میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

بیوی کا عاشق(حصہ اول)

 کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُس کا خاوند اُس کے لیے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کے لیے  شعر کہتا تھا۔عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیاکہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟یا  وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟یا وہ بہت زیادہ عیال دار اور بچے پیدا کرنے والی عورت رہی ہے؟یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟
تو عورت نے یوں جواب دیا کہ:
”خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کی ذات کے  بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت  کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر  یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی  بھر سکتی ہے۔مت سوچیئےکہ  مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی  مالدار عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُن کے مال متاب سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے۔اور نا ہی عیالدار اور بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی خوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دس دس بچے  پیدا کئے مگر نا خاوند اُن کے مشکور ہوئے اور نا ہی وہ اپنے خاوندوں سے کوئی خصوصی التفات اور محبت پا سکیں بلکہ طلاق تک نوبتیں جا پہنچیں۔اچھے کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں رہ کرمزے مزے کے کھانے پکا کر بھی عورتیں خاوند کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پاتیں۔“
 تو پھر آپ ہی بتا دیں اس  پُرسعادت اور خوشیوں بھری زندگی  کا کیا راز ہے؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان پیش آنے والے مسائل اور مشاکل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
اُس نے جواب دیا:
”جس وقت میرا  خاوند غصے میں آتا تھا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں( نہایت ہی احترام کے ساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کےساتھ خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلک رہی ہو اور نا ہی  مذاق اور سخریہ پن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو  بھانپ لیا کرتا ہے۔“

اچھا تو آپ ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
اُس نے کہا:
”خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُس کا  نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی، خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور و شرابے والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام کاج میں مشغول ہو جاتی تھی، بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور بھگانے کی کوشش کرتی جو میری خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔“

تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کے لیے  لا تعلقی اختیار کرلینا اور خاوند سے ہفتہ دس دن کے لیے  بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
اُس نے کہا:
”نہیں، ہرگز نہیں،  بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دو رُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کے لیے  یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ  اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کے لیے  بولنا چھوڑو گی تو  اُس میں  تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی استعداد آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے  بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کے لیے  آکسیجن کی مانند ہو اور تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا ہے تو ٹھنڈی اور لطیف ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی۔“

اُس کے بعد آپ کیا کیا کرتی تھیں؟
اُس عورت نے کہا:
”میں دو گھنٹوں کے بعد یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس کا ایک  گلاس یا پھر گرم چائے کا یک کپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سلیقے سے کہتی، لیجیے  چائے پیجیے ۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہوتا تھا۔ میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اس طرح ہوتی تھی  کہ گویا  ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں۔جب کہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔جب کہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویئے کی معذرت کرتا تھا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔“

تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں، بالکل، میں اُن باتوں پر بالکل یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں۔
کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھ سے غصے میں کہہ ڈالتا تھا اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے پر سکون حالت میں کرتا تھا؟ غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا، تم مجھ سے کیونکر منوانا چاہتی ہو کہ میں اُس کی غصے کی حالت میں کہی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا کروں؟

تو پھر آپ کی عزت اور عزت نفس کہاں گئی؟
کاہے کی عزت اور کونسی عزت نفس؟ کیا عزت اسی کا نام ہے تم غصے میں آئے ہوئےایک شخص کی تلخ و ترش باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرےاور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!
میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُن کی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔

جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل کے اندر موجود تو ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔
مضمون نگار :  محمد سلیم ملتانی ۔(عرف حاجی صاحب)
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]