میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

وہ مردِ درویش !!!


 جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی وفات نائب امیر پروفیسر غفور احمد کے انتقال کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ سال 2012ء کے آخری ہفتے میں پروفیسر غفور احمد اور سال 2013ء کے پہلے ہفتے میں قاضی حسین احمد جیسے جماعت اسلامی کے دو بڑے لیڈر دنیا سے رخصت ہونے سے نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ ملک بہت بڑے محب وطن، دیانتدار، باکردار، سچے سیاستدانوں سے محروم ہوگیا ہے۔
آج کے نفسانفسی کے دور میں جب اکثر وبیشتر سیاست دانوں پر کرپشن اور دوسرے اخلاقی الزامات عاید کیے جاتے ہیں۔قاضی حسین احمد بلاشبہ ایک صاف ستھرے باکردار سیاستدان تھے جن سے سیاسی اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی ذات کے حوالے سے کسی نے بھی ان پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی جو آج کے ملکی سیاسی ماحول میں بلاشبہ ایک قابل ذکر بات ہے۔



ان کی جہاد افغانستان، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی، اسلامی تحریکوں سے رابطہ اور پاکستانی سیاست کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ قاضی حسین احمد کی وفات سے سیاست میں شرافت کی آخری علامت رخصت ہوئی ہے۔ ان کی سیاست نفرت سے پاک تھی اور سیاسی نظریات کو انہوں نے کبھی ذاتی تعلقات پر حاوی نہ ہونے دیا۔ وہ جماعت کے اندر اور باہر کتنی ہر دلعزیز شخصیت تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی وفات کی خبر دنیا بھر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں نے ان کی وفات پر دلی طور پر گہرے صدمے کا اظہار کیا اور قاضی حسین احمد کے جنازے میں ہر مکتبہ فکر اور ہر قسم کا سیاسی نظریہ رکھنے والی سیاسی قیادت اور عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جماعت اسلامی کے پاس نظریاتی قیادت موجود ہے لیکن سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے جماعت اسلامی کو کسی نئے قاضی حسین احمد کی ضرورت ہوگی۔

قاضی حسین احمد جہاد افغانستان کے بالکل ابتدائی مراحل میں مجاہدین کے لیڈروں کے ساتھ ذاتی روابط رکھتے تھے اور تمام اہل مراحل پر ان کے ساتھ مشوروں میں شریک رہے تھے۔ ہجرت اور جہاد کی تمام ضروریات اور اس کے تقاضے ادا کرنے کے لیے انہوں نے کشمیری مجاہدین، مجاہدین افغانستان اور جماعت اسلامی کے درمیان رابطے کے اہم فرائض انجام دیے۔ ان کی اس حیثیت کے پیش نظر پاکستان میں مقیم روسی سفیر نے دو تین مواقع پر ان سے اہم ملاقاتیں کیں۔ قاضی حسین احمد قیادت کی اعلیٰ صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ آپ متحدہ شریعت محاذ پاکستان کے سیکرٹری جنرل بھی رہے ہیں۔ اس حیثیت سے انہوں نے ملک بھر کا طوفانی دورہ کیا اور تمام مکاتب فکر کے علماء  اور مشائخ سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے بہت سے علماء کے ساتھ ذاتی دوستی کے تعلقات قائم تھے۔ آپ نے ملک میں نفرتوں اور علاقائی تعصّبات کے خاتمے اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نظام کے خلاف اعلان جہاد کیا اور ایک کارواں تشکیل دیا جس میں ملک کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے 313 افراد شامل تھے۔ قاضی حسین احمد اس کاروان دعوت ومحبت کے میر کاروان تھے۔ مارچ 1988ء میں اس کاروان نے ایک ماہ تک چاروں صوبوں کے بڑے بڑے شہروں اور مقامات کا دورہ کیا اور عوام میں یکجہتی اور محبت کا پیغام پہنچایا۔

