میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

مظلومِ مشرقِ پاک !!!


بنگلہ دیش کی بھارت نواز شیخ حسینہ حکومت کے طرزِ عمل سے، عوام کے ذہن میں،بہت بڑا یہ سوال پیدا ہوگیاہے کہ کیا اس نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت،ضعیف العمر عوامی راہنما پروفیسر غلام اعظم پر مقدمہ چلائے بغیر،ان کی زندگی ختم کرنے کا پروگرام بنالیاہے؟کیونکہ شواہدبتاتے ہیں کہ ۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو گرفتار ہونے کے بعد سے پروفیسر غلام اعظم کے ساتھ جو سلوک کیا جارہاہے وہ نہ صرف غیر قانونی، غیر انسانی اورغیر اخلاقی ہے بلکہ یہ سراسر ظالمانہ ہے۔

 


۱۸فروری ۲۰۱۲ء کو، ان کی ۸۰سالہ اہلیہ عفیفہ اعظم نے ان سے جیل میں ملاقات کے بعد اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ انہیں خاندان سے الگ کرکے قید تنہائی میں رکھاجا رہا ہے اور غیر معیاری کھانا دیا جارہاہے۔ انہوں نے خود کہاہے کہ جو کھانا مجھے دیا جاتاہے وہ کھانے کے قابل نہیں ہوتا،اس لیے مجھ سے کھایا نہیں جاتا۔مجھے ایسا لگتاہے اس طرح شاید میں زیادہ دن زندہ نہ رہ سکوں۔
محترمہ عفیفہ اعظم کا کہنا ہے کہ حیرت اس بات پرہے کہ یہ ساری صورتحال، مجاز اتھارٹی کے علم میں لانے کے باوجود اس کا کوئی جواب تک نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے کہاکہ ۹۰سالہ ضعیف العمر بیمار کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھاگیاہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ حالانکہ پروفیسر غلام اعظم عالمی سطح کے نامور اسلامی دانشور اور رہنما ہیں۔
اس سے پہلے ۴فروری ۲۰۱۲ء کو ان کے خاندان کے کئی لوگ اُن سے جیل میں مل کر آئے تو ان کے بیٹے بریگیڈئیر جنرل (ر) عبداللہ الامان اعظمی نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھاکہ میرے والد پروفیسر غلام اعظم صاحب کو غیر معیای کھانا دیا جا رہا ہے، جو صحیح طرح کھایا بھی نہیں جا سکتا۔ نتیجتاً وہ بہت کمزور ہوگئے ہیں۔ چار ہفتوں میں ان کا وزن تین کلو گرام کم ہو گیا ہے۔ ان کی بینائی کمزور ہو گئی ہے اور ان کی قوت گویائی میں بھی ضعف آگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر صاحب نے ملک اور قوم کے لیے اپنی دعاؤں کا پیغام بھیجا ہے اور اپنے لیے قوم سے دعاؤں کی درخواست کی ہے۔
دریں حالات پروفیسر غلام اعظم کی صحت کی کمزوری کا عکس الجزیرہ ٹی وی کی اس رپورٹ سے بھی واضح ہوتا ہے جو ۱۶فروری ۲۰۱۲ء کو نشر ہوئی۔ اس میں بتایا گیاہے کہ ۴۰سال قبل کے واقعات کے حوالے سے ’’انسانیت کے خلاف جرم کے ارتکاب‘‘ کے نام نہاد الزام میں ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ۸۹ سالہ بوڑھے پروفیسر غلام اعظم نہ ٹھیک سے چل سکتے ہیں، نہ صاف دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی صاف سُن سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ۱۰مسلح پولیس والے ۲۴ گھنٹے ان کی نگرانی پر متعین ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے ٹریبونل کی ایک سماعت کی کارروائی کے مشاہدہ کے بعد اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر سیاسی راہنماؤں کا جیل میں قید رکھا جانا غیر منطقی ہے اور بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہے۔ اس پر بنگلہ دیش کے وزیر قانون نے عذر لنگ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہمارا مقامی سطح کا ٹریبونل ہے۔ لہٰذا ہم نے انہیں بین الاقوامی نہیں، بلکہ اپنے قانون کے تحت گرفتار کیا ہے۔ الجزیرہ کی اس رپورٹ میں اس خدشہ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ اگر جرم ثابت ہوگیا تو پروفیسر غلام اعظم کو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن عدالت جو بھی فیصلہ کرے، اس کے نتائج بڑے سنگین و دوررس، بلکہ حیرا ن کن ہوں گے اور بنگلہ دیش غیر یقینی حالات کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔

یہ سوچنے کی بات ہے کہ پروفیسر غلام اعظم جب ۱۱جنوری کو ’’وہیل چیئر‘‘ میں ٹریبونل کے سامنے پیش ہوئے تو عدالت نے اُن کی ضمانت منظور نہیں کی۔ حالانکہ اس سے پہلے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے ایک راہنما اور خالدہ ضیا کے مرحوم شوہرضیا الرحمن کی کابینہ کے وزیر عبدالعلیم، جو پروفیسر غلام اعظم سے عمر میں کئی سال چھوٹے ہیں اور ’’وہیل چیئر‘‘ میں پیش ہوئے تو عدالت نے ان کے بیمار اور عمر رسیدہ ہونے کے پیش نظر، انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کردیا۔ لیکن پروفیسر غلام اعظم کے معاملے میں کسی قسم کی انسانی ہمدردی کا عدالت نے اظہار نہ کیا۔ بلکہ ایسی کسی دلیل کو نہ سنا گیا اور نہ ہی مانا گیا۔ پھر جب انہیں عدالت سے سینٹرل جیل ڈھاکا پہنچایا گیا تو جیل انتظامیہ نے تین گھنٹے تک انتظار میں بٹھائے رکھا۔ آخرکار بڑی مشکل سے فیملی کی درخواست پر انہیں ڈھاکا پی جی اسپتال کے قیدیوں کے لیے بنائے گئے سیل میں بھیجا گیا۔ یہ واقعہ پروفیسر غلام اعظم کے خاندان کے لیے بڑا دھچکا تھا۔

ایک اور واقعہ جو ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ۱۳جنوری ۲۰۱۲ء کی نصف شب کو، پروفیسر غلام اعظم کے گھر پر ۸۰سے ۱۰۰مسلح افراد، سات آٹھ منی بسوں میں سوار ہو کر آئے۔ یہ ’’واکی ٹاکی‘‘ پر مسلسل کسی سے رابطے میں تھے۔ یہ سہولت عموماً پولیس والوں کے پاس ہی ہوتی ہے۔ ان میں سے ۲۵ تا ۳۰ آدمی پروفیسر صاحب کی گلی میں گھس گئے اور لوگوں کو سوتے میں جگا کر پروفیسر صاحب کے گھر کی نشاندہی کروائی۔ پھر پروفیسر صاحب کے گھر کے گیٹ پر پہنچ کر چوکیدار سے گالم گلوچ کرنے اور اس کو گیٹ کھولنے پر مجبور کرتے رہے۔ اس کا بازو پکڑ کر باہر کھینچنے کی کوشش بھی کی۔ اس کے انکار پر گیٹ توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔اسی اثناء میں شور سُن کر اردگرد کے گھروں کے چوکیدار بھی وہاں پہنچ گئے۔ یوں یہ لوگ ناکام وہاں سے واپس لوٹنے پر مجبور ہو گئے۔ لوگوں کا اندازہ ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے، پروفیسر صاحب کے خاندان کو دہشت گردی کے ذریعے خوف میں مبتلا کرنے کا مقصد کارفرما تھا۔ یہ لوگ اگر مکان کے اندر گھسنے میں کامیاب ہو جاتے تو لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے ساتھ جسمانی نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہ کرتے۔

