میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

انقلاب کیوں آئے؟؟؟

بہت سا رے سوالات کا ایک جواب دینا کتنا مشکل ہو تا ہے؟ عام زندگی میں اکثر ایسی کیفیت ہو جا تی ہے، میرے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا لیکن اس منظر میں مجھے اپنے بہت سارے سوالوں ،بلکہ الجھنوں کا سببب پتا چل گیا، ایک گرہ تھی جو کھل گئی ،
بظاہر وہ ایک منظر تھا لیکن درحقیقت وہ تصویر تھی۔
میر ی ،آپ کی،بلکہ پورے معاشرے کی مکمل تصویر، وہ ایک مسافر بس تھی اور شاید اس میں چھت سمیت کوئی بالشت بھر جگہ ہو گی جہاں لوگ سوار بلکہ لدے ہوئے نہ ہوں، مسافروں کے بوجھ سے بس ایک جانب جھکی ہو ئی تھی۔
یہ منظر دیکھنے سے پہلے تک میرے ذہن میں اکثر یہ سوالات پیدا ہو تے تھے کہ ہم لو گوں کے حالات کیوں نہیں بدلتے؟ دھکے اور دھتکار، بسوں سے لے کر اسپتال اور سر کا ری دفتروں تک ہر وقت کیوں ملتے رہتے ہیں؟ لیکن بس اور مسافروں کی حا لت دیکھ کر سا ری بات سمجھ میں آ گئی کہ کو ئی نہیں جو آگے بڑھ کر ان کا ہا تھ پکڑے اور پو چھے کہ ایسا سلوک ہمارے ساتھ ہی کیوں؟ لیکن مسئلہ صرف ایک ہے کہ ہر ایک نے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا۔ بس میں سوار مسافر لگ بھگ پچاس اور محض ایک کنڈیکٹر اور ڈرائیور کے ہا تھوں یر غمال ،جا ن خطرے میں ڈال کر بس کے پائیدان پر ،چھجے پر لٹکنا گوارا لیکن کوئی نہیں جو ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو مجبور کرسکے گاڑی ڈھنگ سے چلائے ،کو ئی نہیں جو ٹرانسپورٹرز پر دباؤ ڈال کر انہیں من مانی سے روک سکے۔ عوام اٹھارہ کروڑ اور حکومت کے کا رندے چند سو ، مگرکتنے ہیں جو حکومت کو چیلنج کر سکیں کہ ڈرامے با زی مزید نہیں چلے گی لوگو ں کا یہ حال دیکھ کر کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ لگاتار دھکے کھا کھا کر اور دھتکا ر سن سن کرشاید ہمارے دل ودماغ نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہما رے نصیب ہی ایسے ہیں اس لئے جو، جیسااور جتنا مل رہا ہے اس پر خوشی خوشی گزارہ کر و اور کس قدر حقیقت کھول دینے والی بات کہی اس شخص نے جو دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بھگتنے کے بعد خوشی سے کہتا ہے شکر ہے آج گذشتہ دن کے مقابلے میں دو گھنٹے کم لو ڈ شیڈنگ ہو ئی ہے یعنی جو اس کا بنیا دی حق تھا وہ خواب و خیال بن کر رہ گیا اور بچاکچھا جو رہ گیا اسی کو اپنا ’’اصل اور کل حق‘‘ تصور کر لیا۔
پتا نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہیں؟ اور کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں وہ لوگ جو تبدیلی کی بات کر تے ہیں، انقلاب کی خوش خبریاں دیتے پھرتے ہیں اور وہ بھی ان لو گوں کو جو آٹا تک لائن میں لگ کر ،جوتے کھا کر آرام سے خریدتے ہیں ، منت سماجت کرکے پچاس روپے والی چینی سو روپے کلو خریدنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔۔۔ بھلا تبدیلی بھی ایسے مطمئن لو گوں کے معا شر ے میں آیا کر تی ہے؟؟
مصالحت ، مفاہمت اوراپنے حال پر را ضی ہو نے والوں بس جوتے کھائیں اور آرام سے گھر جا کر پڑوسی ملک کے بے سروپا ڈرامے دیکھیں۔۔۔
مصنف:  اسد الدین۔(بشکریہ دی نیوز ٹرائب)

ادارہ’’سنپ‘‘ موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]