میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

”دانشوری“پہ کون نہ مرجائے اے خدا

          دیکھیے بات کتنی بڑھ چکی ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ وقت کے بگٹٹ بھاگتے گھوڑے کے پیچھے پیدل دوڑدوڑکر اُس کی لگام پکڑنے اور اُسے پُرانی ڈگر پر واپس پھیرنے کے چکر میں”سلطان لہولہان“ ہوئے جارہے ہیں۔تو کیا یہ ”رجعت پسندینہیں ہے؟
 
        بات یہ ہے کہ گزشتہ دِنوں مہمند ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر سلالہ کے علاقے میں عالمی دہشت گرد ”ناٹوافواج“ نے ایک سوچے سمجھے دانستہ حملے میں ایک میجر اور ایک کیپٹن سمیت پاک فوج کے 26 جوانو ں کو شہید اور 15کو زخمی کردیا،اِس دہشت گردی اور غنڈہ گردی پر پاک فوج کے حکام اور حکومت پاکستان نے جو رویہ اختیار کیا پورے ملک نے اس کی تحسین کی اور کہا: ”ناٹو کو درست جواب دیا گیا، پاکستان اپنا سخت مؤقف برقرار رکھے۔“
 
 
 
         اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور ہمارے دوست ملک چین ہی نے حمایت نہیں کی، روس اور برطانیہ نے بھی پاکستان کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کی تائید کی ہے۔ ملک بھر میں ایک ”عوامی ریفرنڈم“ کی فضا بنی ہوئی ہے۔ گلیوں، کوچوں، ہوٹلوں، بسوں، ویگنوں اور تھڑوں چوباروں پر جا کر دیکھیے کہ خلقِ خدا کیا کہہ رہی ہے۔ مگر ایسے میں بقول دلاورفگارؔ     ؎           
ملّتِ   بیضا   کے   معنی   لکھ   دیے   انڈے  کی  قوم
ایک  علّامہ  نے  اظہارِ  لیاقت  کردیا
........٭٭٭........

          ”علّامہ“ فرماتے ہیں: ”میری رائے میں ہمیں امریکا کے ساتھ سر کے بل ٹکرانے سے گریز کرنا چاہیے ....ہم امریکا کو دوست نہیں سمجھتے تو اُسے اپنا دُشمن تو نہ بنائیں۔“ سبحان اﷲ!!!قربان جائیے آپ دانشوارانہ سوچ پر۔۔۔
          ”دوست“کے ہاتھوں اپنے 26 کڑیل جوانوں کی موت پر ہمیں ”دوست“ کو جھک جھک کر سلام کرنا چاہیے، اُس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔جھولی پھیلا پھیلا کر اِن ”مائی باپوں“ کو دُعائیں دینی چاہیے کہ اُن کے مقدس ہاتھوں سے ہمارے پوت، سپوت شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔اپنے بیٹوں کے مارے جانے پر اُس سے ہم نے جو ”محض احتجاج “ کیاہے اورجواُس سے اپنی سرزمین پر واقع اپنا ہی ہوائی اڈہ (شمسی ائر بیس)خالی کرنے کو کہہ دیا ہی، وہ اُس سے ”سر کے بل ٹکرانے “ اور اُسے ”اپنا دُشمن بنانے“ کے مترادف ہے۔
          ایک وہی نہیں، ہماری ہی طرح کے اور بھی کئی ”کاغذی دانشور“(واضح رہے کہ یہ کاغذ بھی اخباری کاغذ“ ہے، یعنی ”نیوز پرنٹ“) کئی بار یہ سوال اُٹھا چکے ہیں کہ:”کیا ہم امریکا کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟،اُن کی صلاح یہی ہے کہ ہمیں اپنے بچوں (بوڑھوں اور خواتین کو بھی) دست بستہ رہ کر غاصب غیر ملکی افواج کے ہاتھوں خوشی خوشی مرواتے رہنا چاہیے۔حتیٰ کہ ایک دِن ہم سب ”دوست“ کے ہاتھوں مارے جائیں۔وہ بڑے طنز سےکہتے ہیں کہ ہمیں ”غیرت گروپ“ یا ”غیرت مند دستوں“کو شہ دینے کے بجائے دُشمن کامقابلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ اسی میں بہادری کا راز پوشیدہ ہے، ”سپر پاور جارح“ سے مقابلہ کرناانتہائی بے وقوفی، بے غیرتی اور بزدلی کی بات ہے۔
”دانشوری“ پہ کون نہ مرجائے اے خدا
........٭٭٭........

