میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

نال


پنجابی زبان کا ایک ایسا لفظ جس کے معنی تو’’ قریب کے ہیں ‘‘ مگر اس کی انتہاء کوئی نہیں ۔۔۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے ، جب ہم طفلِ مکتب ہوا کرتے تھے۔۔۔۔
لاہور میں سالانہ چھٹیوں پر ہم دو دوستوں نے ٹرین سے کراچی آنے کا پروگرام ترتیب دیا،سفر کے حوالے سے اپنے سامان کو تریب دے کر اپنے وقت مقررہ میں ٹرین میں سوار ہوگئے ۔ہم دونوں چوں کہ سارا سفر ’’اٹھکیلیوں‘‘میں گزارتے تھے ، اس لیے ہمیں ہمیشہ کھڑکی کی ساتھ والی تنہائی پسند نشست بھاتی تھی ۔
ہم دونوں نے اپنے سامان کو انتہائی حفاظت سے سیٹ کے اوپر لوہے کے حصار میں دے دیا اور پر سکون انداز میں اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے ۔کچھ ہی دیر کے بعد گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگی اور ہمارے چہروں پر مسرتوں نے ڈیرے جمادیے ۔۔۔
رائے ونڈ جنکشن پر ٹرین کچھ لمحوں کے لیے رکی ۔۔۔۔ جن مسافروں نے چڑھناتھا وہ چڑھ گئے اور جنہوں نے اترنا تھا وہ اتر گئے ۔۔۔گاڑی نے پھر چلنا شروع کر دیا ۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد ایک ادھیڑعمر ، انتہائی لحیم شحیم عورت  اپنے ساتھ ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ ہمارے سر پر آن کھڑی ہوئی اور پنجابی میں یو ں گویا ہوئیں :  پُتر!!!    نال اِی جانا اَے ۔۔۔تُسی تے جوان اُو ۔۔۔ تُسی تے کُھلُوْتے وِی لَنگ سَگْدَے اُو۔۔۔۔مَیں تَاں بُڈِّی آں ، میں کُھلُو نَئَیں سگدی آں، مینوں بَیْن دو۔۔۔ مینوں نال دے ٹیشن جانا اے ۔   (ترجمہ:بیٹے !!! قریب ہی جانا ہے ،تم تو جوان ہو،تم تو کھڑے ہو کر بھی گزر سکتے ہو، میں تو بوڑھی ہوں ، میں کھڑی نہیں ہو سکتی ، مجھے بیٹھنے دو،مجھے قریب کے ہی اسٹیشن جانا ہے۔)
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور احتراماً کھڑے ہوگئے ،اور انہیں جگہ دے دی اور کیوں نا کھڑے ہوتے ، ایک تو عورت ذات اور وہ بھی ہماری اپنی ماؤں سے بھی دس سال بڑی ۔۔۔۔اور اس میں کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی ، یہ تو یہاں کا عام دستور تھااور ویسے بھی انہوں نے قریب ہی تو جانا تھا۔
ہم دونوں دوست ٹرین کے دروازے کے قریب ہی کھڑے ہو گئے ۔۔۔اور آس پاس کے ہریا لے سے لطف اندوز ہو نے لگے ۔۔۔وقت گزرتا گیا۔۔۔اسٹیشن اور جنکشن بھی گزرتے گئے ۔۔۔۔ مسافتیں بھی طے ہوتی گئیں۔۔۔مگر ہماری سیٹیں خالی نہ ہوئیں۔۔۔
خانیوال جنکشن پر ہم پر امید تھے کہ اب تو وہ اٹھیں گی ۔۔۔اسٹیشن گزر گیا مگر وہ ماں بیٹی ذرہ برابر ہلی بھی نہیں اور ان کی اس ادا سے ہم ہلکان ہوگئے ۔۔۔اب تو یہ ہو چلاتھا کہ ہر اسٹیشن پر ہم انہیں اور اپنی سیٹ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور اسٹیشن گزرنے پر دیکھتے ہی رہ جاتے تھے ۔ کئی مرتبہ تو یہ ہوا کہ ہمارا صبر لبریز ہو تا گیا ،مگر احترام پاؤں کی زنجیر بنا رہا ۔۔۔۔
۔۔۔۔  بالآخر وہ تو نہ اٹھے مگرہماری منزل ( کراچی کینٹ)آگئی ۔وہ پھر بھی پانسہ پلٹنے کو بھی تیار نہ ہوئے ۔۔۔میرا دوست ان کے پاس گیا اور کافی دیر بڑبڑا تا بھی رہا ۔۔۔ مگر میں نے اسے روک دیا ۔۔۔میں  نے سامان سیمٹنا شروع کر دیا تاکہ جلد اترا جاسکے ۔۔۔۔مگر میرے دوست کو غصہ آگیا اور اس نے آخر تک جانے کی ٹھان لی اور کہاکہ :’’دیکھتے ہیں یہ لوگ کہاں اتریں گے۔‘‘ اب ڈبے میں چیدہ چیدہ ہی لوگ رہ گئے تھے ۔۔۔ہم برابر میں برتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ہاتھوں کا پیالہ بنا کر دھول مٹی سے اٹے ہوئے چہروں کو اس میں ڈال دیا اورخونخوار نظروں سے انہیں  گھورنا شروع کردیا ۔۔۔۔
کچھ ساعتوں کے بعد کراچی کا آخری اسٹیشن(سٹی اسٹیشن )بھی آگیا ۔۔۔ مگر ہماری سیٹوں پر کوئی حرکت نہ ہوئی ۔۔۔ٹرین رک گئی ۔۔۔ اب پوری ٹرین میں ہم لوگوں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا ۔۔۔۔اب تو ہم غصے سے لال پیلے ہو گئے ۔۔۔۔میرے دوست نے بڑ بڑانا شروع کر دیا ۔۔۔مگر کہاں تک ۔۔۔جس طرح ہماری حکومتوں کو عوام کا احتجاج ٹس سے مس نہیں کر وا سکتا اسی طرح ہمارے بڑبڑانے سے بھی ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔
اخیر ۔۔۔۔ میں نے اپنے دوست کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لاتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ :’’یہ لوگ نال کے  سمندر میں اشنان کر کے ہی گھر جائیں گے۔‘‘
اس واقعہ نے تو ہمیں کئی سبق سکھا دیے۔۔۔اور ہم پر امید ہیں کہ آپ بھی کچھ سبق ضرور سیکھیں گے۔۔۔
نوٹ : یہ لفظ آج بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے ۔
مضمون نگار :  ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)