میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

خبر دار!!! کہیں آپ بھی تو۔۔۔

نیا زمانہ اپنے ساتھ بیماریاں بھی نئی نئی لائے گا۔ ٹیکنالوجی کی ریس لگانے والے یہ بھول گئے کہ اس جِن کو جگانے کے چکر میں ہمیں کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا!جی ہاں انتظار کیجیے ،کچھ یہ پڑھیے اورچند مزیدتکنیکی قسم کی بیماریوں کا جو صرف اس ترقی یافتہ دور کا ہی تحفہ ہے خالص ترقی یافتہ دور کا تحفہ جس میں کسی پرانے دور کی شاید شبیہ نہ ملے۔
بیماریاں بھی ایسی کہ شاید ہم میں سے اکثر کو ان کا ادراک یا شعور تک نہیں پڑھیے اور سر دُھنیے کہ کس قیامت کہ یہ نامے یہ دور لا یا ہے اور پھر مجھ پر حسبِ عادت ایک قنوطی،دقیانوسی اور بڈھی روح ہونے کا فتوی فائرکیجیے ۔ تاکہ مجھے مزید عقل کا ماتم کرنے کا موقع مل سکے۔ملاحظہ فرمائیں دور جدید کی چند سوغاتیں:
وقت کا دباؤ:
ایک بہت عام بیماری وقت کی کمی کا احساس یا دوسرے الفا ظ میں’’ غریب الوقت ہو جانا‘‘ہے، اپنے گھر فیملی اوردوسرے معاملات کی خبر گیری میں الجھ کر اتنا مصروف ہوجانا کہ سانس لینے کا بھی اپنے آپ سے وقت لینا پڑے اور طے شدہ وقت میں کام کرنے کی پوری کوشش کے باوجود ان سے اتنا ہی پیچھے ہو جانا جتنا کام کے شروع میں ہونا۔اس وقت کی کمی کا احساس کچھ بد احتیاطی بھی ساتھ لے آتا ہے جن میں سر فہرست ڈپریشن ، بے خوابی اور ذہنی دبائو ان سب کی وجہ صرف وقت کی کمی کا احساس مستقل سر پر سوار رکھنا۔۔۔ گویا ہم سب غریب وقت ہو چکے ہیں حیرت کی بات ہے نا تیز ترین دور کی بیماری’’ غریب وقت ہونا‘‘۔۔۔
جِلد کا ٹوسٹ ھوجانا  (Toasted Skin Syndrome):
ایک تازہ ترین کیس اسٹڈی کے مطابق ایک بارہ سالہ لڑکا اپنی ٹانگ جلا بیٹھاجب کہ وہ لیپ ٹاپ کو اپنی بائیں ران پر رکھ کر کافی دیر تک گیم کھیلتا رہا تھا۔ امریکن ماہرین کے مطابق کمپویٹر کا درجہ حرار ت باون ڈگری تک پایا گیاتھا۔
خبردار!!! کہیں آپ اپنے لیپ ٹاپ کا توازن گٹھنوں پر برقرار رکھتے رکھتے کہیں اپنی جلد کے رنگ کو غیر متوازن نہ کر بیٹھیے گا۔ جی ہاں ماہرین کے مطابق کمپیوٹر سے خارج شدہ گرمی آپ کی خوبصورت جلد کا رنگ جلا سکتی ہے) خواتین خصوصا ًنوجوان لڑکیاں ہوشیار رہیں(کیونکہ اس طرح کی خارج شدہ حرارت آپ کی شفاف جلد اس قدر جلا سکتی ہے جس طرح کوئی آگ سیکنے  کے چکر میں ہاتھ یا جسم آگ یا ہیٹر کے زیادہ قریب لے جائے ۔امید ہے یہ مثال کافی ہے۔
اکیس ویں صدی کا خوف:
     آج ہم خوف کی دنیا میں زندہ ہیں۔دانت نکوستی بیماریوں ، کند چھری کی سی سفاکیت لیے مجرموں،بپھرتے سیلابوں ، مچلتے طوفان اور ان سب سے زیادہ روح سلب کرلینے والے دہشت گردی کے واقعات ، نے ہم سے ہماری اصل اور قدرتی خوشی کو ہماری رگوں سے کھینچ کر ان میں خوف کے اندھیرے بھر دیے ہیں ۔اس مادی سیکیورٹی کے دور میں ہر شخص اپنے سائے سے بھی بِدکتا ہے ، اور غیر یقینی کی برف میں منجمد ہوتا چلا جارہا ہے ۔ہماری خوشیوں کی روح تک خوف کے مقبرے میں سسک رہی ہے ،چلارہی ہے، واویلا کر رہی ہے ہم کسی پر بھروسا کرنے کو تیا ر نہیں چاہے کتنا بھی قریبی ہو ،  ایسا ہی ہے ناں ؟؟
یوں لگتا ہے کہ یہ سب معلوماتی دور کی وجہ سے ہے جو ہم کو چاہنے کے باوجود لاعلم نہیں رہنے دیتا اور ہمارے شعور پر انگنت ضربیں لگا لگا کر ہمیں خوف کی دنیا میں دکھیل دیتا ہے ، ٹی وی ، انٹرنیٹ کوئی جائے پنا ہ نہیں ، ان سب سے بچیں تو اخبار ، صبح نہ پڑھ سکیں تو شام کی چائے کو تیزاب کی تلخی سے بھردیتی ہیں ایسی خبریں ۔ ٹوکیے مجھے اگر میں غلط ہوں ۔