          اﷲتمام” کاغذی دانشوروں“ کی عمر میں برکت دے۔ انھیں سلامت رکھے۔اور”دوستکے ہاتھوں مارے جانے سے بچاتا رہے۔ کیوں کہ اُن کی ”دانشوری“ سے صرف اُنہی کی دال روٹی نہیں چلتی، ہم جیسے مسخرے کالم نگاروں کی دال روٹی بھی اُنہی کے طفیل چل رہی ہے۔پوچھیے:”وہ کیسے؟وہ ایسے کہ بابائے کالم نگاری ”آداب عرض“(پہلے ”حریت“اورپھر”جنگ“میں) لکھنے والے باباجی، مرحوم نصراﷲخاں بلاناغہ کالم نگاری کیا کرتے تھے۔
          1984ءمیں جب ہم نے”زیروزبر“کے مستقل عنوان سے باقاعدہ اور روزمرہ کالم نگاری کا آغاز کیا تو ایک روز پریشان ہوکرخاں صاحب کے دروازے پر دستک دی اور پوچھا:”قبلہ! مرغی بھی سال بھر بلاناغہ انڈا نہیں دیتی۔ بالآخر ”کُڑک“ ہوجاتی ہے۔مگر آپ کو کبھی کُڑک ہوتے نہیں دیکھا۔ آخر آپ سال کے 365 دِن ہر روز ایک نیا فکاہیہ بلکہ مزاحیہ کالم کیسے لکھ لیتے ہیں؟باباجی مسکرائے اور فرمایا: ”میرے عزیز! میرا معمول ہے کہ ہر روزصبح اُٹھ کر اخبار اُٹھانے سے پہلے ہاتھ اُٹھاتاہوں اوررازقِ حقیقی سے دُعا کرتاہوں کہ ’یااﷲ! آج کسی بڑے آدمی نے کوئی حماقت کی بات کہی ہوتاکہ دال روٹی چلے‘اور یقین مانو کہ شاید ہی کسی دِن مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہو“۔ اِس جواب سے ایک اور سوال ذہن میں کُلبلایا: ”مایوسی کے دِن.... یعنی جس روز بڑے آدمیوں سے یہ حماقت سرزد ہوگئی ہو کہ کسی نے حماقت کی کوئی بات نہ کی ہو.... اُس روز آپ کیاکرتے ہیں؟جواب ملا:”عزیز من! اُس روز مجبوراً اپنی ہی حماقتوں پر گزارہ کرنا پڑتاہے“۔ تب اِس عاجز پر کھلا کہ کیوں کہا گیا ہے کہ:
راہِ    مضمونِ     تازہ      بند    نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن
           کیوں کہ جس طرح آج کل لوگ SMS پر ”فراز“ کے نام سے شاعری کررہے ہیں، اِسی طرح اسداﷲ خاں غالب کی کسی ”ڈمی“ نے غالب کے نام سے بھی یہ شعر کہہ رکھاہے:
احمقوں   کی   کمی  نہیں  غالب
ایک   ڈھونڈو   ہزار   ملتے   ہیں
          یہاں تو نہ ڈھونڈو تب بھی ”ملنے“ کے بہانے خود تلاش کرلیتے ہیں۔
........٭٭٭........
          صاحب نے ایک دعوئ دانشوری یہ بھی کیا ہے کہ امریکا کے خلاف (پاکستان میں)اشتعال پھیلانے والے خود سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔یہ دعویٰ درست ہوتا اگر مراد ”ریمنڈ ڈیوس“ سے ہوتی۔مگر مراد اُن لوگوں سے ہے جو ”امریکی بالادستی کے خلاف نعرے لگاتے ہیں“۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ امریکا تو چاہتا یہی ہے کہ ہم اُس سے لڑجائیں اور سُولی پر چڑھ جائیں۔کیوں کہ:”امریکا نے بڑی باریکی سے پاکستان کو اپنا دُشمن بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، اگرپاکستانی مرمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے توامریکی ناٹک کیسے آگے بڑھ سکتاہے؟وہ فرماتے ہیں:”امریکی دعوتِ مبارزت پر اکھاڑے میں اُترنا بہادُری ہے یا امریکا کو اس خطے سے نکلنے کے لیے راستہ دینا دانش مندی ہے“۔
          آگے بڑھنے سے پہلے ایک دلچسپ سوال پیدا ہوگیا:”امریکا ہم سے لڑنا چاہتاہےیا اِس خطے سے نکلنا چاہتاہے؟“ اور یہ کہ آخر وہ کون سی طاقتور، منظم، تربیت یافتہ اور ”سپریم پاورفوج“ ہے جو خطے میں سرکے بل گھس آنے والی سپرپاور کو ”خطے سے نکلنے“ پر مجبور کررہی ہے؟ امریکا ہی کو نہیں، سات ممالک کی سات لاکھ سے زائد بہترین، تربیت یافتہ اور جدید ترین و نفیس ترین اسلحہ سے لیس ٹڈی دَل افواج کو؟
کوئی   تو   لے   گیا   تِری  نیندوں  کی  نرمیاں
اے حیلہ جُو! وہ میں نہ ہوا، دوسرا ہوا
          چلیے ہم تو امریکا سے مقابلہ کرہی نہیں سکتے۔ کیوں کہ ہماری عسکری صلاحیت کا بھی صاحب نے یہ کہہ کر مذاق اُڑایا ہے کہ:”ہم اپنے ایٹمی پٹھے لہراتے ہیں اور میزائیلوں کی گھن گرج کا ڈراوا دیتے ہیں“۔(یہ کھلونے اور کس لیے ہوتے ہیں؟)ہر چند کہ اُنہوں نے اِس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ”....پاکستان اصل نشانہ ہے“۔ پھر بھی ان کا خیال ہے کہ
”اگرہم ایک غیر متوازن مقابلے سے بچ سکیں“ تو امریکا مارے شرمندگی کے رومال سے مُنھ چھپائے یہاں سے فی الفور دفعان ہوجائے گا۔“
مصنف  :  ابو نثر۔(اسلام آباد)
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]