بزرگ پروفیسر غلام اعظم کی کردار کشی اور ان کو عام لوگوں کی نظروں میں گرانے کے لیے ایک اور ڈرامہ رچایا گیا۔ یہ ۱۷؍جنوری ۲۰۱۲ء کا واقعہ ہے کہ پچاس سالہ ایک خاتون پروفیسر صاحب کے’’سیل‘‘ کے باہر جیل حکام سے مطالبہ کررہی تھی کہ مجھے پروفیسر صاحب سے ملنے دیا جائے۔ یہ میرے باپ ہیں، میں ان کی بیٹی ہوں اور ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ اس نے اپنا نام ’’ازمیرہ سلطانہ‘‘ بتایا۔ اس واقعہ کی خبر ملتے ہی پروفیسر صاحب کے صاحبزادے عبداللہ الامان اعظمی وہاں پہنچ گئے اور سختی سے اس کے مؤقف کی تردید کی اور کہاکہ ہماری توکوئی بہن نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنی بات پر مُصر رہی، بلکہ اس نے اپنے ’’ڈی این اے ٹیسٹ‘‘ کی پیشکش بھی کی۔ پروفیسر صاحب کے بیٹے نے کہا کہ یہ ناٹک کر رہی ہیں۔ اس طرح وہ زیادہ دیر تک اپنے مؤقف پر ثابت قدم نہ رہ سکی اور اس نے کہنا شروع کردیا کہ میرے والدکا نام صادق الرحمن خان ہے اور میرے بھائی بہن کہتے ہیں کہ ۹۶۔۱۹۹۵ء کے درمیان ان کا انتقال ہوا ہے۔ لیکن مجھے اس پر یقین نہیں آتا۔ پروفیسر غلام اعظم کی گرفتاری کے بعد، اخبارات میں جو اُن کی تصویر چھپی ہے، اسے دیکھ کر مجھے لگاکہ یہی میرے والد ہیں۔ اس لیے میں انہیں ملنے آگئی۔ یہ کہہ کر وہ ایسی غائب ہوئی کہ پھر کبھی نظر نہیں آئی۔

۲۸ جنوری ۲۰۱۲ء کو، عوامی لیگ کے حامی اور بھارت نواز ایک بنگلہ روزنامہ میں یہ خبر چھپی کہ پروفیسر غلام اعظم نے اپنے ’’سیل‘‘ میں بھوک ہڑتال کی دھمکی دے کر جیل انتظامیہ کو مجبور کیا کہ وہ ان کی پسند کا کھانا دے۔ پروفیسر صاحب کی اہلیہ محترمہ عفیفہ اعظم نے اپنے ایک اخباری بیان میں اس خبر کو مکمل طور پر جھوٹ،بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا۔ انہوں نے پرزور الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر صاحب کو جو لوگ جانتے ہیں، انہیں بخوبی معلوم ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیااور نہ وہ بھوک ہڑتال جیسا حربہ استعمال کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ خبر پروفیسر صاحب کی کردارکشی کی مہم کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس اخبار کی انتظامیہ کو ’’زرد صحافت‘‘ کی سی حرکتوں سے باز رہنے کو کہا۔ اس ’’زرد صحافت‘‘ نے یہ خبر بھی شائع کی کہ پروفیسر صاحب کو اپنی داڑھی کا خط بنانے کے لیے آئینہ اس لیے نہیں دیا جارہا کہ کہیں وہ اس سے اپنے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا لیں۔ محترمہ عفیفہ اعظم کا کہنا ہے کہ ہماری درخواست پر جیل انتظامیہ نے پروفیسر صاحب کو آئینہ مہیا کردیا تھا۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ ہمارے ملک کی یہ’’زرد صحافت‘‘ کس قدر جھوٹ کا پلندہ باندھتی ہے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب کو جیل کے اندر قید تنہائی میں بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ مثلاً چند دن پہلے وہ پی جی اسپتال کے اپنے قیدی سیل کے باتھ روم میں گر گئے۔ دیر تک خود اٹھنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اٹھ نہ پائے۔ اسی کشمکش میں ان کے گھٹنے زخمی ہو گئے۔ آخرکار جب انہوں نے دیکھا کہ وہ خو د سے اٹھ نہیں پا رہے تو چیخ کر سیکورٹی کے عملہ کو آوازیں دیں۔ جس پر انہوں نے آکر انہیں اٹھا یا اور بیڈ پر لٹایا۔ ان کے صاحبزادے جب ان سے ملنے گئے تو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہا کہ یہ دن میری زندگی کا بھیانک دن تھا۔ ان کے بیٹے ریٹائرڈ بریگیڈیئر عبداللہ الامان اعظمی کا کہنا ہے کہ میرے والد بہت دبلے ہوگئے ہیں اور ایسا، غیر معیاری کھانے کے مسلسل استعمال سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کی زندگی خطرے میں محسوس ہو رہی ہے۔

