میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

جو نہ کٹے آری سے ، وہ کٹے بہاری سے !!!

برصغیر پاک و ہند میں طرح طرح کے محاورے استعمال کیے جاتے ہیں ۔کچھ محاورے تو اردو زبان دانوں کی ایجاد ہے اور کچھ دوسری زبانوں سے مستعار لی گئی ہیں ۔ محاورات کی تاریخی پس منظر بھی ہواکرتی ہیں ۔ہم آج جس محاورے کا تذکرہ لیے بیٹھے ہیں ۔ اس کا پس منظر تاریخی بھی ہے اور دلچسپ بھی ۔۔۔۔
ہوا کچھ یو ں کہ    ::::-----
                پرانی دہلی (بھارت)میں ایک صاحب کی جنرل اسٹور کی دکان تھی ۔ اس نے اپنے اسٹور میں تقریباً ہر طرح کا سامان جمع کر رکھا تھا ۔مگر اسے متواتر نقصان ہو رہا تھا ۔فائدے کی تلاش میں اس نے کافی جتن کیے جو کہ بے سود ثابت ہو ئے ۔ دوستوں کے مشورے پر اس نے ایک تجربہ کار بہاری سیلز مین کو رکھ لیا ۔ کچھ دنوں میں اس کی دکان سونا اگلنے لگی ۔مالک کو کافی فائدہ ہونے لگا ۔ مالک کو اچانک کے فائدے سے کافی تعجب ہوا ۔اس نے ایک دن خفیہ جائزے کا پروگرام بنایا ۔دکان کے سامنے لگے درخت کی اوٹ لے کر دکان پر اپنے کا ن کھڑے کر کے نگاہیں ٹکادیں ۔اس کا بہاری سیلزمین ایک گاہک سے بھاؤ تاؤ کر نے میں مصروف تھا ۔گاہک مچھلی کے شکار کے لیے ڈور خریدرہا تھا ۔
” جب آپ ڈور خرید رہے ہیں تو اسکے لیے ہُک کی بھی ضرورت ہوگی ؟؟؟۔“بہا ری سیلز مین نے کہا اورگاہک نے سر ہلا دیا ۔
”شکار میں مچھلیوں کے لیے چارے کی بھی ضرورت پڑتی ہے ۔“بہاری سیلز مین نے کہا اور گاہک نےسر ہلا دیا ۔
”جب آپ مچھلیاں شکار کر لیں گے تو اس کے لیے مخصوص شکاری بیگ کی بھی ضرورت ہوگی؟؟؟ ۔“ بہاری سیلز مین نے کہا اور گاہک نے  سر ہلا دیا ۔
”جب آپ شکار کرلیں گے تو آپ اسے پکائیں گے بھی۔اسکے لیے آپکو پکانے کے لوازمات کی ضرورت ہوگی  ؟؟؟۔“  سیلز مین نے کہا اور گاہک نے سر ہلا دیا ۔
”جب آپ پکائیں گے تو اسے کھائیں گے بھی، اس کے لیے آپ کو پلیٹ وغیرہ کی ضرورت ہوگی ؟؟؟۔“ بہاری سیلز مین نے کہا اور گاہک نے  سر ہلا دیا ۔
”آپ سات دن کے لیے جارہے ہیں تو وہاں رکنے کے لیے خیمے وغیرہ کی بھی ضرورت ہوگی ؟۔“ بہاری سیلز مین نے کہا اور گاہک نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
اس طرح وہ بہاری سیلزمین گاہک کی رضامندی سے اس کو  چیزیں خریدنے کے لیے قائل کرتا رہا ۔ اس نے تقریباًدس ہزار روپے کی خریداری کروالی ۔
جب وہ گاہک چلاگیا تو اس کا دکان کا مالک دکان پر آیا اور بہاری کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ صرف ایک ڈور خریدنے آیا تھا اور اس نے اسے دس ہزار کی چیزیں خرید پر آمادہ کر لیا ۔
”جناب !!! وہ ڈور خریدنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ اپنی بیگم کے لیے پیڈ خریدنے آیا تھا ، جوکہ ہماری دکان میں نہیں تھی  ، تو میں نے اسے کہا کہ تم گھر پر رہوگے اور بیگم کے چڑ چڑ ے پن کو سہو گے ، اس سے اچھا ہے کہ تم موج مستی کرو ، پکنک میں جاؤ ، اور میں نے اسے پکنک کے لیے راضی کیا اور اس کو خریداری کر وادی ۔“ بہاری نے مالک سے فخریہ انداز میں کہا ۔
”واقعی !!! جو نہ کٹے آری سے ، وہ کٹے بہاری سے ۔“ مالک نے رشک بھرے انداز میں بہاری کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
---------------------------------
---------------------------------
کسی ”بہاری بابو“ کا ذکر ہو
 اور
 ”بہاری کباب“ کا ذکر نہ ہو ، یہ کیسے ہو سکتا ہے
=== دونوں کا کام ایک ہی ہے===



راوی:  مولانا عرفان عادل منصوری ۔
(جامعہ امام نعمان ۔کراچی)                             
 تحریر:  ابن ساحل ۔(بہ کی بورڈ خود)

ادارہ’’سنپ‘‘ راوی  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]