میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

مد و جزر !!!


یونانیوں کا  ’’نیلس‘‘ اور سامیوں کا  ’’نہل‘‘ اب دریائے نیل ہے، جس کے نیلگوں پانیوں میں تلاطم بپا ہے۔ یہ عیسوی تقویم سے بھی 415 سال پہلے کی بات ہے،  یونان کے حکمران خاندان کے خلاف انقلاب بپا کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد ملک بدر ہونے والا ہیروڈوٹس پھر دنیا بھر کی سیاحت پر نکل کھڑا ہوا۔ وہی اب علم کی دنیا میں تاریخ نویسی کا بانی کہلاتا ہے۔ اُسی نے دریائے نیل کو ’’مصر کا تحفہ‘‘ کہا تھا۔ دریائے نیل نے انقلابات ِ زمانہ کے کتنے ہی مدوجزر دیکھے اور دکھلائے ہیں۔ اب وہ ایک اور طوفان کا سامنا کررہا ہے۔



 مصر کا تحفہ تو دریائے نیل ہے، مگر طوفان آشنا دریائے نیل نے جو تحفے مصر کو اِن دنوں دیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اُن میں سے دو تحفے جنرل عبدالفتح السیسی اور عدلی منصور کے ہیں۔ نیل سے کبھی اگر بھنور اُٹھتا ہو تو اُس کی آنکھیں اِن آوارہ موجوں کے ماتم میں دائم روتی رہیں گی کہ استعمار کی ساختہ اور حرص کی پرداختہ اس مخلوق نے کس طرح مصر سے اُس کا قرار چھینا ہے۔

ذرائع ابلاغ اور اُن دانشوروں پر حیرت ہوتی ہے جو تہہ بہ تہہ حالات کے بہاؤ کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں اور کسی بھی واقعے پر اپنی حتمی رائے کے ساتھ کج بحثیوں پر اتر آتے ہیں۔ مصر کے حالات میں ہمارے تجزیہ کاروں اور ٹی وی کے فریب خوردہ پردوں نے یہی کچھ کیا ہے۔ مغرب سے خواہ مخواہ مرعوبیت اور بیرونی ذرائع معلومات پر گمراہ کن انحصار نے ہماری آراء کو مصنوعی طور پر ڈھالنا شروع کردیا ہے، جسے نوم چومسکی نے ایڈورڈ ایس ہرمن کے ساتھ مل کر اپنی کتابوں کے ایک سلسلے میں ’’رضامندی وضع کرنا‘‘ (Manufacturing consent) کی خوب صورت اور برمحل تعبیر دے رکھی ہے۔ ایک سیدھے سادے جمہوری عمل کو فوجی بغاوت سے لپیٹ دینے کے غیر آئینی کام کو رنگارنگ مباحث سے سجاکر پاکستان اور اسلامی دنیا میں ایک الجھاؤ پیدا کرنے کا کھیل بھی سوچا سمجھا ہے۔ مغرب اور مصر کی مغرب زدہ جنتا کی طرف سے یہ ایک سیدھا پیغام ہے کہ کوئی اسلامی قوت جمہوری انداز سے اکثریت پاکر بھی پنپ نہیں سکتی اگر وہ ’’اچھے بچے‘‘ بن کر نہیں رہتے۔ اچھے بچے سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنے کاموں کا آئینی حق رکھتے ہوں اور اس پر عمل پیر ا ہوتے ہوں۔ اس کے برعکس ’’اچھے بچے‘‘ سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ استعمار کے منظم علاقائی کھیلوں میں کہیں پر بھی مزاحم نہ ہوتے ہوں، چاہے اس کا عملی نتیجہ ملک سے غداری کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلتا ہو۔ تمام عالمِ اسلام کی منتخب اور غیر منتخب حکومتوں کا ماجرا عملاً یہی ہے۔ مصر کے باب میں کیا ہورہا ہے؟ ایک سراسر غیر آئینی اور غیر مبہم فوجی بغاوت کو موضوعِ بحث نہیں بنایا جارہا بلکہ اِسے نہایت پُرکاری سے اخوان المسلمون اور مصر کے آئینی صدر محمد مرسی کے مختلف سیاسی اقدامات پر لعن طعن کا ہدف بنادیا گیا ہے۔ محمد مرسی کو پہلے سے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہٹانے کے لیے فوجی بغاوت کو کس طرح باجواز بنایا گیا؟ عوامی احتجاج کا دائرہ کیا تھا؟ کیا ایک منتخب جمہوری حکومت کو کسی بھی احتجاج کی صورت میں اِس طرح چلتا کیا جاسکتا ہے؟ خود جمہوریت احتجاج کو کیا اور کتنا راستہ دیتی ہے؟ احتجاج کے اپنے دستوری راستے کیا ہوتے ہیں؟ ایک آمریت اور منتخب جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دائروں کو دنیا نے اپنے تجربات کی روشنی میں کس طرح الگ الگ اور اہداف و مطالبات میں مختلف بنایا ہے؟ یہ وہ بنیادی مباحث ہیں جن پر کسی بھی گفتگو کے بغیر بات یہاں سے شروع کردی گئی کہ محمد مرسی کو پہلے معیشت مضبوط کرنا چاہیے تھی یا سیاسی طاقت کو یافت کرنا چاہیے تھا؟ اِس تناظر میں بھی اصل سوال دوسرا ہے۔ کیا مصر کے منتخب آئینی صدر کو اِس انتخاب کی کوئی آزادی بھی تھی کہ وہ اپنی ترجیحات میں معیشت کو پہلے اور دستوری تبدیلیوں کو دوسرے مرحلے پر اپنے جمہوری حق سے موضوع بناتے؟ ذرا زمینی حقائق کی روشنی میں اِس انتخاب کی حقیقت پر غور کریں۔

