اس کے پیچھے آرہی ہے!“ ایک مریض ڈاکٹر سے اپنی کیفیت کچھ اس طرح بیان کررہا تھا: ”ڈاکٹر صاحب! آج صبح سے ”اَن لمیٹڈ فری آٹ گوئنگ“ جاری ہے اور میں نئی نئی ”رنگ ٹونز“ سن رہا ہوں، اب جب کہ میرے پیٹ میں کوئی بیلنس نہیں ہے، پھر بھی ستم یہ ہے کہ بار بار میرا پیٹ ”مس کالدے رہا ہے!“ ایک فقیر نے خاتونِ خانہ سے کہا: ”میں کئی دن کا بھوکا ہوں، اللہ کے واسطے کچھ کھانے کو دے دو!“ خاتون نے کہا: ”بعد میں آنا! ابھی کچھ پکا نہیں ہے“۔ فقیر برجستہ بولا: ”جب کھانا پک جائے تو ”مس کال“ دے دیجیے گا!“

چوہدری ممتاز علی اور چوہدری امتیاز علی نے جب نیا نیا موبائل خریدا تو کافی دنوں تک موبائل کا استعمال ان کی سمجھ میں آیا اور نہ ان کے احکامات موبائل کی سمجھ میں آئے۔ تنگ آکر دونوں بھائیوں نے موبائل پر تین حرف بھیجے اور قدیم طریقہ پیغام رسانی اختیار کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد، انہوں نے چوک کبوتراں سے ایک عمدہ نسل کا خاندانی پیغام رساں کبوتر خریدا۔ کبوتر بڑی مہارت اور ذمہ داری سے دونوں چوہدریوں کا پیغام ایک دوسرے کو پہنچانے لگا۔ ایک دن بِنا کسی پیغام کے کبوتر چوہدری امتیاز علی کے ہاں پہنچ گیا، تو انہوں نے چوہدری ممتاز علی سے شکایت کی کہ کبوتر پہنچ گیا، لیکن اس کے پیر میں کوئی پیغام نہیں تھا۔ یہ سن کر امتیاز علی نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا: بے وقوف یہ ”مس کال“ تھی۔
جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ”مس کال“ کنجوس سے زیادہ عاشق و معشوق ایک دوسرے کو دیا کرتے ہیں، پیار کرنے والوں کی متفقہ رائے ہے کہ: ”مس کال ایک مستی ہی، یہ ایس ایم ایس سے سستی ہی، نیند کو بھگاتی ہے اور آپ کو ہماری یاد دلاتی ہے!“ جو عاشق صرف مس کال کے ذریعے عشق فرماتے ہیں ان کے دل سے ایک ہوک کے ساتھ کچھ اس طرح کے الفاظ خارج ہوتے ہیں: ”کاش! دل کی یہ تمنا پوری ہوجائی آپ مس کال کریں اور ریسیو ہوجائی سب بھول کر گھنٹوں کریں باتیں ہوش میں تب آئیں جب بیلنس ختم ہوجائے!“ سنا ہی، کچھ خواتین و حضرات اس طرح کے ایس ایم ایس دے کر اپنی خفگی مٹانے کی کوشش کرتے ہیں: ”فون نہیں تو نہ سہی، ایک مس کال ہی کیجیے“۔ بعض حضرات مس کال دینے کا شوق رکھتے ہیں تو بعض یدِطولیٰ! وہ مس کال کے ذریعے اپنے دوست احباب کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ہمارے ایک دوست سعادت یار خاں جنہیں ہم سب سدو خاں کے نام سے بلاتے ہیں، نے جب نیا نیا موبائل خریدا تھا اور ابھی انہوں نے اپنے دوست احباب کے نام اور موبائل نمبر داخلِ رجسٹر نہیںکیے تھی، تب ہمیں ایک شرارت سوجھی، ہم وقت بے وقت انہیں مس کال کرنے لگے۔ جب وہ ہماری مس کال کے جواب میں کال کرتے تو ہم کال ریسیو تو کرتی، لیکن کوئی جواب نہ دیتی، ایسے چپ رہتے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہماری جانب سے مکمل خاموشی پر سدّو خاں جھنجھلا جاتے اور جھلاّ کر فون ہی بند کردیتے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم چوری چھپے سدّو خاں کو اس وقت بھی ”مس کال“ کرنے لگے جب وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔ ہماری مس کال دیکھتے ہی ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا۔ ایک دن پھٹ پڑی: ”پتا نہیں کون کم بخت ہے، مس کال پر مس کال کیے جارہا ہے، جینا حرام کررکھا ہی، کسی طرح جان نہیں چھوڑتا“۔ ”جان فرشتے چھوڑ بھی دیں مس کال نہ پیچھا چھوڑے گی۔ ارے بے وقوف! یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ یہ مس کال کرنے والی کوئی ”مس“ ہو اور شرم و حیا کے مارے کچھ کہہ نہیں پاتی!“ ہم نے جال پھینکا۔ وہ حیرت زدہ ہوکر بولے ”سچ!“ ”بالکل سچ!“ ہم نے یقین دلاتے ہوئے کہا۔ ”آج کل عشق کی ابتدا مس کال کے ذریعے ہی ہورہی ہے۔سدّو خاں ہمارے پھینکے ہوئے جال میں پھنس گئے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ انہیں ”مس کال“ کرنے والی کوئی مس ہی ہے۔ چنانچہ وہ ہماری مس کال کا انتظار کیے بغیر دن رات ہمیں کال کرنے لگے۔ ہم ان کا فون ریسیو نہیں کرتے تو وہ تڑپ اٹھتے اور جوش میں آکر، ایس ایم ایس کرتے چلے جاتے۔ ہمارے لیے ان کے کچھ پیار بھرے ایس ایم ایس آپ کی دلچسپی کے لیے پیش کیے جارہے ہیں: ”ہوسکتا ہے جب میں مس کال دوں تو تم شرماؤ، مسکراؤ، لیکن جب تم مجھے مس کال دیتی ہو تو مارے خوشی کے موبائل چوم لیتا ہوں“۔ ”جانِ من! میں اور تم، تم اور میں، یعنی ہم دونوں، آج رات بھر ایک دوسرے کو مس کال دیں گی!“ جب جب تمہاری مس کال آتی ہی میری جان جاتی ہے اور آتی ہی ”اپنی صورت کا کبھی تو دیدار دی، تڑپ رہا ہوں اب اور نہ انتظار دی، اپنی آواز نہیں سنانی تو مت سنا، ظالم ایک ایس ایم ایس ہی مار دے“۔
(بشکریہ :شجاع الدین غوری)