میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

بے وضو صحافت

آج کل ہمارے شہر کراچی کے شہری ”چُن چُن کر قتل“ کیے جارہے ہیں۔ شہری؟خان معاذاﷲ خان نے چیخ کر تعجب بھرے سوالیہ لہجہ میں مداخلت کی تو ہم سمجھ گئے کہ اُن کی گردن پر جوناریل نصب ہے وہ اب چٹخنے کو ہے‘کیوں کہ اُس کے گُودے میں(وہ جتنابھی ہے) کسی کلیے کی کلبلاہٹ شروع ہوگئی ہے۔پیار سے اُنھیں سمجھایا: ”شہر میں رہنے والے شہری ہی کہلاتے ہیں‘ خواہ وہ کتنے ہی اُجڈ گنوار اور(اورتُمھاری طرح کی) دیہاتی کیوں نہ ہوں“۔ کسمسا کر ایک نئی منطق نکالی: ”کیا کسی اور شہر کے شہری قتل نہیں کیے جارہے ہیں؟ تُم لوگوں کو تو ہر چیز کراچی ہی میں ہوتی نظر آتی ہے۔ بندہ خدا اِس تعصب کے خول سے باہر نکلو اور نکل کر دیکھو کہ دُنیا میں کیا کیا ہورہا ہے“۔ عرض کیا: ”بے شک دورِ حاضرمیں دیگر شہروں کے شہری بھی ماشاءاﷲ خوب قتل کیے جا رہے ہیں۔مگر ”چُن چُن کر“ نہیں۔یہ دوہری بلا آج کل صرف کراچی ہی پر سایہ فگن ہے“۔ پھرتعجب بھرے سوالیہ لہجہ میں چیخی: ”دوہری بلا؟اورپھر پیار سے سمجھایا: ”دیکھو! ’چُن چُن کر قتل کرنا‘ایک دوہرا عمل ہے۔یہ اکیلے بندے کے بس کی بات نہیں۔جب کسی نے یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ ہم کراچی کے شہریوں کو چُن چُن کر قتل کرڈالیں گے تو دوسرے نے کہاہوگا کہ یہ دوآدمیوں کاکام ہے۔ میں چنوں گا۔ تُم قتل کرنا۔پس کچھ لوگ چنتے جاتے ہیں۔اورکچھ قتل کرتے جاتے ہیں۔یوں ہمارے شہر کراچی کے شہری چُن چُن کر قتل کیے جاتے ہیں“۔ مگر معلوم تو ہو کہ یہ کون لوگ ہیں جو چنتے ہیں اور کون لوگ ہیں جو قتل کرتے ہیں؟“ ”کیسے معلوم ہو؟ ہم جیسے عام شہریوں کے پاس تو معلومات کا واحد ذریعہ ہمارے ذرائع اِبلاغ ہیں“۔مگر آج کل تو بڑا غُل‘ بلکہ غلغلہ مچاہوا ہے کہ ہماری صحافت بہت آزاد‘ بڑی بے باک اور بے حد جری ہوگئی ہے۔یہ آخر ہمیں کیوں نہیں بتاتی کہ یہ کون لوگ ہیں جو چنتے ہیں اور کون لوگ ہیں جو قتل کرتے ہیں؟“ ”کیا عرض کریں؟ہم اپنی آزادی صحافت کو اُس کی جرأت وبے باکی پر سلام بلکہ جُھک جُھک کر سات سلام پیش کرتے ہیں۔آج کل قریب قریب ہر صحافتی اِدارے میں ایک شعبہ تحقیق قائم ہوگیا ہے۔ تُم بھی حقہ پی پی کر اچھے خاصے محقق بن گئے ہو۔ یہ تو جانتے ہی ہو کہ تحقیق کامطلب ہے کسی معاملہ کی مخفی حقیقتوں کو آشکار کرنا۔ ہمارے یہ محققین آج کل ایسے ایسے مخفی حقائق کو آشکار کررہے ہیں کہ ”شکار“ کو توبہ ہی بھلی نظرآتی ہے“۔ یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ ہماری صحافت بہت آزاد‘ بڑی بے باک اور بے حد جری ہوگئی ہے۔ اب سے پہلے تو کبھی ہم نے اپنی صحافت کو اتنی محنت کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ہرمعاملہ کی تاریخ اور تہہ تک پہنچ جانا۔