ایک جھوٹ جس پر مجھے فخر ہے ۔۔۔
۔۔۔ یونیورسٹی سے نکلتے ہی میں جلد از جلد گھر پہنچنا چاہ رہا تھا۔لمبے لمبے قدموں سے میں جیسے ہی عقبی دروازے سے نکل کر چوک کی طرف آیا تو
مجھے مشہور و معروف فاسٹ فوڈ شاپ کے برابر میں فاطمید فاؤنڈیشن کے کیمپ کے کچھ سفید اوور کوٹ زیب تن کیے معصوم اور بھولی بھالی صورت لڑکوں نے ملتمسانہ انداز میں خون کے عطیے کا استدعا کیا ۔میں نے بادل نخواستہ اسے معذرتانہ انداز میں منع کردیا۔
مجھے مشہور و معروف فاسٹ فوڈ شاپ کے برابر میں فاطمید فاؤنڈیشن کے کیمپ کے کچھ سفید اوور کوٹ زیب تن کیے معصوم اور بھولی بھالی صورت لڑکوں نے ملتمسانہ انداز میں خون کے عطیے کا استدعا کیا ۔میں نے بادل نخواستہ اسے معذرتانہ انداز میں منع کردیا۔
(یہ بھی اس وجہ سے کہ مجھے ڈاکٹروں نے خون کے عطیے سے منع کر رکھا تھا،کیوں کہ میرا جسم زیادہ خون عطیہ کر نے کی وجہ سے پھولتا جا رہاتھا۔)
۔۔۔۔ اسی اثناء میں دفعتاً میرا ذہن فوراً اس واقعہ کی جانب گھوم گیا ۔۔۔
ہوا کچھ یوں کہ میں جمعہ کی نماز کے بعد جب اپنے دفتر واقع 1۔اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہورمیں گیا تو عادتاً نوٹس بورڈ کی جانب دیکھا تومیری نظریں ایک ’’اپیل‘‘پر جاکر تھم گئیں ۔کسی انجان ساتھی کی ہمشیرہ کو ڈینگی وائرس کی وجہ سے سفید خون کی اشد ضرورت تھی ۔درج ذیل نمبر پر کال کر کے میں نے عطیہ کا عندیہ دیا ۔صاحب ِ فون نےمجھے لینے کے لیےاپنے چھوٹے بھائی کو بھیج دیا ۔ہم دونوں موٹر سائیکل میں گنگا رام اسپتال کی جانب رواں دواں ہو گئے ۔ باتوں باتوں میں حالات سے آگاہی ہوئی ،انہیں فی الفور دو بوتل صحت مند خون کی ضرورت تھی ۔
میں نے ان سے حامی بھرلی کہ میں ان دونوں کا اہتمام کر دوں گا مگر اس کے لیے میں اپنے طریقے میں آزاد ہوں گا ،آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا اور میں آپ کا ساتھ دوں گا۔یہ سننا تھا کہ معصوم سا چہرہ شاداں و فرحاں ہو گیا اور مجھے ایک قلبی راحت محسوس ہوئی ۔
گنگا رام میں خون دے کر میں اور وہ ساتھی باہر نکلے اور قریب کے ڈھابے میں جوس پینے چلے گئے ،جوس کے دوران میں نے اس سے کہا کہ وہ ڈاکٹر سے پرچہ لے کر آئے اور دوسری بوتل کسی بھی پرائیویٹ بلڈ بینک سے لیں گے ، وہ اپنے کام میں گیا اور میں نے دھڑا دھڑجوس پینے شروع کر دیے ۔جب وہ اپنی تمام تیاری پوری کر کے آیا اس وقت تک میں بھی تیار ہو چکا تھا ۔پھر اس نے میرے لاکھ انکار کرنے پر بھی بل ادا کیا اور پھر ہم دونوں ایک قریبی پرائیویٹ بلڈ بینک گئے ،وہاں ابتدائی پراسس کے دوران ڈاکٹر نے کہا کہ آخری مرتبہ خون کب دیا تھا؟؟؟ تو میں نے بڑے ہی پر اعتماد انداز میں کہا کہ : ’’یہی کوئی چھے ماہ قبل ۔‘‘ڈاکٹر نے منظوری دے دی ،میں نے بائیں ہاتھ سے خون کی ایک بوتل دے ڈالی ۔(گنگا رام میں میں نے دائیں ہاتھ سے خون دیا تھا۔) میرے جھوٹ سے ان کا کام پورا ہوگیا۔اس دن کے بعد سے میں آج تک ان سے نہیں ملا اور نہ ہی وہ مجھ سے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی یادوں کے کسی پنے میں کم ازکم میں نہ ہوں گا ۔۔۔بس میری انمنٹ یادوں میں وہ زندہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج بھی مجھے اس جھوٹ پر فخر ہے ۔
مضمون نگار : ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)