میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

مرسی: اسٹیبلشمنٹ کے حلق کا کانٹا !!!

مصر میں آخروہی ہوا، جس کا خدشہ اسی دن سے ظاہر کیا جارہاتھا جس دن ڈاکٹر محمد مرسی نے اقتدار سنبھالا تھا ۔لوگ سوال کررہے ہیں کہ ایسی کون سی قیامت آگئی تھی کہ صرف ایک سال کی مدت میں مصری فوج کو منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرنا پڑی اور حکومت کا تختہ الٹنا پڑا  ؟؟؟؟

 


مصر کے نظر بند صدر محمد مرسی کا اصل گناہ اور ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ:
 انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی فلسطین کے ساتھ سرحد کو کھول دیا تھا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی عوام کو بنیادی انسانی ضروریات بہم پہنچائیں ،اب اسرائیل میں یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ فلسطین پر حملہ کرے، اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تومصر  پہلے کی طرح اپنی فلسطین کے ساتھ اپنی سرحد بند نہیں کرتا جس طرح حسنی مبارک کے دور میں کردی جاتی تھی ۔

دوسری سر درد یہ ہے کہ ڈاکٹر مرسی ایک اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون  کے لیڈر ہیں۔

 اور تیسری بات یہ کہ محمد مرسی ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جو مصر کے مغرب نواز لبرل طبقے کو کسی صورت بھی قبول نہیں ،محمد مرسی فوج میں بھی اصلاحات کے خواہاں تھے ۔
یہ سب باتیں ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں ۔

مصری جنرل نے عرب بہار سے کوئی سبق سیکھا ہے نہ حسنی مبارک کا عبرت ناک انجام انہیں یاد رہا ہے جو ابھی کل کی بات ہے ، آج بھی حسنی مبارک اسٹریچر پر پڑا ہتھکڑیو ں میں جکڑا آہنی جنگلے میں عدالت میں پیش ہوتا ہے ،سچ ہے انسان بہت جلد اپنے ارد گرد پھیلی نصیحت آموز داستانوں کو بھول جاتا ہے!  
تم  سے  پہلے  جو  بندہ  یہاں  تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا

اسلام دشمن قوتیں بھلا صدر مرسی کے ان تاریخی اور جرأت مندانہ الفاظ کو کیسے بھول سکتی تھیں جو انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دور ان کہے تھے کہ ’’جو ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ کا احترام کرے گا ہم اس کا احترام کریں گے اور جو ان سے دشمنی کریگا ہم بھی اس سے دشمنی کریں گے ‘‘۔

3 جولائی کو مصر کے آرمی چیف کرنل جنرل عبد الفتح السیسی نے اپنے محسن اور مصرکے پہلے جمہوری اور منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا اور مرسی سمیت اخوان کی اعلیٰ قیادت کو فوجی ہیڈ کوارٹر میں بند کردیاگیا۔حکومت کا تختہ الٹنے سے قبل فوج نے حکومت کو 48گھنٹے کی ڈیڈلائن دی تھی کہ سیاستدان اپنے معاملات ٹھیک کرلیں لیکن ڈیڈلائن کے خاتمے سے قبل ہی فوج حرکت میں آچکی تھی اور اس نے سرکاری ٹیلی وژن سمیت اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرلیاتھا اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو اپنی حراست میں لے لیا تھا ۔
جنرل عبدالفتاح  نے ٹی وی پر اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ہم نے ڈاکٹر مرسی کو مستعفی ہونے کا کہا تھا لیکن انہوں نے استعفی ٰ نہیں دیا اور ہم عوام کے بلانے پرآئے ہیں ہمیں حکومت سے کوئی غرض نہیں صرف حالات سدھارنے کیلئے ضروری تھا کہ عوام کی نا پسندیدہ حکومت کو اقتدار سے الگ کردیا جائے ‘‘۔بعد ازاں فوجی سربراہ نے اپوزیشن لیڈر البرادی کے ہمراہ میڈیا کو بتایا کہ’’ ہم نے باہمی مشاورت سے چیف جسٹس عدلی منصور کو ملک کا نیا عبوری صدربنا دیا ہے۔ ‘‘