ایک امریکن ریسرچ کے مطابق 8000 لوگ ایسے پائے گئے جن میں شک اور وہم کا ایلیمنٹ حد سے زیادہ پایا گیا وہ اپنے اطراف کے لوگوں پر اعتبار کی نظر نہیں ڈالتے اور انہی 8000 لوگوں میں گھلنے ملنے اور روابط بڑھانے کا رجحان کم ترین تھا جب کہ اموات کا بڑھتا ہوا تناسب بھی ایسے ہی مزاج کے لوگوں میں زیادہ موجود تھا ۔
کمپیوٹر گیمز کا نشہ:
     جی ہاں مبارک ہو چائے ، سگریٹ ، شراب ، اور ہیروئین وغیرہ اب پرانے ہوگئے،ہمارے بچے اور شاید میری نسل کے لوگ بھی گیم ایڈیکشن یا کمپیوٹر گیمز کے نشے کی لت میں مبتلا ہیں ، لوگ گھنٹوں اور دنوں اسکرین کے سامنے نظر جمائے گیم کھیلتے ہیں اور جن کو باقائدہ گیمز کا شوق نہیں اور اب وہ بھی جو بچوں کوگیمز سے منع کرتے تھے فیس بک پر ویب گیمز کی لت لگا بیٹھےہیں ، کوئی فارم ولامیں اپنا تصوارتی کھیت اگا رہا ہے ، تو کوئی مافیا وارز نامی فیس بک گیم میں گھنٹوں اپنے دشمنوں کی سپاری لے کر ڈان بن رہا ہے ، اور تو اورنت نئی چیزوں کے شوقین سٹی ویلے نامی فیس بک گیم میں نئے شہر آباد کررہے ہیں   ۔۔۔ حد ہے مصنوعی پن کی! ہے نا ں؟
ماہرین نفسیات کے مطابق گھنٹوں گیم کھیلنا خاص طو ر پر ایکشن اور مارکٹائی والے گیم کھیلنے سے انسان کا جوش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس کی دماغی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق  ویب یا انٹرنیٹ پر موجود گیمز نوجوانوں کی دماغی صحت کے لیے بہت بڑا اور بھیانک خطرہ ہیں ۔
ایسے لوگ خصوصا نوجوان بار بار اس طرح کے گیم کھیلنے سے اصلی دنیا سے کٹ کر تصوارتی دنیا میں جینا شروع کردیتے ہیں ، اور یہا ں سے شروع ہوتی ہے ایک اور دماغی الجھن کی جس کا نام ’’شیزو فینیا ‘‘یا آسان الفاظ میں انسا ن کی شخصیت کا دو حصوں میں ٹوٹ کر غیر متوازن ہوجانا ہے ایک حصہ تصوارت کی دنیا کا باشندہ اور دوسرا اصلی دنیا میں رہنے والا لیکن بیمار ذہن ۔
ایلکٹو سینٹیوٹی (Electro-Sensitivity):
کتنا بھیانک ہے یہ تصور کہ اگر آپ بجلی سے ہی الرجک ہوجائیں ! نہیں نہیں یہ کسی  فلم کا اسکرپٹ نہیں جدید دور کی بیماریوں میں سے ایک ہے سوچیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا دوسرا مطلب آپ کی زندگی سے ٹی وی ، کمپیوٹر ، موبائل ، اوون ، حتیٰ کے ٹرانسپورٹ بھی ختم ، کیا آپ یہ سہہ سکتے ہیں ؟ میرا خیال ہےکہ کوئی پتھر کے دور کاشخص بھی اب ان سب  کے بغیر گزارا نہیں کر سکتا ۔
علامات اس بیماری کی کچھ یوں ہیں ، مسلز میں کھچائو ۔ سر کے اس حصے میں درد جہاں موبائل ٹچ ہوتا ہے ،کال سنتے وقت ، معدے میں مروڑ اٹھنا ، اور یہ سب اس وقت زیادہ ہوجانا جب آپ کسی موبائل یا وائر لیس چیزوں کے قریب ہوں۔اللہ تعالیٰ تمام الیکٹرونکس اور ٹیلی کام انجینیرز کو صحت مند رکھے۔(آمین)
 میرا خیال ہے یہ سب آپ کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے اب اجازت میں، کچھ مزید بیماریوں کے ساتھ پھر کبھی ملاقات ہوگی ، تب تک آپ اپنی جیب بھرلیں کسی ماہر نفسیات کے سامنے خالی کرنے کے لیے۔  ویسے میں  بھی کافی دیر سے کمپوٹر کے سامنے بیٹھا ہوں کہیں میں بھی تو۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ :  زوہیب اکرم۔

 (صاحب تحریرالیکٹرونکس انجینئر،مزاجا ًتحقیق کار اور شوق کے اعتبار سے بلاگر ہیں۔)




ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]