جب محمد مرسی نے چھ دہائیوں پر محیط بدترین آمریت کے بعد 30 جون 2012ء کو منتخب صدر کے طور پر حلف اُٹھایا تو مصر میں کیا ہورہا تھا؟ مصر میں تب ایک اور جبر کے تحت عبوری فوجی حکومت قائم تھی جو اخوان المسلمون کا راستہ روکنے کے لیے ہر ناجائز حربہ اختیار کرنے پر تلی تھی۔ خود اِس عبوری فوجی حکومت کا قیام بھی اِسی بنیادی ہدف کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ صدارتی انتخاب سے صرف چند گھنٹے قبل ایک منتخب اور جمہوری اسمبلی کو توڑ دیا گیا جس میں اخوان کے دوتہائی ارکان موجود تھے اور جو چند ہفتے پہلے ہی منتخب ہوکر آئے تھے۔ یہ غیر دستوری کام ملک کی دستوری عدالت نے کیا۔ ظاہر ہے عین صدارتی انتخاب سے قبل اخوان کی قوت کو توڑنے کے لیے ہی منتخب اسمبلی کو توڑا گیا تھا۔ اس طرح صدارتی انتخاب پر براہِ راست اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی۔ اِخوان کے امیدوار کو عوام میں کمزور اور انتخابی عمل میں مشکل میں دکھانے کے لیے ایک دوسرا حربہ یہ اختیار کیا گیا کہ اصل امیدوار اور اِخوان کے نائب مرشدِ عام ”خیرت الشاطر“ کو نااہل قرار دلوا دیا گیا۔ یوں اِخوان کی دوسری ترجیح کے طور پر ”محمد مرسی“ کو صدارتی انتخاب میں قبول کیا گیا۔

 بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے ان تفصیلات کو شائع کیا تھا کہ کس طرح عبوری فوجی حکومت صدارتی انتخابات کے نتائج کو بدلنے کی طرف مائل تھی مگر اخوان نے اِن کوششوں کو ناکام بنایا۔ اِن مختلف ہتھکنڈوں کے باوجود محمد مرسی دوسرے مرحلے کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوگئے۔ یہ اخوان المسلمون پر مصر کی عظیم اکثریت کا اعتماد تھا۔

