24 ستمبر کے سیاہ دن امریکی جج رچرڈبر مین نے تمہیں امریکی شہریوں کے ’’اقدام قتل ‘‘کے دو سنگین الزامات سمیت پانچ ایسے الزامات ، جن میں نہ کوئی قتل اور نہ ہی اقدام قتل ہے ،مجرم قرار دیدیا،اور یوں تمہیں سسکتی زندگی کے 38 برسوں پر ،مزید اَن دیکھے 86 برسوں کے لیے زندہ در گور کر دیا ۔۔۔
عافی !سنا ہے کہ جو کچھ ہم زبان سے کہتے ہیں ، وہ ہمارے تحت الشعور کے اس اَن کہے ذخیرہ کا کچھ فیصد بھی نہیں ہوتا جو ہم کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں ، اور جو ہماری منافقت اور بزدلی کی اوت میں جاچھپے ۔۔۔ وہ ا،س کے سوا ہے ۔
رچرڈ بر مین کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جو کچھ وہ تم سے کہنا چاہ رہا تھا ، اُسے اُس کی منافقت اور بزدلی نے کہنے نہ دیا ۔حالانکہ وہ جانتا تھا کہ تم بے گناہ ہو۔۔۔بے قصور ہو ۔۔۔تم ان جرائم کی مر تکب نہیں ہو جو تم پر امریکی جسٹس جیوری عاید کر رہی ہے ۔۔۔لیکن عافی ! تم اُ ن سنگین جرائم کی ضرور بالضرور مر تکب ہو جو رچرڈبر مین کے تحت الشعور میں بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں ۔۔۔وہ تم سے ایسا کیا کہنا چاہ رہا تھا، جو کہہ نہیں پا یا وہ مجھ سے سنو!!!
وہ جب اپنی تھوڑی اور کچھ چہرے کو اپنی انگلیوں کی بنی نشست پر ٹکائے ، آنکھوں کو وکلاء پر مرکوز کیے کیس کی سماعت کر رہا تھا تو جانتی ہو ۔۔۔اس کے دل کے نہاں خانے میں بسا کمرہ عدالت کن الفاظ سے گونج رہا تھا ؟سنو ۔۔۔!!! وہ چارج شیٹ جو تمہیں پڑھ کر سنائی نہیں گئی ۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا :
’’اونہہ ۔۔۔ ڈاکٹر عافیہ تم مجرم ہو ۔۔۔!!! بے شک تم نے اسلحہ نہیں اٹھا یا ۔۔۔ کوئی حملہ ، کوئی پر تشدد کارووائی نہیں کی ۔۔۔ میں یہ بھی مانتا ہو ں کہ تمہارے نازک ہاتھوں اور کمزور کلائیوں کو M-4رائفل سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔۔۔مگر تم پھر بھی مجرم ہو۔۔۔ تم مجرم ہو ان سنگین جرائم کی ۔۔۔ کہ جن کی تاب یہ سات جرائم پر مشتمل شیٹ تو کیا ، آنے والی تاریخ کے صفحات لا سکیں گے ۔
سنو عافیہ !!!تمہارا پہلا جرم یہ ہے کہ تم اعلیٰ امریکی تعلیمی اداروں کی ڈگری ہولڈر ہو نے کے باوجود چہرے پر پاکیزگی ، معصومیت اور دل کو نورِ حق (قرآن )سے مزین کیے ہو ئے ہو ،تمہارا دامن اُن گناہوں سے آلودہ نہیں جو ’’جولی اور جینی ‘‘کے دیس کا حسن ہے ۔
حیرت ہے ۔۔۔ تم اتنی پڑھی لکھی ہو نے کے باوجود مسلم تشخص پر اس قدر نازاں رہیں کہ نہ ہمارے کلبوں کو زینت بخشی ، نہ ہماری برانڈی کا لطف اٹھا یا ۔۔۔گو یا ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارے تمہاری سیرت کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔
نہیں ۔۔۔عافیہ صدیقی ۔۔۔نہیں !!! یہ گوارا ہو ہی نہیں سکتا ہمیں کہ ہماری تہذیب جس کے جلو میں ہزاروں طرب انگیزیاں ہیں ، کسی پر مہربان ہونے کو مچلے اور ’’وہ ‘‘اپنا ضمیر بچانے کےلیے پناہ گاہیں ڈھونڈتا پھرے ۔۔۔، اپنے اندر کے بے کیف قلعوں میں پناہیں لیے پھرے ۔۔۔ یہ تو ہین ہے ہماری تہذیب کا ، اس کلچر کی جسے ساری دنیا پر چھا جانے کا حق ہے۔۔۔
And you…!!! O,,no it never can be acceptable. AAfI!!!
