ہم ہنستے تھے.... اے عزیزو! .... ہم مُنھ چھپا چھپا کر ہنستے تھے۔جب اپنے بچپن میں ہم دِلّی چھوڑ کرکراچی ہجرت کر آنے والے بزرگوں کو دکھ‘ درد اور حسرت ویاس بھری جھنجھلاہٹ کے ساتھ آہ بھر بھر کر یہ کہتے ہوئے سُنتے تھے کہ: ”ہائے دِلّی‘ وائے دِلّی.... بھاڑ میں جائے دِلّی!“ مگراب ہمیں اُس ہنسی کا حساب دینا پڑرہا ہے۔ہائے کراچی.... آہ کراچی.... وائے کراچی.... واہ کراچی! سَن پچاسی‘ چھیاسی سے پہلے کے کراچی کی (صرف ٹریفک کے دھوئیں سے بھری) فضا میں جولوگ سانس لیا کرتے تھے‘ آخر اُن میں سے سب کے سب تو ”ٹارگِٹ کِلنگ“ میں ہلاک نہیں ہوگئے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ اب تک اُن تمام کراچویوں کی ”بوری بند لاشیں“ برآمد ہوچکی ہوں۔ اُن میں سے بہت سے اب تک زندہ ہیں۔ اور بعضے بعضے تو اِس ظلم وستم بھری فضا میں زندگی کرنے پر شرمندہ بھی ہیں کہ اب کراچی کی فضا میں بارُود کا دھواں اور یتیموں‘بیواؤںاوربے بس و بے کس مظلوموں کی آہوں کا دھواں بھی بھر گیا ہے۔ زندگی باعثِ شرمندگی کیوں نہ ہو؟
شرمندہ نہیں تو بس وہ نہیں کہ جنہوں نے کراچی کو اِ ن نوبتوں تک پہنچایا ہے۔اُس کراچی کو جو پہلے ”شہر قائد“ ہی نہیں” شہر قیادت“ بھی تھا۔ کیسے کیسے چمک دار ہیرے اِس عروس البلاد کے زرّیں تاج پر جگمگایا کرتے تھے۔ قائدین کی فہرست بہت طویل ہے۔ سب کا شُمار ممکن بھی نہیں۔ مولانا ظفر احمد انصاری۔مولانا شاہ احمد نورانی۔ محمود اعظم فاروقی۔ پروفیسر عبدالغفور احمد۔پروفیسر شاہ فرید الحق۔ افتخار احمد۔ سیدسعید حسن عرشی۔ ڈاکٹر اطہر قریشی۔مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری۔سید منور حسن۔مولانا محمدزَکریا۔پروفیسر این ڈی خان۔ نعمت اﷲ خاں ایڈوکیٹ۔ بابائے کراچی عبدالستارافغانی۔ ڈاکٹر مبین اختر۔ ظہورالحسن بھوپالی۔ حاجی حنیف طیب۔ حافظ محمد تقی۔ حکیم صادق حسین۔ حکیم محمد یامین صدیقی۔ حکیم سید اقبال حسین۔ اسلم مجاہد۔ آپا بلقیس صوفی۔ ڈاکٹر فریدہ احمد۔ عائشہ منور۔الیاس قادری ۔سلیم قادری وغیرہ وغیرہ۔کچھ وہ کہ جن سے کراچی کے نام کی آبرو تھی۔سو کراچی کی آبرو برباد کرنے ہی کو وہ شہید بھی کردیے گئے۔ اِن میں سے تین نام اوپر آچکے ہیں۔ ڈاکٹر اطہر قریشی ‘ حافظ محمدتقی اور اسلم مجاہد۔مگر شہداءکی طویل فہرست میں حکیم سعیدشہید کا نام بھی شامل ہے‘ صلاح الدین شہید کا بھی اور مفتی نظام الدین شامزئی شہید کا بھی۔شہر کے شہیدوں کی تو ایک لمبی قطار بندھی ہوئی ہے۔کہ جن کے خون سی.... خاکِ چمن کو لالہ قبا کردیا گیا۔
