میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

وقت کا امام!!!

وہ نماز فجر سے فارغ ہو کر گھر پہنچے ہی تھے کہ یکایک دروازے پر ایک زور دار دستک ہوئی ۔وہ حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی ہوئے، کیوں کہ آج تک کسی نے ان کا دروازہ اس انداز سے نہیں کھٹکھٹایا تھا۔دوڑے ہوئے گئے مگر بڑے سکون کے ساتھ دروازہ کھولا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک فوجی گھوڑے پر سوار نیزہ ہاتھ میں تھامے کھڑا ہے ۔اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے دریافت کرتے کہ تم کون ہو وہ فوجی فوری طور پر گھوڑے سے اترا اور ان کے مکان میں اجازت لیے بغیر انتہائی بے تکلفی کے ساتھ اندر داخل ہونے لگا ۔

یہ عجیب اور انہونی صورتحال تھی،بہر حال انہوں نے لپک کر اسے روکا اور گرجدار لہجے میں پوچھا کہ :”تم کون ہو ؟ اور یہ کہ میرے مکان میں کیوں گھسے آرہے ہو؟“
اس فوجی نے نیزہ تان کر کہا :”سامنے سے ہٹ جاؤ۔یہ میرا مکان ہے اور میں اپنے ہی مکان میں داخل ہو رہا ہوں ، بلکہ تم بتاؤ کہ تم کون ہو اور یہاں کس غرض سے آئے ہو ؟“
اسی طرح کے سوال و جواب کے تبادلے میں شور برپا ہوا تو پڑوسی جمع ہو گئے ، ان میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے ، جوکہ اس عالم باعمل کے شاگرد عزیز تھے جن کے مکان میں ایک اجنبی فوجی زبردستی اندر داخل ہونا چاہتا تھا۔حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ آگے بڑھے اور اس نیزہ بردار فوجی کو نہایت نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ :”بڑے میاں! اگر آپ کو ٹھہرنا ہی مقصود ہے توکسی اور مکان میں ٹھہر جائیے ۔جب مالک مکان آپ کو ٹھہرانے پر رضامند نہیں تو پھر آپ ضد کیوں کر رہے ہیں ؟“
”جناب عالی !!!آپ مالک مکان کی بات کرتے ہیں ،مالک مکان تو میں خود ہوں ۔اس لیے مجھے کسی سے اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے ؟“
حضرت مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پوچھا :”جناب !!!کیا آپ اپنا تعارف کراسکتے ہیں ؟“
فوجی نے کہا :”میرانام عبد الرحمٰن فرخ رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔“
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے استاد مکرم کی والدہ ماجدہ نے جیسے ہی یہ نام سنا تو انہوں نے اندر سے جھانکا اور اجنبی کو فوراً پہچان لیا اور انہوں نے زور سے آواز دی ”یہ تو میرے بیٹے کے والد محترم ہیں۔انہیں اندر آنے دو ۔واقعی یہ مکان ان کا ہے ۔“
ماں کا یہ کہنا تھا کہ بیٹے نے بڑھ کر باپ کو گلے لگا لیا۔دونوں مل کر خوب روئے مگر یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے ۔  بیٹا اپنے والد محترم کو انتہائی عزت و توقیر کے ساتھ اندر لے آیا ۔ماں نے بیٹے کو بتا یا کہ ابھی تم شکم مادر ہی میں تھے کہ تمہارے والد جہاد کے لیے خراسان چلے گئے اور اب 27 برس بعد لوٹے ہیں ۔
عبد الرحمٰن فرخ  ؒنے بیٹھتے ہی اپنی اہلیہ سے پہلا سوال کیا کہ :”میں نے جاتے وقت 30ہزار اشرفیاں تمہارے حوالے کی تھیں ، وہ کہاں ہیں ؟“
اہلیہ نے بتایاکہ :”گھبرائیے نہیں ۔۔۔میں نے اشرفیوں کو ضایع نہیں کیا ہے بلکہ ایک بہترین مصرف میں لگا یا ہے ۔“
اس دوران عبد الرحمٰن فرخ  ؒ کے بیٹے مسجد نبویﷺمیں پہنچ کر اپنے حلقہ درس میں بیٹھ چکے تھے ۔شاگردوں کا ایک ہجوم ان کے گرد جمع تھا ۔جن میں حضرت امام مالک ؒاور حضرت خواجہ حسن بصری ؒجیسی شخصیات بھی شامل تھے ۔
عبد الرحمٰن فرخ  ؒ جب ظہر کی نماز پڑھنے مسجد نبوی ﷺمیں گئے تو اس نورانی مجمع کو حیرت سے دیکھتے رہے جس سے ایک جید محدث مخاطب تھا اور علم کے موتی لٹا رہا تھا۔وہ محدث اونچی ٹوپی پہنے سر جھکائے درس دے رہا تھا ۔
عبد الرحمٰن فرخ  ؒ نے وہاں ایک شخص سے پوچھا کہ :”یہ شیخ الحدیث کون ہیں ؟“اُس نے کہا ۔۔۔”آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں ، حرانی کی بات ہے ۔یہ ربیعہ بن عبد الرحمٰن فرخ  ؒ ہیں ۔“
عبد الرحمٰن فرخ  ؒ کویہ جان کر اس قدر خوشی ہوئی کہ الفاظ ان محسوسات کی حدت و حرارت بیان کرنےسےقاصر ہیں ۔   عبد الرحمٰن فرخ  ؒ خوشی خوشی دوڑے ہوئے اپنہ اہلیہ محترمہ کے پاس آئے اور جو کچھ مسجد نبوی ﷺمیں دیکھا تھا مکمل طور پر بیان کر دیا ۔
اُس وقت ان کی اہلیہ محترمہ نے ان سے پوچھا کہ :”سچ سچ بتائیے کہ آپ کو اپنے بیٹے کا یہ عظیم مقام پسند ہے یا وہ 30ہزار اشرفیاں کہ جن کا آپ مجھ سے تقاضا کر رہے تھے ؟“
عبد الرحمٰن فرخ  ؒ نے کہا بڑے فخر و انبساط سے کہا:”رب ذوالجلال کی قسم !میں اپنے بیٹے ربیعہ کے اس علمی مرتبہ کو لاکھوں اشرفیوں سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔“
وفا شعار بیوی نے کہا:”میں نے تمہاری وہ 30ہزار اشرفیاں ربیعہ کی تعلیم پر صرف کیں ،اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے وقت کا عظیم امام الحدیث بنادیا ہے ۔“
عبد الرحمٰن فرخ  ؒ نے انتہائی مسرت و انبساط کے ساتھ کہاکہ:”اللہ کی قسم !!! تم نے ان اشرفیوں کو ضایع نہیں کیا۔“
مضمون نگار :  پروفیسر خالد پرویز۔
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]