ہرشخص کی پوشیدہ سے پوشیدہ حدیثِ زندگانی دیکھنا۔ کس طرح گزراہے عہدِ نوجوانی دیکھنا۔ کس نے کیا کھایا؟ کیا پیا؟ کیا لے کرپردیس گیا؟پردیس جاکر کیاکیا گُل کھلائی؟ وغیرہ وغیرہ۔بڑی محنت اور جاں فشانی سے ایک ایک جزئیاتی تفصیل حاصل کی جاتی ہے۔موصوف نے وقوعہ کے روز کس رنگ کا لباس پہن رکھا تھا؟ کس نمبر کی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھی؟ کس ملک کا سگار پی رہے تھی؟ بڑی سے بڑی شخصیات کی بابت انکشافات کرتے ہوئے آؤدیکھا جاتا ہے نہ تاؤ۔نام لے لے کر بڑی آزادی کے ساتھ‘ بہت جرأت کے ساتھ‘ نہایت بے باکی کے ساتھ مخفی حقائق قوم کے سامنے طشت از بام کر دیے جاتے ہیں۔ تُمھاری طرح ہم بھی اپنی آزادی صحافت کو اِس جرأت وبے باکی پر سلام بلکہ جُھک جُھک کر سات سلام پیش کرتے ہیں! مگر یہ بے باک وجری ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے شہر کے شہریوں میں سے ایک ایک شہری کو چنتے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جواِن چنیدہ چنیدہ افراد کو قتل کرتے ہیں؟پھر عرض کیا کہ: ”کیا عرض کریں؟ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ کراچی کے ایک بھرے پُرے بازار میں اخبار کا نمائندہ اپنے کان پر قلم رکھے اور ٹیلی وژن کا نمائندہ اپنے کندھے پر کیمرارکھے گھوم رہا ہوتا ہے کہ یکایک کچھ جانے پہچانے لوگ آتے ہیں اور اندھا دُھند فائرنگ کرکے اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتار جاتے ہیں۔ایسے میں ہمارا یہی آزاد‘ جرأت مند اور بے باک صحافی ہمیں یہ موہوم خبر دیتاہے کہ:’’نامعلوم افراد کی فائرنگ سے فلاں فلاں معلوم افراد ہلاک“۔ اُس وقت اِن جرأت مندوں اور بے باکوں کو کسی کانام یاد آتاہے نہ چہرہ۔ لباس کا رنگ دیکھنے کا ہوش ہوتاہے نہ گاڑی کا نمبر۔تو دیگر تفصیلات کی تحقیقات میں کون پڑے؟ فائرنگ کرنے والوں کی گاڑیوں پر لہراتے پرچموں تک کو اُن کی چشمِ بے باک پہچان نہیں پاتی۔ مگر ہم پھر بھی اپنی آزادی صحافت کو اُس کی جرأت وبے باکی پر سلام بلکہ جُھک جُھک کر سات سلام پیش کرتے ہیں‘‘ کسی کانام کیسے لیں؟ دیہاتی ہی نہیں‘ بعض شہری خواتین بھی یہی وہم کرتی ہیں کہ اگر اپنے خاوند کا نام لے لیا تو نکاح ٹوٹ جائے گا۔ یہ اتنے توہم پرست تو نہیں ہیں۔ صرف بے باک وجری ہیں۔ مگر ایک نام ایسا ہے کہ جسے لینے کے خیال ہی سے اِن کی جرأت و بے باکی کا نکاح تو نہیں‘البتہ وضو ٹوٹ جاتاہے۔اوروضو ہر اُس طریقے سے ٹوٹتا ہے کہ جس جس طریقے سے وضو کا ٹوٹنا فقہ کی کتابوں میں بتایا گیا ہے۔ غفلت کی نیند سو جانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتاہے۔توبھلا اِس بے وضو صحافت سے آپ کس عبادت کی توقع کر سکتے ہیں؟
مصنف :  ابو نثر ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]