سَن پچاسی‘ چھیاسی کے بعد جوقیادت آئی‘ اپنی اُس قیادت کے نام سُن سُن کر اِس گہوارہ شعروادب کے شہریوں نے دانتوں تلے اُنگلیاں داب داب لیں۔ کیا خبر کہ کسی نے کاٹ بھی لی ہوں۔ فلانا لنگڑا‘ فلانا لُولا۔ فلاناٹُنڈا۔ فلانا لُنجا۔ فلانا بارہ انڈے اور فلانا بیس انڈے۔ اِن تمام گندے انڈوں نے شہر کا جو حشر کیا وہ بھلا کس سے مخفی ہے؟ ٹارچر سیل۔ جسم پر چِرکے۔ ٹانگوں میں ڈرِل۔بوری بند لاشیں۔ گلیوںپر گیٹ۔ محلّوں میں مسلح گشت ۔بازاروں میں بندوق برداروں کے غول۔گھروں میں ڈاکے۔ دُکانوں اور تجارتی اِداروں سے بھتہ۔ دفتروں اور بینکوں میں نقب زنی۔ چوراہوں اور راستوں میں رہزنی ۔ موبائل فون اور نقدی سمیت جیب میں جوکچھ بھی ہے اُس کی جابجا چھین جھپٹ۔ شادی بیاہ کی تقریبات پر حملہ برائے ڈکیتی۔ آج ہی بننے والی دُلہن سے عروسی زیورات کا سرقہ بالجبر۔ بس‘ویگن اور کوچ کا اغوا برائے قزاقی۔ منشیات‘ جوئے اوردیگرجرائم کے اڈّوں کی بالمعاوضہ سرپرستی۔سرکاری اور نجی املاک پر مسلح قبضہ۔ کسی کی نجی ملکیت کو اپنے اِنہی غاصبوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے خطیر معاوضہ پر کرائے کے مجرموں کا کردار ۔کوچہ وبازار میں اندھا دھند قتل۔ گھروں‘ ہوٹلوں اور ٹھِیوں ٹھکانوں پر پہنچ کر ٹارگِٹ کلنگ۔ متعدد مرتبہ شہر بھر میں قتلِ عام اور لوٹ مار۔کیا یہ سب کچھ سَن پچاسی‘ چھیاسی سے پہلے بھی ہوتا تھا؟ اِسی طرح سے اور اِسی پیمانے پر؟ ....سوچنے کی جائے ہے!
سوچنے کی بات تویہ بھی ہے کہ شہر کے شہر کو غارت کردینے والی یہ ”قیادت“ آخر شہر پر مسلط کیسے ہوئی؟ظاہر ہے کہ ”جمہوریت“ کے راستے سے اور ”جمہوریت“ کے واسطے سے۔ جب تک آٹھ آٹھ گھنٹے کی پولنگ میں انھیں ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ ووٹ نہ پڑے تب تک یہ اِس قدر طاقتور اورتوانا نہیں ہوئے تھے۔ ایسا نہیں کہ خیر کی طاقتوں‘ تعصب کی بجائے محبت اور اخوت کے داعیوں اور امن کے علم برداروں نے اِن کا ”جمہوری مقابلہ“ نہ کیا ہو۔ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ مگر” جمہوریت “ میں” اکثریت ہی برحق“ ہے۔ جو حرکتیں اور ہتھکنڈے ہماری دینی اور اخلاقی اقدار کی رُو سے سراسر ممنوع اور ناجائز ہیں” بنامِ جمہوریت“ وہ سب جائز ہیں۔ چناں چہ دیکھ لیجیے کہ کبھی ”جمہوریت“ کے کسی چمپئن نے یہ نہیں کہا کہ شہر کی ”جمہوری نمائندگی“ کا حق حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جو حرکتیں کیں اور جوہتھکنڈے استعمال کیے وہ ”غیر جمہوری“ یا ناحق اور ناجائز تھے۔ اِس بناپر یہ اِس شہر کے حقیقی جمہوری نمائندے نہیں ہیں۔ اِس کے بر عکس سب کے سب بالاجماع انہیں اِس شہر کا ”جمہوری نمائندہ“ تسلیم کرتے ہیں۔اِس کا مطلب اِس کے سوا اور کیاہے کہ ”بنامِ جمہوریت“ سب کچھ جائز ہے۔سو ہر”جمہوری بدمعاش“ کے آگے ہماراسرتسلیم خم ہے۔