۱۵ فروری ۲۰۱۲ء کو نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں پروفیسر صاحب کی ضمانت کی درخواست کی سماعت تھی۔ اس پر دو گھنٹہ تک بحث ہوتی رہی۔ ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے عدالت سے کہاکہ غلام اعظم نے ۱۹۷۱ء میں کوئی جنگی جرم نہیں کیا۔ انہی الزامات کے تحت جب پروفیسر صاحب کی بنگلہ دیشی شہریت ضبط کی گئی تھی تو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ان الزامات کو رَد کرتے ہوئے ان کی شہریت کو بحال کردیا تھا۔ اب انہی پرانے الزامات پر یہ نیا مقدمہ بنایا گیا ہے۔ جس کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں بنتی۔ لہٰذا ۹۰ سالہ عمر رسیدہ ایک بے گناہ آدمی کو اس طرح جیل میں ڈالے رکھنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ بیرسٹر عبدالرزاق نے عدالت کو باور کروانے کی کوشش کی کہ پروفیسر غلام اعظم ایک مشہور سیاست دان ہی نہیں بلکہ وہ ایک اعلیٰ پائے کے مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے ایک سو سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مختلف نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ گرفتاری سے قبل باقاعدہ ایک میڈیکل بورڈ کی زیر نگرانی ان کا علاج جاری تھا اور خاندان کے لوگ بھی دیکھ بھال میں لگے رہتے تھے۔ لیکن گرفتاری کی صورت میں وہ ان تمام سہولتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قید میں ان کی صحت بہت گر گئی ہے۔ اس دوران بیرسٹر عبدالرزاق نے عدالت کے سامنے پروفیسر غلام اعظم کی اہلیہ کی طرف سے دو درخواستیں پڑھ کر سنائیں۔ ایک میں اُن کی اہلیہ نے لکھا تھا کہ اگر ان کی ضمانت پر رہائی نہ ہوئی تو جیل میں ان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ نیز بیرسٹر عبدالرزاق نے عدالت کے اندر ’’وہیل چیئر‘‘ پر بیٹھے پروفیسر غلام اعظم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، تینوں ججوں کو متوجہ کیا اور کہاکہ ۱۱ جنوری ۲۰۱۲ء کو آپ کی عدالت میں پیش ہونے والے غلام اعظم اور آج کے غلام اعظم میں فرق آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور محسوس بھی کرسکتے ہیں۔
دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ٹریبونل کے سربراہ نے کہاکہ ہمیں بہت ساری چیزوں کو دیکھنا ہوگا۔ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ لہٰذا ہم اپنا فیصلہ ۲۳ فروری کو سنائیں گے۔ لیکن اس دن ان کو ضمانت پر رہا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ بیمار اور عمر رسیدہ ہونا ضمانت پر رہا ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘ نے جنگی مجرم کے ٹرائل کے نام پر ایک عجیب تماشا لگا رکھا ہے۔ یہاں انصاف کا کم سے کم معیار بھی نظر نہیں آتا۔ ان کی حرکتوں سے صاف پتا چلتا ہے کہ ٹریبونل حکومت کے اشاروں پر ناچ رہا ہے اور حکومت انتقامی جذبہ کی تسکین اور بھارت کی خوشنودی کے حصول کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کے عوام کی نظروں میں یہ ٹریبونل ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی عدلیہ پر اس سے زیادہ سیاہ دھبّا کبھی نہیں لگا ہوگا جیسا اس ٹریبونل کی کارروائی سے لگ رہا ہے۔
اس ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘ کی کارروائی کے آغاز سے پہلے بنگلہ دیش کی حکومت نے امریکا سے مشاورت بھی کی تھی۔ ۱۷ جون ۲۰۰۹ء کو بنگلہ دیش میں اس وقت کے امریکی سفیر مسٹر موری آرٹی نے ایک خفیہ پیغام واشنگٹن بھیجا جس کا اب ’’وکی لیکس‘‘ نے انکشاف کر دیا ہے۔ اس میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار ساؤتھ سینٹرل ایشین افیئرز، مسٹر رابرٹ بلیک (Blakes) جب ڈھاکہ کے دورہ پر آئے تو بنگلہ دیش کی وزیر داخلہ ایڈووکیٹ سہارا خاتون ان سے ملیں۔ انہوں نے مسٹر بلیک سے کہاکہ ہم جنگی مجرموں کا ٹرائل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہماری حمایت کریں۔ جواب میں مسٹر بلیک نے کہایہ ایک حساس معاملہ ہے۔ اس کے لیے ٹریبونل بین الاقوامی معیار کے مطابق اور سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے۔ انہوں نے متنبہ کیاکہ اگر یہ اپنی شرائط پر پورا نہ اترا تو آپ کے ملک کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ کمزور ہوسکتا ہے۔جواب میں سہارا خاتون نے کہا کہ یہ ہمارا آپ سے عہد ہے کہ ہم بین الاقوامی اور اپنے قومی معیار کو برقرار رکھیں گے اور اس کے لیے کھلی عدالت کا اہتمام بھی کریں گے۔ مسٹر بلیک نے اس ٹرائل سے بنگلہ دیش کے سیاسی کلچر کے بدنام ہونے کے خدشہ کا اظہار بھی کیا۔ اس میٹنگ میں سیکرٹری داخلہ عبدالسبحان شکدر بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی مسٹر بلیک کو یقین دلایاکہ ٹرائل بین الاقوامی معیار کے مطابق اور کھلی عدالت میں ہوگا۔ بنگلہ دیش میں امریکی سفیر نے اپنے پیغام کے آخر میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ بنگلہ دیش کی حکومت جو وعدہ کررہی ہے کیا وہ اپنا یہ وعدہ پورا بھی کر پائے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۸ اپریل ۱۹۷۳ء کو مجیب حکومت نے جس سرکاری فرمان کے ذریعے پروفیسر غلام اعظم کی شہریت ختم کی تھی، اس میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ پروفیسر صاحب نے ۱۹۷۱ء میں انسانیت کے خلاف کسی قسم کا کوئی جرم کیا تھا جس کی وجہ سے اُن کی شہریت ختم کی جاتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پروفیسر غلام اعظم اور ان کے ساتھ مزید جن ۳۸ لوگوں کی شہریت ختم کی گئی تھی، انسانیت کے خلاف کسی قسم کے جرم کا کوئی الزام اُس وقت بھی اُن پرنہ تھا۔ صرف سیاسی اختلاف کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ شہریت سے کسی کو محروم کرنا کوئی معمولی بات نہیں، یہ ایک سنگین معاملہ ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب اس وقت بنگلہ دیش میں نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ۲۰.نومبر ۱۹۷۱ء کو، عیدالفطر سے ایک دن پہلے، میں ڈھاکا سے لاہور پہنچا۔ مجھے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد میں صدر یحییٰ خان سے ملنے گیا۔ مجھے ان سے یہ کہنا تھا کہ آپ پاکستان کے صدر ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ وہاں کیوں نہیں جاتے! آپ نے وہاں پر ٹکا خاں کو بٹھا رکھا ہے۔میں کئی دن انہی مصروفیات میں پھنسا رہا۔۳.دسمبر کومیں پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے کراچی سے ڈھاکا روانہ ہوا۔یہ پی آئی اے کی آخری فلائٹ ثابت ہوئی۔لیکن یہ بھی ڈھاکا نہ پہنچ سکی۔ بلکہ ہم کولمبو پہنچ گئے۔ یہ اس لیے ہوا کہ اسی دن بھارتی فضائیہ نے بمباری کرکے ڈھاکا ایئرپورٹ کو تہس نہس کردیا تھا۔ اس تباہی کے سبب ہماری فلائٹ کے لیے ڈھاکا میں اترنا ناممکن ہو گیا تھا۔پھر ان دنوں بھارت نے اپنی ہوائی حدود، پاکستان کے لیے بند بھی کر رکھی تھیں۔ لہٰذا سری لنکا سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔ اس پر دوگنا وقت لگتا تھا۔ بعد میں پی آئی اے کی اعلیٰ اتھارٹی کی ہدایات کے مطابق ہمارے جہاز کو جدہ پہنچادیا گیا۔ ۱۰؍دسمبر کو بھارت اور پاکستان میں ایک دن کے لیے جنگ بندی ہوئی تاکہ پھنسے ہوئے غیر ملکی لوگ نکل سکیں۔ اس دن ہم اپنے جہاز میں بیٹھ کر جدہ سے کراچی واپس پہنچے۔ اس کے بعد ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگلہ دیش بنا اور رابطوں کے تمام ذرائع منقطع ہو گئے۔
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ جنوری ۱۹۷۶ء میں جب وہ پاکستانی پاسپورٹ پر لندن میں تھے تو بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے اعلان کیاکہ مجیب حکومت میں جن کی شہرت ختم کردی گئی تھی وہ اگر شہریت لینا چاہتے ہیں تو بنگلہ دیش کے سیکرٹری وزارتِ خارجہ کو براہ راست درخواست دیں۔ اس پر میں نے درخواست لکھی۔ لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ اس کے بعد میں نے ویزا کے لیے درخواست دی تو ایک مہینے کا ویزا مل گیا۔ میں بنگلہ دیش پہنچ کر اپنے گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے لگا۔ میرا مؤقف تھا کہ یہ مکان میرا ہے۔ یہ میرے نام پر ہے۔ میں اس کا میونسپل ٹیکس دیتا ہوں۔ لہٰذا مجھے یہاں سے جبراً نکالا نہیں جاسکتا۔ یہ میری جنم بھومی ہے۔ میں یہیں پیدا ہوا ہوں۔ مجھے یہاں سے بے دخل کرنے کی،حکومت نے بہت کوشش کی۔ لیکن میں ثابت قدم رہا۔ حکومت نے پاکستانی ہائی کمیشن سے بھی درخواست کی کہ وہ مجھے واپس لے لے۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے جواب دیا کہ جب وہ یہاں سے نہیں جانا چاہتے تو ہم کیسے لے جاسکتے ہیں۔

