میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

علیم ڈار: فخر پاکستان

جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔جن کے فیصلوں کا طوطی بولتا ہے ۔
آئی سی سی ورلڈکپ 2011اپنی تمام تر رعنائیوں اور جیت کی شہنائیوں اور بھارت کی جیت کی صورت میں دراصل ایشین بلاگ کی جیت پر اختتام پذیر ہو گیا۔
اس ورلڈکپ کے دوران تمام ٹیموں نے بھرپور قوت کا مظاہرہ کیا ،اکثر کھلاڑی سر توڑ محنت اور لگن سے مختلف ریکارڈ زکو روندتے اور نئے سنگ میل کو عبور کرتے چلے گئے ۔اس ورلڈکپ کے دوران کئی ٹیموں نے نشیب و فراز دیکھے ، کئی جیت کے ہارے تو کئی ہار کے جیت گئے ۔
پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں بھارت سے ہار کر ورلڈکپ سے باہر ہوگئی مگر ایک پاکستانی ایسا بھی تھا جو اس ورلڈ کپ کےفائنل میں موجود رہا ، جو خود تو نہیں کھیل رہا تھا بلکہ وہ دونوں ٹیموں کو کھیلا رہاتھا ۔بھارت ، پاکستان اور سری لنکا کو ہرا کرورلڈ کپ تو جیت گیا مگر ایک پاکستانی کو پوری دنیا ئے کرکٹ نہیں ہرا سکی اور وہ سر خرو ہو کر لوٹا۔(سلام تم پر ۔۔۔سلام تم پر )
علیم سرور ڈار 6فروری 1968کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ میں پیدا ہوئے ، کسے معلوم تھا کہ یہ سپوت  مستقبل میں ایک منفرد انداز میں پاکستان کا نام روشن کرے گا ۔
دائیں ہاتھ سے بلے بازی اور لیگ بریک باؤلنگ کرنے والے علیم ڈار نے نوجوانی میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی تھی  ۔انہوں نے الائیڈ بینک ، گوجرانوالہ کرکٹ ایسوسی ایشن اور پاکستان ریلوے کی طرف سے کر کٹ کھیلی ۔
علیم ڈار کا امپائر بننا دلچسپ پس منظر رکھتا ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کھیلنے والے کسی بھی نوجوان کی طرح وہ بھی ٹیسٹ کرکٹر بنناچاہتے تھے لیکن ان کے والد پولیس میں تھے اور ان کی پوسٹنگ بہاولنگر۔ چشتیاں اور سہالہ میں ہوتی رہی جہاں کرکٹ نہیں تھی،لہٰذا علیم ڈار کو ان کے بڑے بھائی لاہور لے آئے جہاں اسلامیہ کالج سول لائنز میں وسیم اکرم کے ساتھ ان کا داخلہ ہوا، تاہم ایک عشرے پر محیط فرسٹ کلاس کرکٹ کریئر میں محض سترہ میچز کھیلنے کے بعد انہوں نے امپائرنگ کی طرف رجوع کیا جس کا مشورہ انہیں اظہر زیدی نے دیا جن کے کلب پی اینڈ ٹی جمخانہ سے متعدد ٹیسٹ کرکٹرز بھی کھیلتے رہے ہیں۔

علیم ڈار نے ایک انٹروویو میں کہا تھا کہ : ’’امپائرنگ میں آنے کی وجہ شاید یہ بھی رہی کہ مجھے بھی بعض اوقات غلط آؤٹ دے دیا گیا۔اس کے علاوہ مجھے یہ بھی احساس تھا کہ پاکستانی امپائرنگ کا معیار بھی اچھا نہیں تھا جسے میں اپنی اہلیت اور کارکردگی سے بلند کرنا چاہتا تھا۔‘کرکٹ سے رخصت ہونے کے بعد امپائرنگ ان کی وجہ  شہرت بنا۔
آپ نے اپنا بین الاقوامی امپائرنگ کا سفر پاکستان اور سری لنکا کے مابین 16 فروری2000 میں گوجرانوالا میں کھیلے جانیوالے ایک روزہ بین الاقوامی سے کیا۔ 2002 میں وہ آئی سی سی کے امپائر کے بین الاقوامی پینل کا حصہ بنے۔اپنے نپے تلے اور درست فیصلوں کی وجہ سے انہیں آئی سی سی ورلڈ کپ 2003ءمیں امپائرنگ کرنے کا موقع ملا، ان مقابلوں میں  ڈار کو کافی پذیرائی ملی۔ اکتوبر 2003 ءمیں اپنی بہترین  امپائرنگ کی وجہ سے ڈار اپنے پہلے پانچ روزہ بین الاقوامی مقابلہ جو بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مابین ڈھاکا میں کھیلا گیا، نامزد کیا گیا ۔اپریل 2004 میں وہ آئی سی سی کے ایلیٹ (ممتاز) پینل کے پہلے پاکستانی امپائر بنے۔
