میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

میاں طفیل محمد (مر حوم) کی باتیں


ہوسکتا ہےکہ آپ جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر میاں طفیل محمد کے نظریات سے اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ ممکن ہے کہ آپ میاں صاحب سے اس لیے ناراض ہوں کہ انہوں نے اسلام کے نام لیوا فوجی جنرل ضیاء الحق کا ساتھ کیوں دیا؟عین ممکن ہے کہ آپ میاں طفیل محمد کے مداح صرف اس لیے ہوں کہ انہوں نے ایوب خان کی فوجی آمریت اور بھٹو صاحب کی سویلین آمریت کا پوری جرات اور بے خوفی کے ساتھ مقابلہ کیا اور شاید اسی سبب ناراض بھی ہوں۔ تاہم میاں صاحب کی شخصیت کے جس پہلو پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ کہ روایتی سیاستدانوں کی طرح منافقت کے بجائے وہ صاف بات کرنے کے عادی تھے۔ جوبات دل میں ہوتی وہ اس کا اظہار کردیتے اور پھر اس پر قائم بھی رہتے۔
 رفیق ڈوگر اپنی کتاب چالیس چہرے میں میاں طفیل محمد کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میاں صاحب قرون وسطٰی کےمسلمان ہیں(تھے) جو جدید دور میں آزمائش کے لیے بھیج دیے گئے ہیں۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ اپنی کتاب مذہبی سیاست کے تضادات میں لکھتے ہیں کہ وہ میاں صاحب سے ملاقاتوں میں حیران ہوتے رہے کہ اس قدر سچا آدمی سیاست کس طرح کرتا رہا ہوگا۔ اسی کتاب میں سہیل وڑائچ نے مختلف مواقعوں پر سابق امیر جماعت اسلامی سے لیے گئے پانچ انٹرویوز بھی پیش کیے ہیں۔ یہ انٹرویوز نوے کی دہائی کے آغاز میں لیے گئے۔ ہم یہاں وڑائچ صاحب کی جانب سے میاں صاحب سے پوچھے گئے مخلتف سوالات کے دلچسپ جوابات پیش کررہے ہیں۔ اگر اس وقت کی سیاسی صورتحال آپ کے ذہن میں ہو تو آپ ان جوابات سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔
یاد رہے کہ میاں طفیل محمد ۱۹۷۱ سے ۱۹۸۷ تک جماعت اسلامی کے امیر بھی تھے لہٰذاملکی سیاست میں ان کا کردار کلیدی نوعیت کا اس لیے بھی تھا کہ تب نہ کوئی میاں نواز شریف کے نام سے واقف تھا اور نہ ایم کیوایم وجود میں آئی تھی۔ مولانا نورانی سیاست کا آغاز کررہے تھے، باقی قوم پرست اور علاقائی جماعتیں تھیں یا پھر وڈیروں پر مشتمل بے سمت مسلم لیگ۔۔۔ لہٰذا پہلے فوج )ایوبی دور) اور بعد میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں اگر کوئی ملک گیر منظم سیاسی قوت تھی تو وہ جماعت اسلامی تھی۔ اسی لیے جب ساٹھ کی دہائی میں ایوب مخالف اپوزیشن اتحاد تشکیل دیا گیا تو اس کا صدر میاں طفیل کو بنایا گیا۔ جب بھٹو مخالف قومی اتحاد تشکیل دیا گیا تو جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور احمد تھے اور جب اسی کی دہائی میں پاک فوج نے ‘وسیع تر ملکی مفاد’ میں اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تو قائد میاں نواز شریف اور جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور احمد تھے۔
سہیل وڑائچ کے بارے میں یہ بتاتا چلوں کہ مجیب الرحمان شامی کا ان کے متعلق کہنا ہے کہ سہیل وڑائچ نے انٹرویو نگاری کو نئی جہت ادا کی ہے۔ اس فن میں ان کا کوئی ثانی ان کے معاصرین میں تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جس سے انٹرویو کرتے ہیں اس کی شخصیت اور خیالات کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔۔ بہرحال بات میاں صاحب کے دلچسپ ارشادات کی ہورہی تھی۔ ذیل میں مختصر سوالات میں نے خود بنائے ہیں، اصل سوالات تحریر کرنے کے لیے خاصی محنت کرنی پڑتی پھر پانچ میں سے تین انٹرویوز خبر کی شکل میں تھے۔ بہرحال جوابات میاں صاحب کی سہیل وڑائچ سے ہونے والی گفتگو کا حصہ ہیں۔۔۔ آپ چاہیں تو میاں صاحب کہ خیالات جان سکتے ہیں لیکن کسی تبصرے سے پہلے یاد رکھیں کہ میاں صاحب، بھٹو صاحب، جنرل ضیاء،نوابزادہ نصر اللہ خان اور بے نظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
میاں صاحب، پاکستان میں اسلامی نظام کے کیا امکانات ہیں؟