آخرکار ۱۹۹۱ء میں بی این پی حکومت نے مجھے غیر ملکی ہونے کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا۔ میں نے ہائی کورٹ میں دو ’’رٹ پٹیشن‘‘ کیں۔ ایک اپنی رہائی کے لیے اور دوسری اپنی شہریت کی بحالی کے لیے۔ میں ۱۶ ماہ تک جیل میں رہا۔ جب حکومت اپنا موقف ثابت کرنے میں ناکام ہوئی تو جون ۱۹۹۳ء میں عدالت نے مجھے رہا کردیا۔ لیکن اس وقت بھی میری شہریت کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ میرا یہ کیس ہائی کورٹ کے دورکنی بنچ کے سامنے پیش ہوا۔ وہاں سے منقسم فیصلہ آیا۔ اس کے بعد جب تیسرے جج کی عدالت میں کیس گیا تو اس نے میری شہریت کی بحالی کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس پر حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی فل بنچ میں میرے کیس کی سماعت ہوئی۔ ۲۲ جون ۱۹۹۴ء کو اس بنچ نے متفقہ طور پر میرے حق میں فیصلہ دیا۔ جس سے میری شہریت بحال ہوگئی اور شیخ مجیب حکومت کا حکم نامہ منسوخ قرار پایا۔ یوں ۲۱ سال بعد مجھے میری شہریت واپس ملی۔پروفیسر غلام اعظم اور ان کے ساتھ جن ۳۸ آدمیوں کی شہریت ختم کی گئی تھی، آج ان پر جو الزام لگایا جا رہا ہے، اگر ان کا یہ جرم ہوتا تو مجیب حکومت اسی کو بنیاد بنا کر ان کی شہریت ختم کرتی۔

یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ۴۰ سال میں، پروفیسر غلام اعظم اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کے خلاف کسی قسم کا کوئی فوجداری کیس، نہ حکومت کی طرف سے اور نہ ہی کسی شہری کی طرف سے دائر کیا گیا۔ بنگلہ دیش کے کسی بھی تھانہ میں کوئی ایف آئی آر تک درج نہ ہوئی۔ ان ۴۰ برسوں کے دوران عوامی لیگ دو بار حکومت میں آئی، لیکن جماعت کی قیادت کے خلاف اس طرح کا کوئی سنگین الزام ان ادوار میں بھی نہیں لگایا گیا۔ مگر ۲۰۰۹ء میں جب یہ تیسری بار اقتدار میں آئی ہے تو جماعت کی قیادت پر ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ جیسے سنگین مقدمات بنانا شروع کردیے ہیں۔
 آخرایسا کیوں کیا جا رہا ہے ؟ اپنے ایک انٹرویو میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر غلام اعظم کہتے ہیں کہ ایسا سیاسی انتقام کی خاطرہو رہا ہے۔ حکومت، جماعت کو بے دست و پا کرکے، اپنے خلاف سیاسی اتحاد کو ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ تادیر اقتدار میں رہ سکے۔
انہوں نے کہاکہ ۲۰۰۱ء میں جو انتخابات ہوئے تھے، ان میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ چھوٹی دو پارٹیوں کے اتحاد نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان انتخابات کے نتائج کی روشنی میں کئی حقائق منظر عام پر آئے۔ ان انتخابات میں بی این پی نے ۲۵۰ سے زائدنشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جبکہ اس کی اتحادی، جماعت اسلامی اور دیگر دو چھوٹی جماعتوں نے ۵۰ سے بھی کم نشستوں پر الیکشن لڑا تھا۔ یوں ان کے ووٹ بنک سے بی این پی کو فائدہ پہنچا۔ اور وہ ۱۹۷ نشستوں پر کامیاب ہوگئی جبکہ عوامی لیگ ۳۰۰ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے باوجود صرف ۵۸ نشستوں پر کامیاب ہوسکی۔ عوامی لیگ سمجھتی تھی کہ اس کا سبب بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر دو چھوٹی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ لہٰذا اس نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا پروگرام بنالیا ہے۔ یعنی جماعت اسلامی کو ختم کرکے، بی این پی کے ساتھ اس کے اتحاد کو بھی ختم کردیا جائے۔
پروفیسر غلام اعظم نے مزید کہاکہ اس اتحاد کی حالیہ کامیابی بھی اس کی واضح مثال ہے۔ جیساکہ چٹا گانگ میں میئر شپ کے انتخابات میں (جو عرصہ سے عوامی لیگ کے قبضہ میں تھی) جماعت نے بھی اپنا امیدوار کھڑا کیاتھا۔ لیکن بیگم خالدہ ضیا کی درخواست پر اسے دستبردار کرکے، بی این پی کے امیدوار کی حمایت کی تو وہ ایک لاکھ دس ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوگیا۔ پھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں کہ یہاں جب ہم بی این پی سے مل کر لڑے تو بی این پی کا نمائندہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگیا۔ مختلف بار ایسوسی ایشنز اور ٹیچر ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں بھی اسی طرح کے نتائج برآمد ہوئے۔