1989ء کے اواخر میں مقبوضہ کشمیر کے غیور مسلمانوں نے بھارتی الیکشن کا کامیاب بائیکاٹ کرکے جب تحریک آزادی کشمیر کے فیصلہ کن مرحلے کا آغاز کیا تو دوسری طرف قاضی حسین احمد نے بھی پاکستان اور پھر بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو متعارف کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔ 1990ء کے آغاز میں قاضی حسین احمد نے کاروان جہاد کشمیر کے نام سے پاکستان بھر کا طوفانی دورہ کیا اور جہاد کشمیر ریلیوں سے خطاب کیا۔ اس دوران قاضی حسین احمد کی ہی کوششوں سے پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس میں آپ نے مسئلہ کشمیر اور اس کے پس منظر پر تاریخی تقریر کی۔ 5 فروری 1990ء کو قاضی حسین احمد کی اپیل پر پہلی مرتبہ ملک بھر میں کامیاب ہڑتال اور مظاہرے کرکے پاکستانی قوم نے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد یہ دن 1991ء اور پر 92ء میں بھی منایا گیا۔ 5 فروری 1993ء میں محترم قاضی صاحب نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، مظفرآباد اور پشاور کے تاریخی دورے کیے۔ قاضی حسین نے احمد مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کے لیے 26 مئی 1990ء کو ترکی، مصر، عراق، ایران، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات اور قطر کا دورہ کیا۔ 13 جنوری 1988ء کو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہونے کے فوراً بعد عوام ایکسپریس کے ذریعے لاہور سے کراچی تک سفر کیا۔ راستے میں اٹھارہ بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر عوام سے خطاب بھی کیا۔ 12 اپریل 1989ء میں آپ نے سعودی عرب کے 15 روزہ دورے کے دوران عمرہ ادا کیا۔ اعتکاف کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔ قاضی حسین احمد نے 16 جون 1989ء سے 22 ستمبر 1989ء تک اندرون سندھ کا تفصیلی دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ 9 ستمبر 1990ء میں قاضی حسین احمد نے برطانیہ کا دورہ کیا اور یسلے ہال میں ایک اہم سیمینار سے خطاب کیا۔ 11 ستمبر 1990ء کو عالمی اسلام تحریکات کے اجتماع میں شرکت کے لیے اردن گئے۔

خلیج کے بحران کے دوران محترم قاضی صاحب نے عالمی اسلامی تحریکوں کے فود کی قیادت کرتے ہوئے اردن، سعودی عرب، عراق اور ایران کا دورہ کیا۔ اس تیرہ روزہ دورے کے دوران آپ نے ان ممالک کے سربراہان مملکت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے دیگر نمایاں افراد سے ملاقاتیں کیں۔ عراق کو کویت سے نکالنے اور علاقے کو جنگ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مارچ 1991ء میں دوسری مرتبہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مارچ میں ہی آپ نے سوڈان اور ترکی کا دورہ کیا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان کے ہمراہ بڑے بڑے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ افغان مجاہدین کے ہاتھوں خوست کی فتح کے بعد قاضی صاحب نے انجینئر گلبدین حکمت یار کی معیت میں خوست کا دورہ کیا۔

قاضی حسین احمد 1987ء سے لے کر 2009ء تک مسلسل 4 مرتبہ امیر جماعت منتخب ہوئے اور اس طرح انہیں 22 سال تک جماعت اسلامی کے امیر بننے کا شرف اور اعزاز حاصل رہا اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی جماعت میں تبدیل کردیا اس طرح ملک کی سیاست میں دینی جماعتوں کے کردار کو مؤثر اور متحرک کرکے دینی جماعتوں کو قومی، دینی اور سیاسی دھارے میں شامل کردیا۔ وہ اکثر کلام اقبالؒ سے سیاسی رہنمائی لیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ بقول علامہ اقبالؒ ’’جدا ہو جو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ قاضی حسین احمد نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے بھی ملک میں اسلامی نظام کے فروغ اور ترویج کے لیے نمایاں کردار سر انجام دیا، ملک میں جمہوریت اور اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے بنائے گئے سیاسی اتحادیوں میں قاضی حسین احمد کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جنرل ضیاء الحق کی وفات اور میاں طفیل محمد کے امارت چھوڑنے پر جماعت اسلامی کی امارت سنبھالنے پر قاضی حسین احمد نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف سے مل کر حکومت مخالف جماعتوں پر مشتمل ”اسلامی جمہوری اتحاد“ (IJI) بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور بے نظیر حکومت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی، اس وقت ایئر مارشل (ر) اصغر خان، مولانا شاہ احمد نورانی، محمد خان جونیجو اور دیگر بڑی قدآور شخصیات سے ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے، آئی جے آئی کے سربراہ میاں نواز شریف کے برسراقتدار آنے کے کچھ عرصہ بعد جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کچھ لوگوں نے اختلافات کو ہوادی اور قاضی حسین احمد اور ان کی جماعت آئی جے آئی سے الگ ہوئی اور 1993ء میں ”پاکستان اسلامک فرنٹ“ اتحاد بنا کرقومی انتخابات میں حصہ لیا، مگر قاضی حسین احمد نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور ایک بار پھر جماعت اسلامی، جے یو پی، جے یو آئی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سمیت دیگر دینی جماعتوں پر مشتمل ”متحدہ مجلس عمل“ کے نام سے نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد ڈالی۔ 2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور صوبہ خیبر پختونخواہ  میں ایم ایم اے کی صوبائی حکومت قائم ہوگئی، جنرل مشرف نے ایم ایم اے کو توڑنے کے لیے قاضی حسین احمد، مولانا شاہ احمد نورانی سے مذاکرات کیے، ان مذاکرات کو ’’ملا، ملٹری الائنس‘‘ قرار دیا گیا لیکن حکومت اور ایم ایم اے کی قیادت کے بعد یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ قاضی حسین احمد کے جے یو پی کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی سے مثالی تعلقات تھے۔