جب تک مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی موجود ہیں اسلام کے آنے کا خطرہ نہیں ہے۔
ضیاء الحق مرحوم کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
قائداعظم کے بعد اگر کوئی رہنما آیا ہے تو وہ ضیاء الحق تھا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو پاکستان اور مضبوط ہوجاتا۔ مسلمانوں کی تاریخ کے موجودہ دور میں اگر کوئی فیلڈ مارشل پیدا ہوا ہے تو ضیاء الحق تھا روس اور امریکا تھر تھر کانپتے تھے۔
ضیاء الحق اور اسلامی قوانین
ضیاء الحق نے روس کو شکست دے دی لیکن بیگمات کو شکست نہ دے سکے۔ عائلی قانون کے حوالے سے ضیاءاور جرنیلوں سے کہا تھا کہ آپ لوگ توپ کے سامنے کھڑے ہوسکتے ہیں لیکن بیگم کے سامنے نہیں۔
ضیاء الحق اور پاکستان میں اسلام
جنرل ضیاء نے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں اسلام کے ایسے کلے ٹھونک جائے گا کہ جن کو کوئی اکھاڑ نہیں سکے گا اور وہ واقعی ایسے کلے ٹھونک گیا ہے کہ ان کلوں کی وجہ سے بے نظیر کہ سر پر چادر آگئی ہے۔ بے نظیر کی والدہ کا حال دیکھ لیں اب بھی وہی ہے لیکن بے نظیر کے ہاتھ میں تسبیح آگئی ہے، ہر تیسسرے دن بے نظیر عمرے پر چلی جاتی ہے
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں کیا فرق ہے؟
باپ نے تو ہر حیثیت میں ملک کو بگاڑا تھااخلاقی لحاظ سے بھی اور عورتوں کوگمراہ کرنے کے لحاظ سے بھی لیکن بے نظیر کے آنے سے بے حیائی رک گئی اور میرا خیال ہے کہ شاید نواز شریف بھی بے حیائی کو اس طرح نہ روک سکے گا کیونکہ یہ لوگ عورتوں کے سامنے بے بس ہیں۔
بھٹو صاحب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
بھٹو انڈیا کے آدمی تھے۔ انہوں نے انڈیا کی شہریت کے لیے ہائیکوٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا تھا وہ جب تاشقند گئے تو اس وقت بھی انہوں نے سورن سنگھ کو کہا تھا کہ اگر تم ہندوستان کے وزیر خارجہ بن سکتے ہو تومیں بھی بن سکتا ہوں۔ بھٹو تو اس بات کے لیے رضامند تھے کہ ہندستان کے ساتھ پاکستان کو جوڑدیا جائےاور ان کو صدر یا وزیر اعظم بنادیا جائے۔
بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دی جاتی تو کیا صورتحال ہوتی؟
حالات اس سے بدتر ہوتے اگر بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی۔ فوج لوگوں کو دبانے کی کوشش کرتی لوگوں میں بغاوت ہوجاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ضیاء الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ اس نے وزیر اعظم کو قاتل ثابت ہونے پر پھانسی دے دی اور پانچ سینئر ججوں نے بیٹھ کر یہ فیصلہ دیا اس سے زیادہ انصاف کیا ہوسکتا تھا۔
سنا ہے ضیاء الحق آپ کو ماموں کہتے تھے؟
یہ بھٹو صاحب کی شرارت تھی انہوں نے مجھے ماموں کہنا شروع کیا، ضیاء تو مجھے میاں صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
بے نظیر بھٹو کے بارے میں آپ کیا کہنا پسند کریں گے؟
بے نظیر کی حیاء اور چادر کا کریڈٹ ضیاء الحق کو جاتا ہے کہ اس نے چادر اتنے زوروں سے سرو ں کے اوپر بٹھادی کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ بے نظیر اب بھی غنیمت ہیں کہ وہ بے حیائی کا کھلم کھلا پرچار نہیں کرتیں۔ جب کہ مسلم لیگ کی خواتین کھلم کھلا بے حیائی کا پرچار کرتی ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے بارے میں آپ کے خیالات
پیپلزپارٹی کی ماں اور باپ مارشل لاء ہے اور اسے مارشل لاء ہی راس آتا ہے۔ بھٹو صاحب مارشل لاء سے پیدا ہوئے، مارشل لاء سے برسر اقتدار آئے، ضیاء الحق کے مارشل لاء نے پیپلز پارٹی کوزندہ رکھا،پی این اے کو مفلوج کیا اور بے نظیر کو ضیاءالحق خود ملک میں لے کر آئے۔ پیپلز پارٹی کو علم ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے برسر اقتدار نہیں آسکتی۔ ان کے پاس ایک ہی طریقہ ہے وہ کسی جرنیل سے سازش کریں۔ (یادر رہے کہ بی بی دوسری بار بھی جنرل مشرف سے ڈیل کرکے وطن واپس آئیں اور زرداری صاحب کو بھی جنرل مشرف لے کر آئے)