علیم ڈار 2005 اور 2006 میں آئی سی سی کے بہترین امپائر کے اعزاز کے لئے نامزد ہوئے مگر دونوں دفعہ آسٹریلوی امپائر سائمن ٹوفل بازی لے گئے۔
17 اکتوبر 2007 کو آسٹریلیا اور بھارت کے مابین کھیلے جانے والا ایک روزہ مقابلہ علیم ڈار کے لئے خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ ان کا ایک سوواں میچ تھا اور وہ یہ سنگ میل طے کرنے والے دسویں امپائر بنے۔ انہوں نے یہ سنگ میل صرف سات سالوں میں پورا کیا۔
2007 میں کھیلے گئے   ورلڈکپ فائنل میں ڈار اور ان کے ساتھیوں اسٹیو بکنر، روڈی کرٹزن، بلی باؤڈن اور کرو کو ڈک ورتھ لوئس کے تحت ہونے والے کھیل کے حالات سے بے خبرہونے اور آسٹریلیا کو اندھیرے میں تین اوور کروانے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجہ میں آئی سی سی نے باقی امپائروں کے ساتھ ساتھ اس میچ کے تمام سپروائزرز کو 2007ءکے ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں امپائرنگ کا موقع نہیں دیا گیا۔
آئی سی سی نے حال ہی میں یہ رائے شماری کرائی تھی کہ کون سا امپائر دوسرے کس امپائر کے ساتھ امپائرنگ کرنا پسند کرتا ہے جس کا نتیجہ اس فیصلے کی صورت میں سامنے آیا کہ سائمن ٹوفل اور علیم ڈار کی جوڑی سب سے بہترین اور لائق ہے۔ خود علیم ڈار کو بلی باؤڈن اور ڈیرل ہارپر کے ساتھ امپائرنگ میں مزہ آتا ہے جو ان کے خیال میں بذلہ سنجی میں مشہور ہیں۔
ویسٹ انڈین بیٹسمین برائن لارا نے جس ٹیسٹ میں چارسو رنز کی ریکارڈ ساز اننگز کھیلی تھی اس میں علیم ڈار امپائر تھے۔ اس کے علاوہ وہ جنوبی افریقہ کے اس میچ میں بھی امپائر تھے جس میں انہوں نے 435 رنز کا ریکارڈ ہدف عبور کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ان دونوں میچوں کو وہ اپنے یادگار لمحات قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
علیم ڈار کے خیال میں بھارت یا بنگلہ دیش میں امپائرنگ آسان نہیں اور اس کی وجہ وہاں تماشائیوں کا زبردست شور ہے۔ ان کے مطابق ’اس شور میں کسی بھی امپائر کے لیے کاٹ بی ہائنڈ کا فیصلہ دینا آسان نہیں ہوتا کیونکہ تماشائیوں کے شور میں پتہ نہیں چلتا کہ گیند بلے سے لگی ہے یا نہیں‘۔
علیم ڈار سے جب حالیہ ایشیز سیریز کے دوران مشکل صورتحال میں درست فیصلوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ انہیں پہلے ٹیسٹ اور پھر آخری دو ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کے لیے کہا گیا تھا۔
انہوں نے آئی سی سی سے اس کی وجہ پوچھی تو انہیں بتایا گیا کہ ایشنر کے پہلے ٹیسٹ میں غیرمعمولی دباؤ ہوتا ہے اور اسی طرح کی صورتحال آخری میچوں میں ہوتی ہے ۔انہیں خوشی ہے کہ وہ ان تمام میچوں میں آئی سی سی کے اعتماد پر پورا اترے اور تین ٹیسٹ میچوں میں ان کا صرف ایک فیصلہ ریورس ہوا۔
علیم ڈار برسبین ٹیسٹ میں سو فیصد درست فیصلوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’بعض امپائرز ٹیکنالوجی کو ذہن پر سوار کرلیتے ہیں جبکہ وہ ٹیکنالوجی کو عام انداز سے دیکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی امپائرنگ کو نارمل رکھا ہوا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جب کسی امپائر کا فیصلہ ریورس ہوتا ہے تو اس کا اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے‘ لیکن وہ اسے ذہن پر سوار نہیں کرتے بلکہ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو وہ اگلی گیند کے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں۔
