میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

گوانتاناموبے جیل کے 10سال مکمل

امریکہ کی بدنام زمانہ گوانتانا موبے جیل کو 10 برس مکمل ہوگئے اور اس کے بند کرنے کے وعدوں کے باوجود وہاں تاحال 171 قیدی کسمپرسی سے زندگی گزار رہے ہیں۔
نائن الیون حملوں کے 4 ماہ بعد کیوبا کے اس جزیرے میں قائم کی جانے والی یہ امریکی جیل اپنے مظالم کی بناءپر دنیا بھر میں بدنام ہیں۔

11 جنوری 2001ءکو اس جیل میں 20 قیدیوں کی آمد سے جب اس کا آغاز ہوا تو یہ کسی کھنڈر سے کم نہیں تھی مگر آج یہ ایک اربوں ڈالر کے کمپلیکس پر مشتمل ہے جہاں ائیرکنڈیشنر اور سیٹلائٹ ٹی وی کی سہولیات موجود ہیں۔
امریکن سول لبریٹیز یونین کے اعدادوشمار کے مطابق ان 10 برسوں کے دوران 779 افراد کو گوانتاناموبے میں قید کیا گیا جن میں سے صرف 6 کو سزا سنائی گئی۔یہ تعداد ان فوجی پراسیکیوٹرز سے بھی کم ہیں جنھوں نے جیل کے غیرمنصفانہ نظام پر احتجاجاً استعفے دیئے، اس عرصے کے دوران 600 کے لگ بھگ قیدی یہاں سے رہا کئے گئے، جن میں اکثریت جارج بش کے عہد میں یہ نعمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ابھی بھی یہاں 171 قیدی موجود ہیں جن میں سے 89 کو رہائی کے لئے کلئیر کیا جاچکا ہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے انہیں چھوڑا نہیں جارہا۔گوانتاناموبے جیل میں ایک قیدی کے قیام پر سالانہ امریکی عوام کو 8 لاکھ ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں، جبکہ وہاں موجود فوجی نگرانوں کے اخراجات الگ ہیں۔
سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق یہاں لائے جانے والے 92 فیصد فیدیوں کا کبھی القاعدہ سے تعلق نہیں رہا۔
22 جنوری 2009ءکو اقتدار سنبھالنے کے اگلے ہی روز امریکی صدر باراک اوبامہ نے گوانتاناموبے جیل کو ایک سال کے اندر بند کرنے کے حکم نامے پر دستخط کئے مگر وہ اب تک ان کا منہ چڑا رہا ہے۔
اس بے عملی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی کانگریس میں ری پبلکن اراکین نے پینٹاگون پر گوانتاناموبے جیل سے قیدیوں کو منتقل کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی، جبکہ 31 دسمبر کو ایک اور قانون کے تحت وہاں قیدیوں کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت تک قید کرنے کا قانون بھی منظور کرلیا گیا، یہ وہ قانون ہے جو جارج بش بھی متعارف کرانے سے ہچکچاتے رہے تھے، مگر اوبامہ نے سر جھکا کر ان دونوں قوانین پر دستخط کردیئے۔
بقول وہاں سے اکتوبر 2007ءمیں چیف پراسیکیوٹر کی حیثیت سے مستعفی ہونے والے کرنل مورس ڈیوس کے گوانتاناموبے ہمارے چہرے پر بدنما داغ ہے جسے ہٹانے کا واحد راستہ اس کی بندش ہے۔
مصنف:  فیصل  ۔(موصولہ از ای میل)
ادارہ’’سنپ‘‘ موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]