قاضی حسین احمد کی عمر اگرچہ 74 سال تھی لیکن انہوں نے ساری زندگی ایک متحرک نوجوان کی طرح گزاری۔ قاضی حسین احمد کی زندگی میں کئی نشیب وفراز آئے مگر انہوں نے ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے جب وہ کسی دورے پر جاتے وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ مساجد میں صفوں پر لیٹ کر راتیں بسر کرتے، 1996ء میں حکومت کے خلاف قاضی حسین احمد نے راولپنڈی میں دھرنا دے کر نئی مثال قائم کی جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت ہونا پڑا۔ اس طرح جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور کے دورے پر آئے تو اس وقت میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم اور میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے احتجاج نے لاہور کی سڑکوں کو میدان جنگ میں بدل دیا۔ قاضی حسین احمد اپنے ساتھیوں اور صحافیوں کے ہمراہ لٹن روڈ کے دفتر میں محصور ہوگئے اور شدید آنسو گیس کے باعث درجنوں افراد بے ہوش ہوئے، قاضی حسین احمد کی حالت بھی خراب ہوگئی لیکن انہوں نے کارکنوں کا ساتھ نہ چھوڑا۔

 صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف کی گرفتاری کے بعد ان اکی اہلیہ بیگم کلثوم نواز منصورہ آئیں تو انہوں نے نواز شریف کی طرف سے ایک خط امیر جماعت قاضی حسین احمد کو دیا جس کو دیکھ کر قاضی صاحب آبدیدہ ہوگئے۔ میاں نواز شریف کے والد محترم میاں محمد شریف، قاضی حسین احمد کا بڑا احترام کرتے تھے مگر اس وقت میاں نواز شریف نے بعض نادان مشیروں کے کہنے پر جماعت اسلامی کی قیادت پر حکومت سے فنڈز لینے کا الزام عائد کیا جس پر قاضی حسین احمد کو خاصا دکھ ہوا اور اس حوالے سے انہوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا۔ بیگم کلثوم نواز کی منصورہ آمد پر قاضی حسین احمد نے نواز شریف سے ماضی کی تلخیاں بھلا دیں۔ قاضی حسین احمد نے خط کے استفسار پر ساتھیوں کو کچھ نہ بتایا اور بیگم کلثوم نواز کے خط کے مندرجات کو پریس کو ریلیز کرنے کی اجازت دینے کے بعد صیغہ راز میں رکھا جو ان کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔

صدر جنرل (ر) ضیاء الحق نے ایک دفعہ قاضی حسین احمد کو بلا کر ان کی جہاد افغانستان میں خدمات کی بے حد تعریف کی اور انہیں افغان جہادی گروپوں کی مدد کے لیے رقوم دینے کی پیشکش کی مگر قاضی حسین احمد نے یہ کہہ کر صد ر کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کرلی کہ جماعت اسلامی اپنے وسائل سے افغان جہادیوں کی جو مدد کررہی ہے وہ کافی ہے جس سے قاضی حسین احمد کی دور اندیش سیاسی بصیرت کی عکاسی ہوتی ہے۔

قاضی حسین احمد آئندہ انتخابات کے حوالے سے نئے انتخابی جوڑ توڑ اور نئے سیاسی اتحاد کے لیے پارٹی قیادت کی رہنمائی کر رہے اور ملک سے فرقہ واریت، دہشت گردی کے خاتمے اور صوبوں میں علاقائی، لسانی تعصبات کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے قوم میں ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے کوشاں تھے، اس حوالے سے وہ ”ملی یکجہتی کونسل“ کے پلیٹ فارم سے چاروں صوبوں میں ان کی مصروفیات جاری تھیں کہ زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ اتوار کی صبح ایک بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ قاضی حسین احمد کی صدارت میں جماعت اسلامی کے پاس ایک بڑا سیاسی لیڈر تھا جو قوم کو باکردار، دیانت دار اور اہل قیادت دینا چاہتا تھا اگر قاضی حسین احمد اپنے ویژن میں کامیاب ہوجاتے تو پاکستان کو ایک اچھی قیادت مل جاتی۔

========================
===قاضی حسین احمدؒ===
=======تصاویر کے بندھن میں=======

























مصنف:  مقصود اعوان۔(بشکریہ جنگ کراچی)

 ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]