قبل ازیں قریباً ایک ہفتہ سے امریکی وزیر دفاع جنرل ہیگل اور جنرل عبدالفتح کے درمیان مسلسل رابطہ اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور ہوتا رہاجو بالآخر دوسال قبل حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد ہونے والی انتخابات میں پہلے جمہوری صدر کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اخوان کی کامیابی اور ڈاکٹر مرسی کے صدر بنتے ہی امریکا کو اپنے ناجائز بچے اسرائیل کے تحفظ کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات کا بھی خیال رکھنا تھا اس لئے اسرائیل نے اخوان اور مرسی کے مخالفین کوپہلے روز ہی سے متحرک کرنا شروع کردیا تھا امریکا اور اسرائیل کی سب سے پہلی کوشش یہی تھی کہ صدر مرسی برائے نام صدر رہیں اور اختیارات فوج اور عدلیہ کے ہاتھ میں ہوں تاکہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جاسکے ۔اسی مقصد کے پیش نظر امریکا نے مصر میں اختیارا ت کی جنگ چھیڑی لیکن آئین کی تیاری کیلیے ہونے والے ریفرنڈم میں مرسی نے ایک بار پھر اپنے حریفوں کو زمین چاٹنے پر مجبور کردیا اور عوام کی بھاری اکثریت نے ریفرنڈم میں مرسی کے موقف کی حمایت کرکے اسلام دشمن قوتوں کے عزائم کو خاک میں ملادیا۔امریکا نے نہ صرف ریفرنڈم میں بے تحاشا پیسہ خرچ کیا بلکہ ان مظاہروں کو منظم کرنے ،مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کو آملیٹ ،پیزہ ،برگر ،جوسز اور منرل واٹر کی بوتلیں تک پہنچائی گئیں ،ان مظاہرین میں زیادہ تعدا دا یسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ہوتی تھی جو شخصی آزادیوں کے حامی اور مذہب بے زار ’’لبرل ‘‘تھے ،ان مظاہروں کی اخبارات میں ایسی تصاویر بھی چھپتی رہیں جن میں مظاہرین کو جوتوں سمیت مسجدوں میں گھسے دکھایا گیا۔

صدر مرسی نے بھی پاکستانی سیاستدانوں والی غلطی کرتے ہوئے فوج کے جونئیر افسر کو اٹھا کر کرنل جنرل بنایا اورپھر فوج کا سربراہ اوروزیر دفاع بنا دیا ،مرسی کو اپنے اس جنرل پر بڑا اعتماد اور مان تھا لیکن جو پاکستانی جرنیلوں نے اپنے محسنوں کے ساتھ کیا وہی سلوک مصری جنرل نے مرسی کے ساتھ کرکے مصر میں بھی پاکستانی تاریخ دہرا دی ۔فوجی جنریلوں کے ہاتھوں محسن کشی کی یہ تاریخ نئی نہیں !
 
آج پاکستان میں جنرل پرویز مشرف انہی عدالتوں کے رحم و کرم پر ہے جن کے اعلیٰ ترین ججز کو اس نے ایل ایف او کے کالے قانون کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کیا تھا اور جن ججز نے آئین کی پامالی کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا انہیں گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ،
پاکستان میں جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لاء اور بھٹو کی پھانسی کے بعد قریباً چالیس سال سے پیپلز پارٹی اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہے ، مشرف آمریت کا شکار ہونے والے میاں محمد نواز شریف پہلے سے زیادہ عوامی حمایت کے ساتھ اقتدار میں ہیں جبکہ جنرل مشرف کوجان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
 اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مصری عوام بھی پاکستانی تاریخ دہراسکیں گے ؟؟


مصنف :           راجہ محمد اکرم (کالم نگار)
حوالہ :              http://beta.jasarat.com/columns/news/107053
               

ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]