میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

پراسرار قبرستان!

کراچی کے مہنگے ترین اور پوش علاقے ڈیفنس فیز ٹو ایکسٹینشن خیابان جامی کی اسٹریٹ نمبر تین پر چاردیواری میں بند ایک ایسا قبرستان دریافت ہوا ہے جوکہ آبادی کے بیچوں بیچ قائم ہے۔ جہاں لگ بھگ 50 سے 60 قبریں موجود ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ کسی بھی قبر پر سرے سے کوئی کتبہ نہیں اور قبر پر کتبے کی جگہ سیمنٹ کا بارہ سے اٹھارہ قطر کا ایک پائپ نصب ہے۔


 ہندو برادری کے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قبرستان ہندوؤں کی سب سے اونچی ذات برہمنوں اور میواتیوں کا قبرستان ہے اور انہوں نے قبر کے سرہانے جو پائپ نصب کر رکھے ہیں وہ لوگ اپنے عقائد کے مطابق اس کے ذریعے اپنے مردوں کو خشک میوہ جات کھوپرے اور کھانے دیتے ہیں اور اس طبقے کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ان کے مردے نہ صرف اس پائپ کے ذریعے دیئے گئے کھانے کھاتے ہیں ،وہ اپنا اچھا کھانا اور من پسند خشک میوہ جات ملنے پر ان سے اس پائپ کے ذریعے ہمکلام ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

اس قبرستان کے بارے میں اطراف سے گھروں اور فلیٹوں کے مکینوں نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم اس قبرستان کے سامنے واقع تین دکانداروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس پر اسرارقبرستان میں سالوں میں کبھی کبھی لوگ مردے دفنانے آتے ہیں تاہم ہندو عورتیں  ہاتھوں میں عجیب وضع قطع کے کڑے اور عجیب وغریب رنگ برنگ لباس میں ہوتی ہیں۔ اکثر بیشتر ہاتھوں میں مختلف قسم کے کھانوں میں سجی تھالیں جن میں خشک میوہ جات دودھ اور بھنا گوشت لیکر انتہائی خاموشی سے آتی ہیں اور اپنے پیاروں کی قبروں کے سرہانے لگے پائپ میں ڈال کر کچھ دیر خاموشی میں گزار کر پھر سرگوشیاں کرتی ہیں اور پھر اچانک غائب ہو جاتی ہیں اس قبرستان کی دیکھ بھال ایک خواجہ سرا کرتا ہے جو کبھی کبھی نظر آتا ہے مگر باوجود لوگوں کے بلانے کے کبھی نہیں آتا۔ اسی وجہ سے آبادی کے بیچوں بیچ یہ قبرستان علاقے کے لوگوں کیلئے ایک راز ہے۔

 پرانا گولیمار کے علاقہ میں ہندوؤں کے سب سے قدیم مرگھٹ "سون پری "کے انچارج کا کہنا ہے کہ ہندو برادری میں میواتی ، برہمن اور مرہٹے قوم کے لوگ اپنے مردوں کو جلاتے نہیں بلکہ دفناتے ہیں اور مذکورہ مرگھٹ میں بھی ایسے سینکڑوں لوگوں کی قبریں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ڈیفنس میں دریافت ہونے والا قبرستان ان ہی تین ذاتوں میں سے کسی ایک کا قبرستان ہو۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ  8 سے 10 سال کے بچے خواہ ان کاتعلق ہندوؤں کی کسی بھی قوم سے ہو ، جلایا نہیں جاتا بلکہ دفن کیاجاتا ہے۔ نیز ان میں جو پنڈت اور مہاراج ہوتے ہیں انہیں بھی مرنے کے بعد جلایا نہیں جاتا،بلکہ انہیں خوب سجا سنوار کر پوری عزت و تکریم کے ساتھ قبر میں آلتی پالتی  مار کر بیٹھنے کے انداز میں دفنایا جاتا ہے جسے" سمادھی "کا نام دیا جاتا ہے۔


مصنف:  ایم آر شاہد ۔
ماخذ:     کتاب "کراچی میں مدفون مشاہیر " سے ماخوذ۔

ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
تعاون کی  التماس۔[شکریہ]