12مارچ 2006 کو عراقی شہر محمودیہ میں اسٹیون گرین(امریکی فوجی) نے ایک 14 سالہ معصوم بچی(عبیر قاسم الجنبی) کی عصمت دری کے بعد اسے اور اس کے پانچ افراد پر مشتمل خاندان کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔الزام ثابت ہونے پر اپنےپہلے انٹر ویو میں مکروہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ : ’’میرے خیال میں عراقی لوگ انسان نہیں ہیں ۔‘‘
اسٹیون گرین کی یہ تصویر اپریل 2009کو گرفتاری کے بعد پہلی مرتبہ عدالت پیشی پر کھینچی گئی تھی ۔ اسٹیون گرین سابق 101 ایئر بورن رینک کے فوجی ہیں۔اس پر عراق میں پانچ افراد کے قتل اور عصمت دری کا الزام ثابت ہوا ہے ۔اس نے عدالت عالیہ سے ضمانت کی اپیل کی تھی مگر حالت کے تناظر میں اسے رحم کی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔ اسٹیون کے وکلاء مسلسل اسے دماغی طور پر بیمار اور عراق میں تعینات کے بعد وہاں کے حالات سے خائف اور وہاں سے راہِ فرار اختیار کرنے کے وجوہات کو تلاش کرتے ہوئے انجانے طور پر غلط عمل کا ادراک کرنا ، ثابت کر رہے ہیں ۔
امریکی فوجی کی ظلم و بر بریت کا شکار معصوم عبیر قاسم الجنبی کی یادگار تصویر
الجنبی فیملی کے پڑوسی ’’حسین محمد‘‘جائے شہادت کی نشاندہی کرتے ہوئے ۔
سیٹلائٹ سے لی گئی جائے حادثہ (المحمودیہ مضافات ِ بغداد)کی تصویر
میرے خیال میں اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی ہومگر اس طرح کے مسلسل واقعات اسلامی دنیا میں انتقام کے رجحان کو جنم دے رہے ہیں ۔ امریکیوں کواگر اپنی اور امریکا کی سالمیت عزیز ہے تو وہ اپنی حالیہ پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور مغربی معاشرے میں مسلم فوبیا کے اس اثرات کا تدارک کریں جو دنیا کو جدید صلیبی جنگو ں کی طرف دھکیل رہا ہے جس کی ابتدا تو مغرب کر رہا ہے مگر اس کی انتہاء وہ لوگ کریں گے جو امریکی ظلم و استبداد کے نر غے میں ہیں۔امریکی پالیسی ساز تاریخ کے اوراق کی رو گردانی بھی کرلیں کہ امریکا سے بڑی سپر پاور وقت ’’روم‘‘بھی مسلمانوں کے پاؤں تلے روندی جا چکی ہے۔امریکہ کے تو روس سے بھی زیادہ ٹکڑے ہو جائیں گےاور یہ تو بر حق ہے کہ :’’الاسلام یعلو ولا یعلیٰ علیہ ۔‘‘ شعری ترجمہ بھی ملاحظہ کر لیجیے :
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
مضمون نگار : ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)
مزدور کو اس کی مزدوری ، پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینا چاہیے ۔
’’ہماری مزدوری صرف ایک تبصرہ‘‘[شکریہ]