یوں عوامی لیگ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ جہاں بھی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی ہوگی، وہاں عوامی لیگ کی شکست یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت نے، جماعت اسلامی کو سیاست سے اکھاڑ پھینکنے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ وہ شکست سے بچ سکے۔ جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کا الزام ۲۰۰۱ء کے الیکشن سے پہلے کبھی بھی عوامی لیگ کی زبان پر نہیں آیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ۱۹۵ جنگی مجرموں پر مقدمہ چلانے کے لیے جوقانون بنایا گیا تھا، وہی قانون اب جماعت کی قیادت کے خلاف استعمال کیا جارہاہے۔
پروفیسر غلام اعظم نے گرفتار ی سے کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کئی انٹرویوز دیے ہیں جن میں انہوں نے بہت سی باتیں کہی ہیں۔ ان سے کیے گئے بہت سے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش موومنٹ کے دوران آپ بھارت کیوں نہیں گئے؟ کیا آپ کے لیے بھارت جانا ممکن نہیں تھا؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب نے کہا کہ عوامی لیگ کے لوگوں نے بھارت جاکر بنگلہ دیش کی آزادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ تاج الدین احمد کی قیادت میں عوامی لیگ کے رہنما اندرا گاندھی سے ملے تو اس پر ہم لوگ بہت فکرمند ہوگئے۔ کیونکہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ، بھارت نے جو سلوک کیا وہ کوئی دوستانہ نہیں تھا۔ ہمیں پورا یقین تھاکہ بھارت کی مدد سے ہمیں کسی قسم کی آزادی نہ ملے گی۔ ہو سکتا ہے کہ ہم مغربی پاکستان سے الگ ہوجائیں۔ لیکن بھارت ہمیں صحیح معنوں میں آزاد ہونے نہیں دے گا بلکہ اپنا تسلط جمالے گا۔ بنگلہ دیش کے وجودمیں آنے کے بعد، آج یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ ہمار ا خدشہ صحیح تھا۔ بھارت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ ہماری آزادی کے حق میں نہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش کو کسی قسم کا فائدہ پہنچائے بغیر، اس سے اپنا ہر قسم کا مفادپورا کر رہا ہے۔ ہمیں پورا یقین تھاکہ بھارت کی مدد سے ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں آزاد نہ ہو پائیں گے۔ لہٰذا ہم کس امید سے بھارت جاتے؟ انہوں نے کہاکہ بھارت نے ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی تحریک کی حمایت تین مقاصد کے تحت کی تھی۔
۱۔ اپنے ناپسندیدہ ملک پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کو کمزور کرنا۔
۲۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرکے اس کو بھارت کی تجارتی منڈی بنانا۔
۳۔ جغرافیائی لحاظ سے بنگلہ دیش بھارت کے پیٹ میں ہے۔ لہٰذا اس کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے سے اس پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بھارت کے یہ تینوں مقاصد پورے ہوگئے ہیں اور اب بھارت نے بنگلہ دیش پر اپنا سکہ چلانا شروع کر دیا ہے۔ بھارت کو اپنے مشرقی حصے تک آسان رسائی اور قریب ترین راستہ (Transit Root) چاہیے تھا، وہ مل گیا۔ ’’ایشین ہائی وے‘‘ بھی اُن کی مرضی کے مطابق بن رہی ہے۔ اس نے ہمارے دریاؤں کے پانیوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ بھارت ہمارے ساتھ کیا کرے گا۔ اس لیے ہم نہ بھارت گئے اور نہ ہی اس کی آشیرباد سے چلنے والی ’’بنگلہ دیش موومنٹ‘‘ کا حصہ بنے۔ بھارت نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اس نے ہماری محبت یا دوستی میں یہ سب کچھ نہیں کیا، بلکہ اس نے یہ سب کچھ اپنے مفاد میں کیا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان آرمی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد، بھارتی فوج، تمام فوجی سازوسامان (جو اَربوں روپے کی مالیت کا تھا) لُوٹ کر اپنے ساتھ بھارت لے گئی۔ حالانکہ یہ سب بنگلہ دیش کا اثاثہ تھا۔