موجودہ ملکی صورتحال پرآپ کا تبصرہ
یہاں سارے کے سارے کام کافرانہ حکومت کے سے ہیں، سب کچھ کافروں والے دور کا ہے۔ جوا،شیراب اور چکلے سب چل رہے ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن کی جگہ غلام اسحاق خان،گورنر موڈی کی جگہ میاں اظہر اور سکندر حیات کی جگہ نواز شریف آگیا ہے۔ ملک میں رشوت ہزار گنا بڑھ گئی ہے،ملاوٹ میں اضافہ ہوگیا ہے،ڈاکے اور اغواء کی وارداتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب برائیوں کی جوابدہی حکومت کے ذمے داران کو خدا کے سامنے کرنی پڑے گی۔
موجودہ مسلم لیگ کے بارے میں آپ کی رائے
موجودہ مسلم لیگ پچاس سال کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد میاں نواز شریف کی قیادت میں مینڈکوں پنیری پر مشتمل ہے۔ الاماشاء اللہ دولت دنیا اور مادی مفادات کے حصول کے لیے دین وایمان اور اپنی عاقبت سمیت سب کچھ قربان کردینے کے لیے ہردن تیار رہتے ہیں۔
اے این پی نے صوبہ سرحد میں مرحوم باچا خان کی یادگار بنانے کی کوشش کی تو مسلم لیگ نے تنقید کیوں کی؟
میں عبدالغفار خان کا پورا احترام کرتا ہوں انہوں نے انگریزوں کے خلاف جو جدوجہد کی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔۔۔ لیکن جس شخص نے پاکستان سے اتنی نفرت کی اور مرنے کے بعد یہاں دفن ہونا قبول نہیں کیا اب ان کی یاد میں یہاں کوئی چوک بنانا یا یادگار تعمیرکرنا ان کی روح کو عذاب دینے والی بات ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ان کی کوئی یادگار بنانی ہے تو وہ ہندوستان میں بنانی چاہیے وہی ایک ملک رہ گیا ہے جو ان کی پسند کا ہے اب تو افغانستان پر بھی ان کے دشمنوں (مجاہدین) کا قبضہ ہوگیا ہے۔۔۔
نوابزادہ نصر اللہ خان نے اے پی سی بلائی ہے؟
آل پارٹیز کانفرنس نوابزادہ نصر اللہ کا شغل ہے وہ ان دنوں حقے اور آل پارٹیز سے شغل کررہے ہیں۔
موجودہ سیاسی قیادت کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اب جو لیڈر آپ کے سامنے ہیں ضلعوں کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور قومی لیڈر بنے ہوئے ہیں کوئی بھارت اور کوئی امریکا کے بل پر کود رہا ہے
میاں صاحب، پنجابی زبان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
پنجابی تو گالیوں کی زبان ہے۔۔۔ اس میں توکوئی جتنی بڑی گالی دے اتنا ہی بڑا ادیب ہے۔۔۔ پنجابی زبان کا حقیقت میں تو کوئی مستقبل نہیں ہونا چاہیے مسلمانوں کو تو عربی سیکھنی چاہیے۔ سعودی عرب میں روس، امریکا، بھارت اور جاپان کے سفیر عربی بولتے ہیں۔ ہمیں یورپ کے مقابلے میں زیادہ احساس کمتری ہے، ہماری کوئی شخصیت یا پہچان نہیں ہے۔ ہمیں تو ضیاء الحق کو دعائیں دینی چاہیںم کہ اس نے ہمارا لباس بدل دیا ہے ،یہ صرف اس کی ہمت ہے ، ضیاء الحق جہاں بھی گیا اس نے اپنے لباس اور زبان کی پہچان کروائی اور قران کی تلاوت کو سامنے رکھا۔
روحانیت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
اسلام تو ہمیں بندگی سکھاتا ہے جسے روحانیت کہتے ہیں وہ تو سادھوؤں اور جوگیوں میں بھی بہت ہے اسلام جس روحانیت کا قائل ہے اس میں خدا کی نافرمانی کا تصور نہیں ہے تسبیح پھیرنا روحانیت نہیں یہ تو اصل میں روحانیت کی نمائش ہے
امریکا کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں؟
امریکا کا حال سندھ سے مختلف نہیں شکاگو اور نیویارک حیدرآباد اور کراچی بنے ہوئے ہیں امریکا اور انگلینڈ کی اخلاقی حالت تباہ کن حد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا اس لیے دندنا رہا ہے کہ اس کا سابقہ عربوں سے پڑا ہے جنہیں دولت نے کینسر کا مریض بنادیا ہے
مودودی صاحب پاکستان کے مخالف تھے؟
مودودی صاحب پر تحریک پاکستان کی مخالفت کا الزام لگانے والے بھول جاتے ہیں کہ قائداعظم کی زندگی میں ۱۹۴۸ء میں حکومت کی طرف سے مولانا مودودی کو ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظام کی وضاحت کی دعوت دی گئی تھی۔
 مصنف :  اسد احمد ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]