میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

جنت میں پانچ براعظم کا مالک !!!

مولاناسید ابو الاعلیٰ  مودودی رحمۃ اللہ علیہ  کی امریکی شہربفیلو میں طویل علالت اور مسافرت کے بعد رحلت پر ان کے
 مہربان ناقدین(مولانا احتشام الحق تھانوی اورمولانا غلام غوث ہزاروی ) نےتعزیتی پیغام میں کہا تھا کہ:
’’مودودی جہاں کا دلال تھا ، وہیں جاکر مر گیا ۔‘‘
یہ ناقدینِ مودودی جو اپنے مقتدر حلقوں میں ’’جیدعلماء‘‘گردانے جاتے ہیں جب کہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ایسے مسلمان کے بارے میں جو اپنی جائے پیدائش سے دور ، بیماری اور سفر کی حالت میں انتقال کر جائے ،ملاحظہ فرمائیے :
عن عبد اللّٰہ بن عمروقال توفی رجل بالمدینۃ ممن ولد بھا فصلی علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یالیتہ مات بغیر مولدہ قالوا ولم ذاک یا رسول اللہ قال ان الرجل اذا مات بغیر مولدہ قیس لہ من مو لدہ الیٰ منقطع اثرہ فی الجنۃ (رواہ النسائی وابن ماجہ/مشکوٰۃ 1506 )
حضرت عبد اللہ ابن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک ایسے شخص کا انتقال ہوا جو مدینہ میں ہی پیدا ہوا تھا نبی کریم ﷺ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھی اور پھر فر مایا کہ کاش ! یہ اپنےمقام  پیدا ئش پہ نہ مرا ہوتا ۔صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ﷺ کیوں ؟ آپ ﷺ نے فر مایا :’’جب آدمی اپنے وطن سے باہر مرتا ہے تو موت کی جگہ سے لے کر پیدائش کی جگہ تک کی مسافت کے برابر جنت میں اس کو جگہ ملتی ہے ۔‘‘
یاد رہے کہ مولانا مودودی ؒ کی جائے پیدائش اورنگ آباد (بھارت)سے بفیلو(امریکا)تک کی مسافت پانچ بر اعظم پر محیط ہے ۔حدیث مبارکہ کی روشنی میں مولانا مودودی ؒ کی جنت میں ملکیت پانچ براعظم کے برابر ہوئی ۔
اتفاق کی بات دیکھیے کہ مولانا مودودی کی وفات کے مقام پر طنز کرنے والے مولانا احتشام الحق تھانوی اپنی ہی جائے پیدائش تھانہ بون (بھارت)میں جاکر خالق حقیقی سے جاملے۔
جب کہ  ۔۔۔
مولانا غوث ہزاروی نے توبغضِ مودودی میں  ایک اجتماع کے دوران  نتائج کی پرواہ کیے بغیر  ببانگ دہل کہا تھا کہ :’’میں تو اس جنت میں نہیں جاؤں گا جس جنت میں  مودودی ہو گا ۔‘‘
فاعتبروا یا اولی الابصار      ۔۔۔۔       صاحب ِ نظر لوگوں کے لیے اس میں عبرت ہے ۔
حالت مسافرت میں انتقال کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے :
عن ابن عباس ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت عُربۃٍ شھادۃ۔(رواہ ابن ماجہ/مشکوٰۃ 1507)
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ :’’سفر میں وفات پانا شہادت ہے ۔‘‘

حالت مرض میں انتقال کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے :
عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من مات مریض مات شھیداً و وقی فتنۃ القبر وغدی وریح علیہ برزقہ من الجنۃ ۔(رواہ ابن ماجہ /مشکوٰۃ:1508)
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص بیمار ہو کر مرتا ہے وہ شہادت کا درجہ پاتا ہے ،قبر کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے اور صبح و شام اس کو ہمیشہ بہشت کا رزق ملتا ہے ۔
غور کیجیے !!!
مولانا مودودی ؒ پر تینوں احادیث مکمل طور پر منطبق ہوتی ہیں ۔ان احادیث اور موقع محل کو دیکھ کر میں میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ ان احادیث  کی شان ورود ہی ’’مولانا مودودی ؒ‘‘ہیں ۔چودہ سو سال قبل  نبی کریم ﷺ کی یہ ایک پیشین گوئی تھی ، جو پوری ہوئی ۔
امریکا میں وفات پانا مولانا مو دودی کے لیے باعث ِ سعادت تھی یا باعث شقاوت تھی ۔مولانا مودودی ؒ نے توایک لافانی زندگی گزار ی۔ اسلام کی خاطر مشقتیں جھیلیں۔مگر اپنے عمل سے دنیا بھر میں کروڑوں ہاتھوں کو روز دعائے مغفرت  کے لیے اُٹھا چھوڑ گئے۔مولانا مودودی ؒ تو’’یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی ‘‘کہہ کر اپنے رب کی نعمتوں پر شاداں و فرحاں ہیں ۔
مگر
بغض مودودی میں گرفتار کئی اذہان و قلوب تاحال ایسی آگ میں جھلس رہے ہیں ، جن کا مداوا کوئی نہیں ،بغض ِ مودودی کی تیش میں آکر نجانے انجام سے بے خبر کیا کیا کفریات کا ارتکاب کر جاتے ہیں ۔بغض کی آگ کتنی ہلاکت خیز ہوتی ہے ۔
(الامان والحفیظ)
مصنف :  ڈاکٹر مولانا سراج الحق  ۔(کراچی)
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]