مصر کے منتخب صدرکو روکنے میں ناکامی کے بعد اب اُنہیں رسوا کرنے اور کمزور رکھنے کے لیے حالات کا نیا جبر تخلیق کیا گیا۔ سب سے پہلے اُنہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ایک ایسی عدالت کے روبرو حلف اُٹھائیں جو چند ہفتے قبل خود اخوان کی دو تہائی اکثریت پر مبنی اسمبلی کو غیر آئینی طور پر برطرف کرنے کی ذمہ دار تھی۔ مصر کو جمہوریت کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے مصری صدر نے نہایت تحمل کا راستہ اختیارکیا۔ ایک طرف صدر مرسی کے لیے کاروبارِ حکومت چلانے میں مسلسل دشواریاں پیدا کی جاتی رہیں تو دوسری طرف مصر کے ماحول کو بھی مصنوعی طور پر گرم رکھا گیا۔ حسنی مبارک کے خلاف حقیقی انقلاب کے فرزندوں کے خلاف مصر کے اُن عناصر کومسلح کیا گیا جو مرسی کے خلاف بدامنی کو فروغ دیتے رہے اور مجموی طور پر ملک کو غیریقینی کی دھند میں دھکیلتے رہے۔سال بھر میں یہ عناصر ہزاروں مظاہروں،ہنگاموں اور پرتشدد واقعات کو جنم دیتے رہے یہاں تک کہ اُنہیں منتخب صدر کو فارغ کرنے کے لیے حتمی طور ردِانقلاب کے لیے التحریر چوک میں جمع کرنے کامنصوبہ طے پاگیا۔ تمام آزاد ذرائع اب یہ تصدیق کررہے ہیں کہ فوجی بغاوت کو جواز دینے کی خاطر ایک عوامی حمایت کا اشتباہ تخلیق کرنے کے لیے بے پناہ وسائل استعمال کیے گئے اور عوامی اکٹھ سے قبل ہی محمدمرسی کو فارغ کرنے کا منصوبہ تشکیل دے دیا گیا تھا۔اس ضمن میں عوامی اکٹھ سے پہلے اور ساتھ اخوان کے سرگرم کارکنوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جاچکاتھا۔اخوان کے حامی چار ٹیلی ویژن کی نشریات کا خاتمہ کر دیا گیا، جب کہ مرسی مخالف درجنوں ٹیلی ویژن مکمل آزادی کے ساتھ بروئے کارآتے رہے اور مصر کی یک طرفہ تصویر پیش کرتے رہے۔ کیا اِس منظرنامے میں اس سوال کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے کہ مرسی نے کیا کیا اور اُنہیں کیا نہیں کرنا چاہیے تھا؟ یہ حالات ایک کلیاتی اور گھڑی گھڑائی گفتگو میں تجزیے کا موضوع نہیں ہیں جس میں ’’یوں بھی ہوا ہے اور یوں بھی ‘‘ کا اسلوب اختیار کر لیا جائے۔اور ’’اگر یہ نہ ہوتا تو یہ بھی نہ ہوتا ‘‘ کا روایتی ذہن برتا جائے۔

کسی بھی ’’شف شف ‘‘ کے بغیر ابہام سے پاک حقیقت بس ایک ہی ہے کہ اسلامی دنیا میں جمہوریت نقاب پوش ہوتی ہے۔ یہ استعمار کی چھتری تلے رہتی ہے،بیرونی مفادات کی خدمت گر ہوتی ہے اور اپنی بناوٹ میں بیرونی امداد کے زیرِ نگیں رکھی جاتی ہے۔اس کے قدرتی وسائل کو بھی مغربی ملکوں کے نقد وسائل اور افرادِکار کی تحویل میں مجبورِمحض بنا کر رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک طویل کھیل کا پُرپیچ سلسلہ ہے، جس میں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چُھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چُھری پر۔ اس کٹاچھنی میں نقصان صرف مسلمانوں کا اور فائدہ صرف استعمار اور اُن کی فکری اولادوں کا ہوتا ہے۔
کیا دریائے نیل سے یہ آواز نہیں آرہی ہے کہ امتِ مسلمہ کو اب صندوق سے باہر نکل کر سوچنا پڑے گا ؟؟


مصنف :           محمد طاہر
حوالہ:             http://beta.jasarat.com/columns/news/105632


ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]