میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

لہو رنگ آنچل کو پھیلائے رکھنا !!!

بہت کم لوگ اس تلخ حقیقت سے واقف ہوں گے کہ پاکستان کا پہلا صدر مملکت بنایا جانے والا شخص اسکندر مرزا ،اسی بدنام زمانہ ننگ ملت، ننگ ادم، ننگ دین، غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا ،جس نے قوم و ملت کے سپاہی شیر بنگال نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیز آقاؤں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ گورے آقاؤں نے چن چن کر ایسے”با صلاحیت کرداروں ” کو اہم عہدے دلوائے جن میں ان کی فرمانبرداری اور ملک و ملت سےغداری کے سارے جراثیم موجود ہوں۔

 سو عالمی فتنہ گروں نے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بھی ان سے سر کا خطاب پانے والے چوہدری ظفر اللہ جیسے اس  قادیانی زندیق کو بنوایا جس نے بابائے قوم قائد اعظم ؒ کا جنازہ پڑھنے سے صاف انکار کر دیا۔ سامراج اور مغربی صلیبی طاقتوں کے پرورداہ ان سب غداروں کی کالی کرتوتوں کی بدولت تاریخ میں سولہ دسمبر 1971ء کا سیاہ ترین دن ملت اسلامیہ اور پاکستانی قوم کی ذلت و رسوائی کی شرمناک داستان بن کر آج بھی کلیجہء مسلم سلگا رہا ہے۔

 محمد شاہ رنگیلے کے فطری وارثین، میر جعفر و صادق کے ازلی پیروکار سیاہ ست دانوں، حکمرانوں اور شراب و شباب میں ڈوبے جنرل رانی برانڈ جرنیلوں نے قوم و ملت کے ماتھے پر ایسا بدنما و بدصورت داغ لگایا جو دمِ حشر نہ دھلے گا نہ مٹے گا۔ دھرتی سے کی گئی غداریوں کے صلے میں انگریزوں کی عطا کردہ جاگیروں کو بچانے کیلئے مر مٹنے والے کچھ جاگیرداروں اور کسی بھی قیمت پر حصول اقتدار کیلئے سرگرم سیاستدانوں کی مشرقی بنگال میں لگائی ہوئی آگ ایک شرابی مسخرے جرنل یحیی خان اور اس کے ناعاقبت اندیش ٹولے نے پٹرول سے بجھانے کی کوشش میں بھڑکتا ہوا تندور بنا دی۔ قحبہ خانے چلانے والی جنرل رانی جیسی فاحشائیں ہندوآتہ اور سامراج کی آلہ کار بن کر ایوانان اقتدار پر قابض مدہوش عاشقوں کے فیصلے خود لکھتی رہیں۔ اور پاک دھرتی کا مقدس بدن دو لخت ہو کر قوم کا کلیجہ چاک چاک کر گیا۔


تاریخ ِاسلام میں کالے حروف سے لکھی گئی شرمناک شکستوں کے احوال پڑھ کر آج بھی مسلمانوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ نئی نسل بھول چکی ہو گی مگر سقوط مشرقی پاکستان کے وقت اوباش جرنیلوں کے ہاتھوں پاکستانی قوم اور اسلامی تاریخ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذلت کے سائے، دلدوز و تلخ یادیں، دردناک احساس اور کرب محبان پاکستان کے دل و دماغ میں آج بھی موجود ہے۔ اس روز مشرقی و مغربی بنگال سے لیکر پنجاب اور بحیرہء عرب کے ساحلوں سے لیکر پختون خواہ کوہساروں تک کے مسلمانوں کی قربانیوں اور خونِ جگر و دل سے معرض وجود میں آنے والا پاکستان دولخت ہو گیا۔ پاکستان کے آدھے وجود کی شہادت پر نوے ہزار فوجی اپنے بدترین اور ازلی و ابدی دشمن بھارت کی قید میں چلے گئے۔ میں اہل حق لکھاریوں کے اس موقف سے کلی متفق ہوں کہ شکست کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیل اور انتخابات کا لازمی جزو ہو سکتا ہے مگر حق و باطل کے معرکہ اور بقائے قوم و ملت کی جنگ میں شکست کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ معرکہء بدر و حنین ہو یا فتح بیت المقدس اور ہسپانیہ کے خونی ٹکراؤ، اسلامی نظریاتِ حق کے مطابق جنگ صرف اور صرف فتح و نصرت کے لئے لڑی جاتی ہے۔