اگرکسی نے ناحق کو ناحق اور ناجائز کو ناجائز کہا تو صرف اُنہوں نے کہا جو” جمہور“کے آگے نہیں اﷲ کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ ورنہ تو شہر کا شہر اِس سیلابِ بلاخیز میں بہہ گیا تھا۔ سوائے اُن کے کہ جن کو دعوتِ حق پیش کی گئی اوراُنھوں نے بسروچشم قبول کرلی۔ جن کی دینی اور اخلاقی تربیت کی گئی۔ جن کو ”خیر اُمّت“ کا ایک فرد ہونے کا احساس دِلایا گیا۔جن کو ”اُمّتِ وَسَط“ کی نمائندگی کے منصبِ بلند پر فائز ہونے کی یاددِہانی کرائی گئی۔ القصہ مختصر جن کے آگے انتخابی کنویسنگ نہیں بلکہ توسیعِ دعوت کی گئی۔ جن کے سامنے فریضہ شہادتِ حق سرانجام دیا گیا۔ جنہیں دعوت اجتماعات کی آغوشِ تربیت میں لے لیا گیا۔ بس یہی لوگ تھے جو اِس سیلابِ بلاخیز کے آگے ڈٹے کھڑے رہے۔ باقی سب بہہ گئے۔ اور یہی لوگ ہیں جو آج بھی اِس دھوپ میں مینار کی مانند کھڑے ہیں۔ یہی اِس اُمّت کا سرمایہ ہیں۔ اور یہی اِس ملت کے مقدر کا ستارا۔صرف یہی لوگ ہیں جو ظلم وستم کے راج کو بدل سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ چہرے نہیں‘ سماج کو بدلتے ہیں!اور یہی وہ لوگ ہیں جو ”جمہوری اکثریت“ کے آگے مولانا محمد علی جوہر کے ”غیر جمہوری“ اشعار گنگنایا کرتے ہیں ؎
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لیے ہے
کیا غم ہے جو ہے ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے، اگر ایک خدا میرے لیے ہے
شہروں کا نوحہ اور مرثیہ بالعموم اُن کے مکمل سقوط کے بعد لکھا جاتاہے۔اُس وقت کہ جب کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے پیشگی لکھ دیا ہے کہ ابھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ابھی اِس شہر کے ”جمہوری قابضین“ کے ہاتھوں مکمل طورپر اِس شہر کا ”بیڑا غرق“ نہیں ہواہے۔ سَن پچاسی‘ چھیاسی سے پہلے کے کراچی کی فضا میں جولوگ سانس لیا کرتے تھے‘ آخر اُن میں سے سب کے سب تو ”ٹارگِٹ کِلنگ“ میں ہلاک نہیں ہوگئے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ اب تک اُن تمام کی ”بوری بند لاشیں“ برآمد ہوچکی ہوں۔اُن میں سے بہت سے اب تک زندہ ہیں۔ کیا اُن کا جی نہیں چاہتا کہ امن‘ محبت اور اخوت کی اُجڑی ہوئی دُنیا پھر سے آباد ہوجائے؟کراچی کے شہریوں کو اُن کا گم گشتہ طبعی اطمینان‘ ذہنی سکون اوردِل کاچین پھر سے واپس مل جائے؟کیوں نہیں چاہتاہوگا۔ مگر:
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں
تکمیلِ آرزو کے لیے کچھ کرنا بھی پڑتاہے
سربہ فلک بلندوبالا عمارتوں‘ سرکے اوپر سے سرکتی ہوئی( بالائی) سڑکوں اورتیز روشنیوں کی چکاچوندمیں ہمہ وقت کسی غیر متوقع واردات کے وقوع پذیر ہوجانے کے خوف سے خائف وخاموش‘ لرزاں اور ترساں شہریوں کے درمیان بکھری ہوئی‘ خیر کی ایک بہت بڑی طاقت غیر فعال حالت میں ابھی تک موجود ہے۔بس اِس طاقت کو مجتمع‘ متحد اور متحرک کرنے کی دیر ہے‘ تواِس کارِ خیر میں اب دیر کاہے کی؟ مگر یہ بات یاد رہے کہ کسی اور طریقے سے نہیں :
سکون و چین آئے گا نورِ لااِلٰہ سے
یہ شہر جگمگائے گا نورِ لااِلٰہ سے
مصنف : ابو نثر ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]