گذشتہ دنو ں پاکستان کی سیمی فائنل میں ہارپر ہم کچھ بجھے بجھے سے تھے کہ ہمارے ایک انتہائی عزیز دوست کا’’SMS‘‘آیا کہ : ’’پونم نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ نہیں۔‘‘پیغام پڑھتے ہی ہمارے قہقہے تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے،یہ صرف اس لیے نہیں کہ ہمیں پیغام ذرا جلدی سمجھ میں آگیا تھا بلکہ جن کا پیغام، ان کی شخصیت ، اور انہونی بات قہقہے کی وجہ بنی ہوئی تھی ۔ابھی ہم نے جواب دینے کا مصمم ارادہ کیا ہی تھا کہ دوسرا پیغام آگیا کہ :’’پونم کا وعدہ کس چینل سے دکھا رہے ہیں ۔‘‘ پیغام تو انتہائی مختصر تھا مگر اپنے اندر کافی طوالت لیے ہوئے تھا ۔
مدعا کچھ یوں ہے کہ:’’پونم پانڈے ایک ہندوستانی ماڈل ہے ‘ ا س نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر ہندوستانی ٹیم ورلڈ کپ میں جیت حاصل کر تی ہے تو وہ اپنے ’’برہنہ ‘‘ نظر آئے گی ۔ہندوستان تو جیت گیا مگر اب پونم پانڈے اپنے بیان سے مکر گئی ہے ۔ اس نے سو طرح کی شرطیں لگا دی ہیں۔ مذکورہ واقعہ سے دو سبق حاصل ہو تے ہیں۔ اول تو یہ کہ انسان ’’ جوش میں ہوش نہ کھوئے ‘‘ پونم پانڈے کااعلان بلا شبہ جو ش میں ہوش کھونے والی کہاوت پر صادق آتا ہے ۔ لیکن قصور کچھ پونم پانڈے کا بھی نہیں ہے ۔ سارا ہندوستان مغربی رنگ میں رنگا ہوا ہے اور پرانی قدریں دم توڑ چکی ہیں ‘ ماضی میں اگر کوئی اس طرح کا اعلان کرتا تو سارا ملک اس پر تھو تھو کر تا اور والدین طمانچے جڑدیتے۔۔۔لیکن آج ہندوستان مغرب سے اس طرح قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے کہ پونم پانڈے کے اعلان کو ’’ بے حیائی ‘‘ نہیں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے تئیں ایک’’تہنیت ‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ پونم پانڈے نے بھلے ہی جوش میں ہوش کھودیے مگر اسے جو شہرت ملی اس کے بل پر اس کا کاروبار یعنی ماڈلنگ کا پیشہ آسمان چھورہا ہے۔لوگ اسے سر پر بٹھا رہے ہیں اور کمپنیاں اسے اپنے اشتہارات میں لے کر آسمان پر پہنچانے کے درپے ہیں ۔ اسے ترقی سمجھا جارہا ہے پر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اخلاقی زوال کی بے حد بدترین شکل ہے ۔ پونم پانڈے کے واقعہ سے دوسرا سبق یہ حاصل ہو تا ہے کہ آج تو اعلان ہی ہوا ہے آنے والے کل کو ہندوستان میں اس طرح کے اعلان پر ’’ عمل ‘‘ بھی ہو سکتا ہے اس لئے وہ والدین جو اپنے بچوں کو ’’پونم پانڈے ‘‘ بنتے دیکھنا نہیں چاہتے ہیں وہ بچوں پرنظر رکھیں ۔ ممکن ہے کہ بچے یہ سوال کردیں کہ ’’ کیا آپ کو ہم پراعتبار نہیں ہے؟‘‘پراس سوال پر بلا جھجھک یہ جواب دے دیں کہ ’’ خیال ہے اسی لئے ہم نظر رکھ رہے ہیں‘‘۔
ہمیں تو یہ ڈر بھی کھا ئے جارہا ہے کہ بولی ووڈ گلیمرز کی وجہ سے پونم کا اعلان کوئی بڑی بات نہیں کیوں کہ وہاں پھر بھی یہ قابل قبول ہو جائے گا۔خدانخواستہ کل پھر کسی سیمی فائنل یا فائنل میں روایتی حریف کا مقابلہ ہو جائے اور جوش میں کوئی پاکستانی ’’پونم ‘‘کو نیچانے دکھانے پر نبرد آزما ہوجائے ۔کم از کم پاکستانی معاشرہ تو اسے کسی طورپربھی ہضم نہیں کر پائے گا ۔(الامان والحفیظ)
پاک بھارت کی سیاسی ڈپلومیسی جیسی بھی ہو،عوامی ڈپلومیسی ہمیشہ سے ایک ہی طرح رہتی ہے ۔ ’’پل میں ماشا، پل میں تولا۔ ‘‘ کیوں کہ دونوں ملکوں میں عوامی جذبات سے کھیلا جاتا ہے ۔
مضمون نگار : ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]