بنگلہ دیش کے ایک نجی ٹی وی کے اینکر پرسن نے پروفیسر غلام اعظم سے سوال کیا کہ ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘ میں آپ کے خلاف ۵۲ الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہیں گے؟ پروفیسر صاحب نے کہاکہ یہ الزام نہیں ہیں، بلکہ یہ سب تہمتیں ہیں۔ جو لوگ مجھ پر یہ تہمتیں لگا رہے ہیں، وہ عدالت میں انہیں ثابت نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ یہ تو سراسر جھوٹی ہیں۔ میں چیلنج کرکے کہتا ہوں کہ یہ لوگ ان شاء اللہ ان کو کبھی بھی ثابت نہیں کر پائیں گے، وہ جتنا جی چاہے تہمتیں لگائیں، لیکن وہ ہرگز ثابت نہیں کرسکیں گے۔ یہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں۔ یہی باتیں میری شہریت کی بحالی کے کیس میں بھی کہی گئی تھیں۔ لیکن وہاں بھی کوئی انہیں ثابت نہیں کرسکا تھا۔

پروفیسر غلام اعظم سے ایک اورسوال کیا گیا کہ آپ نے ۱۹۷۱ء میں جو کردار ادا کیا تھا، کبھی آپ کو احساس ہوا کہ وہ غلط تھا؟ پروفیسر صاحب نے بے ساختہ جواب میں کہا کہ نہیں، میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو مجھے کرنا نہیں چاہیے تھا۔ ان سے مزید سوال کیا گیا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے آپ کے خلاف جو الزامات ہیں، کیا ان پر آپ اپنے ضمیر کے سامنے شرمندگی محسوس کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ جس سے میں اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ ہوں۔ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس پر عوام سے معافی مانگنا پڑے۔ یہ تو الزامات ہیں، ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ میں نے کہا ناکہ یہ سب تہمتیں ہیں۔ میں نے انسانیت کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ یہ لوگ، یہ سب باتیں جان بوجھ کر کررہے ہیں اور ہمیں ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا، کیونکہ یہ تو پہلے ہی سے طے شدہ ہے۔ ٹریبونل میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو سارے کا سارا ڈرامہ ہے۔ پٹ سن کا وزیر کہہ چکا ہے کہ ’’ٹریبونل کی کیا ضرورت ہے ! بس پھانسی دے دو‘‘۔


....اور 90 سالہ ضعیف العمر بزرگ ”پروفیسر غلام اعظم “ کو 90 سا ل کی قید و بند کی صعوبتوں کی سزا سنادی گئی۔
اِنَّا  لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنo


مصنف :           ایس ۔اے۔جہاں /یوسف ابن حیدر
بشکریہ :          اسلامک ریسرچ اکیڈمی ۔کراچی


ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]