ہم ہنستے تھے.... اے عزیزو! .... ہم مُنھ چھپا چھپا کر ہنستے تھے۔جب اپنے بچپن میں ہم دِلّی چھوڑ کرکراچی ہجرت کر آنے والے بزرگوں کو دکھ‘ درد اور حسرت ویاس بھری جھنجھلاہٹ کے ساتھ آہ بھر بھر کر یہ کہتے ہوئے سُنتے تھے کہ: ”ہائے دِلّی‘ وائے دِلّی.... بھاڑ میں جائے دِلّی!“ مگراب
میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"
بے وضو صحافت
آج کل ہمارے شہر کراچی کے شہری ”چُن چُن کر قتل“ کیے جارہے ہیں۔ ”شہری؟“ خان معاذاﷲ خان نے چیخ کر تعجب بھرے سوالیہ لہجہ میں مداخلت کی تو ہم سمجھ گئے کہ اُن کی گردن پر جوناریل نصب ہے وہ اب چٹخنے کو ہے‘
بہادر آدمی
بہادر آدمی ہی بہادر آدمی کی تحسین کرتا ہے اس کی بہادری کو سراہتا ہے اور اس کے کارناموں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتا ہے اور اس کے قد سے قد ملا کر کھڑے ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے،
سیاہ+ست
ہوسکتا ہے کہ علم سیاسیات کے طالب علم کو میری بات سے سخت اختلاف ہو لیکن میرا قیاس ہے کہ’’سیاست‘‘دو لفظوں کے مجموعے سے تشکیل پانے والا لفظ ہے ،
عالمی بہروپیے !!!
بہانےتراشنا ، بہانے بنانا اور بہانے بازی سے کام لینا آج کے جدیدعہد کا فیشن ہے ۔
حد کردی آپ نے !!!
کہتے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر” لیکن لگتا ہے بھارتی حکومت اس محاورے سے بھی سبق حاصل کرنے کو تیارنہیں
نال
پنجابی زبان کا ایک ایسا لفظ جس کے معنی تو’’ قریب کے ہیں ‘‘ مگر اس کی انتہاء کوئی نہیں ۔۔۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے ، جب ہم طفلِ مکتب ہوا کرتے تھے۔۔۔۔
عطیہ
ایک جھوٹ جس پر مجھے فخر ہے ۔۔۔
۔۔۔ یونیورسٹی سے نکلتے ہی میں جلد از جلد گھر پہنچنا چاہ رہا تھا۔لمبے لمبے قدموں سے میں جیسے ہی عقبی دروازے سے نکل کر چوک کی طرف آیا تو
ٹوپی ڈرامہ
یہود ونصاریٰ اور ہنود اگر 100فیصد بھی درست ہوتو پھر بھی ان کی بات پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے۔کیونکہ جھوٹ اور دغا انکے رگ وپے میں سرایت کر چکی ہے ۔
مغربی ذرائع ابلاغ کل رات بھر سے تصویر کا جو رُخ پیش کر رہی ہیں ، وہ اصل حقائق کے سراسر منافی ہے ۔