میلبورن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کے ساتھ طویل بحث کے بارے میں علیم ڈار کہتے ہیں کہ وہ اس سے قطعاً پریشان نہیں ہوئے تھے کیونکہ انہیں اپنے فیصلے پر مکمل یقین تھا لیکن پونٹنگ کی بحث طویل ہوتی گئی وہ بضد تھے کہ ہاٹ اسپاٹ میں نشان آرہا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ گیند بلے کے نصف حصے کے قریب سے بیٹ ہوئی ہے جبکہ نشان بلے کے نچلے حصے کی طرف ہے۔علیم ڈار کے مطابق یہ بات پونٹنگ کو سمجھ میں آگئی لیکن طویل بحث پر انہیں جرمانہ بھی ہوا تاہم جب وہ میچ ریفری کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے برملا کہا کہ علیم ڈار ان کے لئے ہائی رینکنگ امپائر ہیں ان کی بحث ٹیکنالوجی سے تھی علیم ڈار سے نہیں ۔
علیم ڈار اپنی چھ ماہ کی حالیہ رپورٹ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آئی سی سی ایوارڈ ملنے کے بعد انہوں نے ون ڈے میں سو فیصد نمبر حاصل کیے ہیں جبکہ ٹیسٹ میچوں میں یہ نوے فیصد ہیں۔
علیم ڈار امپائرز ڈیسیشن ریویو سسٹم کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے حق میں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ٹیسٹ میچز بلکہ ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی میں بھی اس کے استعمال سے درست فیصلوں تک پہنچنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
علیم ڈار کے خیال میں کرکٹ میں جتنی ٹیکنالوجی آگئی ہے وہ کافی ہے، اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔وہ ایل بی ڈبلیو فیصلے کے لئے ٹی وی امپائر کی مدد حاصل کیے جانے کے حق میں نہیں ہیں۔
علیم ڈار کے تین بیٹے ہیں۔ بڑے کو وہ حافظ قرآن بنا رہے ہیں جبکہ سب سے چھوٹے کے بارے میں انہوں نے سوچ رکھا ہے کہ وہ کرکٹر بنائیں گے۔
علیم ڈار کہتے ہیں: ’میں پچاس سال کی عمر تک امپائرنگ کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس وقت تک فیلڈ میں رہنا چاہتا ہوں جب تک میری آنکھیں اور کان میرا ساتھ دیتے رہیں۔
علیم ڈار سے صحافی جاوید اقبال نے سوال کیا کہ آپ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے تو آپ امپائرنگ کے دوران سیدھے ہاتھ کے بجائے الٹے ہاتھ کا استعمال کیو ں کرتے ہیں تو انہوں کیا خوبصورت جواب دیا کہ:’’ میں شہادت کی انگلی  کی قدر و منزلت سے واقف ہوں اور اپنے غلط فیصلوں سے اس میں کمی نہیں کرنا چاہتا۔اسی لیے میرے فیصلے صحیح ہوں یا غلط میں الٹے ہاتھ سے ہی فیصلہ دینا پسند کرتا ہوں ۔‘‘
آئی سی سی کے بہترین امپائرکا ایوارڈ 2009 اور 2010سے مسلسل ’’علیم ڈار ‘‘ہی جیت رہے ہیں اور یہ سفر جاری ہے ۔
 آئی سی سی ورلڈکپ 2011 میں جیت کا سہرا کسی کے بھی سر ہو ،علیم ڈار کی صورت میں جیت  پاکستان کی بھی ہوئی ہے ۔
____فخر کرکٹ اور فخر پاکستان ’’ علیم ڈار‘‘ کے حوالے سے چند دلچسپ ویڈیوز _____ 





مضمون نگار :  ابن ساحل ۔(بہ کی بورڈ خود)
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]