 آٹھویں صدی عیسوی میں ہسپانیہ (اسپین) میں اسلام دشمن عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپی سرزمین پر مسلم اقتدار کا آغاز کرنے والے طارق بن زیاد نے ساحل پر کشتیاں جلا کر یہ ایمان افروز درسِ جہاد دیا کہ جنگ کا انجام صرف فتح یا موت ہے، حق وباطل کے معرکہ میں کسی کلمہ گو کے پاس ان دو کے سوا کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں۔ تاریخ بار بار یاد دلاتی ہے کہ بزدلانہ شکست کی ذلت سے عزت و غیرت کی موت کہیں بہتر ہے۔ سلطان ٹیپو شہید نے میسور کی جنگ میں اپنے کلماتِ فطرت ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ” کو جان دے کر سچ کر دکھایا۔ تاریخ اسلام کے سانحات و سقوط ہمیں بار بار یاد دلاتے ہیں کہ بزدلانہ شکست تسلیم کرنے والے عیاشوں اور ننگ دین و ملت غدارینِ امتوں کا انجام ہمیشہ دردناک اور عبرت ناک ہوا ہے۔ مستعصم بالله وہ آخری عباسی خلیفہ تھا جس کے دور میں اسی کے ایک شیعہ وزیر ابن علقمی کی دعوت پر ہلاکو خان کی ظالم منگول فوجوں نے وحشیانہ انداز میں حملہ آور ہو کربغداد کو تباہ و برباد کیا تھا۔ تاریخ نوحہ خواں ہے کہ ہلاکو نے اپنی فتح کے بعد پورے شہر بغداد کو آگ لگا کر لاکھوں مسلمانوں کو انتہائی بے دردی و سفاکی سے قتل کر دیا۔ آہ کہ خون مسلم سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا تھا۔ ہلاکو کے سامنے خلیفہ مستعصم بااللہ کو پیش کیا گیا تو خلیفہ فاقے سے بے حال تھا۔ ہلاکو خان نے اسی کے خزانے سے لوٹے ہوئے ہیرے جواہرات اور طلائی زیورات طنزاً ایک طشتری میں رکھ کر کھانے کیلئے پیش کئے تو خلیفہ نے کہا کہ مجھے کھانا چاہیے، میں ہیرے جواہرات کیونکر کھا سکتا ہوں؟ ہلاکو نے طیش میں آ کر وہ تاریخی الفاظ کہے جو بعد میں آنے والے تمام عیاش مسلم حکمرانوں کیلئے حروف سبق تھے۔ ہلاکو نے کہا کہ تم نے ان ہرے جواہرات اور طلائی زیورات کو اکٹھا کرنے کے بجائے اپنے دشمن کے ساتھ لڑنے کیلئے جنگی ساز و سامان کا انتظام کیوں نہ کیا، اگر تم نے اپنی سلطنت کی حفاظت کیلئے اس قیمتی خزانے کی بجائے اپنے لشکر و سامان حرب کی بہتری کا بندوبست کیا ہوتا تو آج یوں بے بس نہ ہوتے۔ اس کے بعد خلیفہ  کو ایک قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں کے سموں سے کچھ اس طرح ہلاک کیا گیا کہ خون کی ایک بوند تک زمین پر نہ گر سکے۔ خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹ  کر اس کے اوپر اس وقت تک گھوڑے دوڑائے گئے کہ جب تک ان کا قالین میں لپٹا جسم کچل کر قیمہ نہ بن گیا۔
 مسلم تاریخ کا ایک اور شرمناک و عبرت انگیز باب اندلس کی وہ شکست ہے جس کے بعد مغرب میں ا سپین، پرتگال اور فرانس کے خطوں پر مشتمل عظیم الشان مسلم سلطنت اندلس کے آٹھ سو سالہ سنہری اقتدار کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ تاریخ کے راقم لکھتے ہیں کہ وہ دن سب مسلمانوں پر بڑا بھاری تھا ۔ وہ سقوط غرناطہ کی پہلی شام تھی جو مسلمانوں کیلئے کبھی نہ ختم ہونے والی طویل ترین خونی شب کا آغاز ثابت ہوئی۔ آہ کہ اس شبِ کرب و بلا کی تاریکی ابھی تک نہیں چھٹ سکی۔ اس منحوس دن کی شام پہلی بار مساجد سے اذان مغرب کی صدا کی بجائے چہار سو صرف قتل وغارت کا شکار تڑپتے اور سسکتے ہوئے نہتے مسلمانوں کی چیخ پکار سنائی دیتی تھی۔ ایک طرف حوا کی بے لباس مسلمان بیٹیاں اپنی عزتیں بچانے کیلئے پناہ کی تلاش میں بھاگ بھاگ تھک کر عیسائی فوجیوں کی جنسی بربریت کے سامنے بے یارومددگار لٹ رہی تھیں ۔