تمہارا اگلا جرم ۔۔۔!!!اس سے بھی بڑھ کر عافیہ !!! ۔۔۔ کہ امریکی بہشت میں رہتے ہوئے تمہارا دل امت مسلمہ کی تباہی پر تڑپا ۔۔۔ وہ دل کہ جسے خود غرضی ، نفس پرستی اور عیش و عشرت میں سر مست ہو نا چاہیے تھا ۔۔۔ وہ تباہ ہو تے گھروں ،بیوہ ہوتی عورتوں ، یتیم رہ گئے بچوں اور رقص بسمل کر تے مسلمان مردوں ۔۔۔ اپنے دینی بھائیوں کے درد میں رنجور ہو تا گیا ۔۔۔ !!!؟؟؟
اور سنو عافیہ صدیقی !!! تمہارا تیسرا بڑا اور سنگین جرم کہ تم نے اس دور میں جنم لیا جب اپنے مذہب ،بیٹوں اور بہنو ں پر غیرت کھانے والا محمد بن قاسم اور اندلس کی ستم رسیدہ ’’غیر مذہب ‘‘بیٹی کی فریاد پر کشتیاں جلاکر اندلس میں اترنے والا طارق بن زیاد ناپید ہوچکے ہیں ۔
تمہارے ایسے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے عافیہ ۔۔۔!!!لیکن میں اپنا قیمتی وقت ان کی تفصیلات پر ہرگز نہیں گنواؤں گا ۔ بس اتنا مزید سن لو کہ اس لسٹ میں ، اس چارج شیٹ میں سر فہرست یہ ہے کہ تم ۔۔۔ ہا ں عافیہ تم !!! ایک بٹی ہوئی ، متشر الکیال اور منتشر العمل قوم کی بیٹی ہو ۔۔۔ رنگ و نسل ، زبان و فرقے اور مفادات کی اَن گنت ٹولیوں کے وجود کا حصہ ۔۔۔ میں مقدس بائبل پہ ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ تمہارا درد اگر کسی ایک قومی وجود کی تڑپ بن کر مچلتا تو ۔۔۔ بحر اوقیانوس کے کنارے دہل جاتے ۔۔۔ ہاں عافیہ !جدید فرعونوں کے یہ امریکی اہرام لرز کے رہ جاتے کہ قومیں بڑی طاقت ہوا کرتی ہیں ۔۔۔ قومی طاقت وہ طوفان ہے کہ جس کے آگے کوئی بند نہ ماضی میں اپنا وجود رکھ سکا ، نہ مستقبل میں رکھ پائے گا۔
سُنو ۔۔۔ !!! دنیا کی نظر میں میرے قلم سے ثابت شدہ مجرم اور میری نظر مین دنیا کی سب سے مظلوم اور معصوم عافی ۔۔۔دل کے کان لگا کے سنو ۔۔۔ تمہارا اس سے بھی بڑا اور سنگین تر ین جرم ۔۔۔ کہ تم اس دیس کی بیٹی ہو ۔۔۔ جس کے حکمرانو ں کا کاسہ گدائی ہمارے جوتے کی ٹھوکر سے خائف ہے ۔۔۔۔کہ اس میں کھنکتے سکے ان کی اور ان کی آئندہ ’’نسلوں ‘‘کا سر مایہ حیات ہیں ۔۔۔ سو تم بھی چپ چاپ سنو اور ہمارا لکھا ہوا بیان کر دو ۔‘‘
سو تم نے مکمل طور پر نہیں صرف تمہاری ’’زبان نے ‘‘عافی ۔۔۔ وہی پڑھا جو لکھا ہوا ملا ۔۔۔ لیکم تمہاری استقامت نے ہم سمیت ہر بزدل کو بذدل دل کو بزبان حال جو پیغام دیا کہ ۔۔۔
خنجر ظلم آزاد نہ ہو گا
اثر نہ باقی رہے گا تم پر
عیسیٰ ؑ وقت مصلوب ہو جس پر
جان رہے کیوں ایسے رسن میں
سن لو وقت کے جھوٹے خداؤں !
بہت ہے جان ابھی حق کے بدن میں
وہ چہار دانگ عالم میں بجلی کی کڑک بن کر پھیل گیا ہے ۔اور تمہارا زنداں ہمارے لیے وہ روشن مینارہ ہے جو تجھ جیسی آہن صفت بیٹیوں کے ولولوں کو مہمیز کر تا رہے گا۔
خواہ وہ مشرق کی بیٹی ہو یا مغرب کی ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحبہ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]