 دوسری طرف مشرقی پاکستان میں بھارتی بھیڑیوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے والےجرنیلوں جیسا غرناطہ کا بے غیرت حکمران ابو عبداللہ بابِ دل معاہدے کے تحت  ملکہ ازابیلا اور شہنشاہ فرڈ ننڈس کو شہر غرناطہ کی چابیاں پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ واہ رے مسلمانی کہ شکست خوردہ عیاش حکمرانوں کی طرف سے امت مسلمہ کی ذلالت و رذالت کی نمائش کا اہتمام پوری شہنشائی شان و شوکت سے کیا جا رہا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے آخری اندلسی حکمران ابو عبداللہ ، اس کے رنگیلے خاندان کے ننگ دین ارکان اور شراب و شباب کے رسیا درباری امرا، یوں اطلس و کمخواب کے زرق برق لباس  زیب تن کئے تھے کہ گویا عید و جشن فتح کا اہتمام ہو۔ شہر خون مسلم سے رنگین تھا مگر اندلس کی شکست خوردہ فوج کے سپہ سالاروں کے زرہ بکتر سونے چاندی اور جواہرات کی رنگین لڑیوں سے چمک دمک رہے تھے۔ اور پھر تاریخ مسلم ایک بار پھر دہرائی گئی سقوط مشرقی پاکستان کے دلدوز موقع پر عیاش فوجی جرنیلوں نے ایک بار پھر سے اسلامی تاریخ کو داغدار کر دیا۔ اندلس کے شکست خوردہ حاکم ابو عبداللہ نے شہر کی چابیاں دشمنان ملت کے حوالے کیں تو اس کے ہم نام امیر عبداللہ نیازی نے نوے ہزار فوجی دستیاب ہونے کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا آدھا حصہ ” باعزت انداز” میں اپنے بدترین دشمن بھارت کے حوالے کر دیا۔ اس سانحہء عبرت کے بعد کئی روز تک ایک ہزار برس مسلمانوں کے غلام رہنے والے اسلام دشمن بھارتی جشن فتح مناتے ہوئے اب پورا پاکستان مٹا دیں گے کے دجالی نعرے لگاتے رہے۔ صد افسوس کہ پاکستان کا بےغیرت جرنیل امیر عبداللہ خان نیازی ملی بے حمیتی اور اخلاقی پستی میں غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ سے بھی چند قدم آگے نکل گیا ۔ نگاہ فلک نے یہ تماشہ بھی دیکھا کہ کلف لگی وردی اور سبز ہلالی ٹوپی کی کلغی میں ایک بے غیرت مرغے نے خود ائرپورٹ جا کرفاتح بھارتی جرنیل اروڑہ کا استقبال کیا۔ بھارتی جرنل اجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے سرنڈر سے قبل شکست کی دستاویزات کی تیاری کیلئے اروڑہ کا نمائندہ آیا تو جرنل نیازی اسے فحش لطیفے سناتا یا خوش گپیاں کرتا نظر آیا۔ احباب تاریخ مسلم گواہ ہے کہ ابو عبداللہ اندلسی نے سقوط غرناطہ کے بعد ندامت یا سلطنت چھن جانے کے غم میں چند آنسو ضرور بہائے تھے۔ مگر غیرت سے عاری  جنرل امیر عبداللہ نیازی کو پوری زندگی امت کی عزت و آبرو اپنے مکار دشمن کے سامنے گروی رکھنے کا کچھ افسوس نہ ہوا۔ بے شرمی اور بے غیرتی کی انتہا یہ تھی کہ وہ مرتے دم تک بڑے فخر سے کہتا رہا کہ نوے ہزار فوجیوں کو زندہ سلامت نکال لانا میرا ہی کارنامہ ہے۔ کالم نگار فضل حسین اعوان لکھتے ہیں کہ جب جنرل نیازی بھارتی جنرل کو اپنا پستول پیش کر رہا تھا تو ایک بنگالی مسلمان نے ان کے سر پر جوتے مارتے ہوئے کہا کہ اگر تم میں ذرا بھی غیرت ہوتی تو آج مر جاتے مگر دشمن کے سامنے ہتھیار نہ پھینکتے۔ کاش یہ بنگالی مسلمان ہی غیرت سے عاری پاکستانی جنرل کو گولی مار دیتا۔ قابل صد لعنت کہ جنرل نیازی انتہائی ڈھٹائی سے ہتھیار ڈالنے کے جواز میں ”حاکم وقت کا حکم تھا اسلام میں امیر کی اطاعت واجب ہے تاریخ میں امیر کی حکم عدولی کی مثال نہیں ملتی۔“ کے خودساختہ و بزدلانہ کلمات ادا کرتا رہا۔ دراصل بات اس ملی و قومی غیرت کی ہے جو اس جرنیل میں ہوتی تو مسلم اور غیر مسلم غیرت مند سپاہیوں کی تاریخ انگنت مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جنرل انامی کورے چیکا دوسری جنگ عظیم میں شکست خوردہ جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر تباہ کن ایٹمی حملوں کے بعد جاپان پر مزید ایٹمی حملوں کی دھمکی دے رکھی تھی۔ جاپانی شہنشاہ نے اپنے جنگی جرنیلوں کی طرف سے جنگ جاری رکھنے کی تجویز سے اتفاق نہ کیا اور ذاتی فیصلے کے تحت ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اس موقع پر کہا کہ ”ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے“ جنرل انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن اس کے بعد جو کچھ اس باغیرت جنرل انامی نے کیا وہ ایک بے غیرت جنرل نیازی کبھی نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز ہی جنرل انامی نے اپنے پستول سے خودکشی کر لی۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے ایک باوقار موت کا انتخاب کیا۔ کاش جنرل نیازی ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے۔

ہم بعد از مرگ بھی اس سانحہ مشرقی پاکستان کو بھول نہیں سکتے۔ ہم بھارتی بالادستی کو تسلیم کرنے والی امن کی آشا کو کلی مسترد کرتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان کے بعد سانحہء بلوچستان اور سانحہ کراچی کیلئے سرگرم مکار و عیار ہندو بنئے سے انتقام آج بھی ہم پر فرضِ عین کی حقیقت رکھتا ہے۔ سانحہ ڈھاکہ کے وقت ہماری حکومتی پالیسیوں اور سیاسی قائدین کی بے بصیرتی نے بنگالی مسلمان بھائیوں کو ہم سے متنفر کیا اور بھارتی مدد سے ہندوآتہ کی تشکیل دی گئی عسکری تنظیم مکتی باہنی کے ذریعے بنگلہ دیش بنایا۔ آج ہم امریکی مفادات کی جنگ میں کود کر راسخ العقیدہ مسلمان اور محبان وطن قبائلیوں کو ناراض کر رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہمارا اتحادی ہے تو دوسری طرف بلوچستان میں اسکا کردار بھارتی اتحادی اور بنگالی مکتی باہنی جیسا ہے۔ آج ہم سلالہ کے چوبیس شہادتوں کا خون بھلا کرعسکری قیادت کی طرف سے قومی امنگوں کی ترجمان موقف سے غداری کر چکے ہیں ۔ حقائق قومی فکر کے بند دروزے پر دستک دے رہے ہیں کہ ایک طرف امریکہ سے شمسی ائربیس خالی کرا لیا گیا مگر دوسری طرف اسلام آباد کا امریکی سفارت خانہ جنگی قلعے میں بدل رہا ہے۔ اشد ضروری ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی باقی حساس تنصیبات سے بھی لاتعلق کر دیا جائے۔ سیاسی و عسکری قیادت امریکہ کے سامنے ڈٹ جائے تو ڈرون حملے بھی بند ہوں اور عسکریت پسندوں کی انتقامی کارروائیاں بھی رک جائیں۔ بلا شبہ  بنگالی اس قدر بے قابو ہو چکے تھے کہ وہ فوج کی بات سُنتے تھے نہ سول انتظامیہ کی۔ مگر آج جو عسکریت پسند خود مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں انہیں ڈرون حملوں سے ندذن کر کے مذاکرات کی فضا مگدر کر دی جاتی ہے۔ یہ عیاں حقائق بھی قوم کے سامنے ہیں کہ جب بھی طالبان کو اعتماد میں لینے اور امریکہ سے جان چھڑانے کا موقع آتا ہے امریکی غاصبین اور ان کے آلہ کار کسی نہ کسی طرح مفاہمت اور امن قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی سازشی کاروائی کر دیتے ہیں۔

قوم اور قومی رہنماؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے جو اسلام دشمن امریکہ اور فتنہء عالم اسرائیل کی مدد سے مشرقی پاکستان کی طرز پر پاکستان میں ایک اور خون آشام سقوط کیلئے سرگرم ہے۔ گو کہ آج بھارت سے کشمیر کو آزاد کرانے، سیاچن کا قبضہ چھڑوانے اور پاکستان کا ایک بازو کاٹ ڈالنے کے انتقام کی سب باتیں الف لیلی کی داستان جیسی یا ناممکنات سی لگتی ہیں۔ لیکن باخدا یہ سب کچھ ناممکن ہرگز نہیں۔ آج بھی اس قوم کو ایک صالح اسلام دوست حکمران اور محب وطن قیادت مل جائے تو یہ سب عین ممکن ہے۔ اج اخلاقیات کی حدود سے مادر پدر آزاد ” مہذب امریکی سامراج” ، مغربی صلیبیوں اور بھارتی ہندوآتہ نے پاکستان سمیت ہر اسلامی ملک میں جدید مغربی غلاظت کی تقلید میں فحاشی اور بے غیرتی کی حدود عبور کرنے کیلئے بیتاب جنونی طبقے کو دین اسلام سے دور کرنے کیلئے اپنے زرخرید گماشتوں اور سیکولر فکری محاذ کا جال پھیلا رکھا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ تینوں اسلام دشمن عناصر ہر اسلامی ملک اور مسلم معاشرے میں اپنی پسند کا ماڈرن اسلام نافذ کرنے کیلئے ہر زرخرید پریس میڈیا، کٹھ پتلی سیکولر دانشوروں کے استعمال سمیت ہر طریقِ فتن و فتنہ آزما رہے ہیں۔ قرآن و رسالت، اسلامی شعائر اور مذہبی و اخلاقی اقدارکیخلاف، لادین این جی اومافیا، لبرل میڈیا کی ثقافتی یلغار ایک قلمی و نظریاتی صلیبی جنگ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ افسوس کہ اس جنگ میں ہماری ہی صفوں میں صلیبی قوتوں اور یہود و ہنود کے قلمی ہتھیار ایسے نام نہاد مسلمان بھی موجود رہتے ہیں جنہیں فرزندان توحید، مرزا غلام قادیانی، ملعون سلمان رشدی، لعنت رسیدہ تسلیمہ نسرین، سلمان تاثیر اور ننگ اسلام بنگالی احمد رجیب حیدر کے نام سے جانتے ہیں۔ کاش کہ بھارتی اور سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے قوم و ملت سے غداری کرنے والے اس حقیقت سے ہی سبق سیکھ لیں کہ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے تینوں مرکزی کرداروں اندرا گاندھی، مجیب اور بھٹو اور ان کے خاندان کی اموات غیر طبعی اور بھیانک انجام ایک جیسا عبرت انگیز تھا۔ مگر آج کے حکمرانوں، سب سیاست دانوں، پریس میڈیا اور مسخرے دانشوروں کیلئے سقوط مشرقی پاکستان سے بڑھ کر قابل تقریر و تحریر اور اہم سقوط مختاراں مائی اور سقوط ملالہ ہے۔ کیونکہ اسی سے ڈالروں کا حصول ممکن اور بقائے ہوس ، زندہ و تابندہ ہے۔
مصنف :           فاروق درویش ۔
حوالہ:             http://farooqdarwaish.com/blog/?p=5730         


ادارہ ”سنپ“ موصوف کا ہمہ تن مشکور وممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس ۔]شکریہ]