میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

جاپانی:ایک تاریخ ساز قوم

آج سرِشام مزاجِ من  کچھ ناگفتہ بہ تھا۔میری کچھ مہینوں سے یہ عادت ہو چلی ہے کہ جب بھی مزاجِ من  ذرا سا بھی بوجھل ہوجائے تو میں اپنی گلی کے نکڑ پہ ’’اچانک ہوٹل‘‘ میں چائے کی کچھ چسکیاں لینے وارد ہوجاتا ہوں حالانکہ میرے دعاگو(ناقدین )بھی یہ خوب جانتے ہیں کہ میری چائے سے کچھ ساس بہو سا رشتہ ہے۔
  ابھی گرم گرم چائے نے اپنا سفر ہی شروع کیا تھا کہ ایک چہرے نے مجھے چائے سے اپنی پرانی دشمنی (گرم چائے کو ٹھنڈا ) کرنے پر آمادہ کر لیا ۔یہ صاحب ہمارے سابقہ مالک مکان تھے ، جاپاک(جاپانی اور پاکستانی ملاوٹی نام جواہل محلہ نے دیا تھا)نام سے  پکارے جاتے تھے ،موصوف اپنی عادات کی وجہ سے کافی ہر دلعزیز تھے مگر اپنی بیگم کی وجہ سے کہیں کے بھی نہیں تھے۔حضرت والا نے اپنی جنبشِ جسم (ضعف العمری کی وجہ سے جسم کا کپکپانا)سے قبل کے ایام جاپان میں ہی گزارے تھے، واپسی وطن پر پتا چلا کہ ساری عمر کی کمائی ناز و نعم اور شکِ بیگم(پھر کبھی بتائیں گے!!!) کی نظر ہوئے عرصہ دراز ہو چکا ہے ۔
میرے ناقص عقل و فہم نے سرعت سے یہ فیصلہ صادر کیا کہ آج کی یہ عصرانہ نشست جاپان کے نام کی جائے اور ہم نے اسی کی خاطر اپنی نشست سے کھڑے ہو کر ’’خوش آمدید ، خوش آمدید‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔جاپاک چاچا نے حسب ِ سابق مسکراتے ہو ئے ہماری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ہماری طرف ہی مائل بہ جسم ہو گئے ۔علیک سلیک اور ایک طویل رسمی گفت و شنید کے بعد ہم نے ان کی پھڑکتی رگ (جاپان)پر ہاتھ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔’’جاپان‘‘ ان کے لیے سب کچھ تھا، ان کی اپنی زندگی آج کل کچھ جاپانی،  جاپانی سی ہوگئی تھی مگر ان کی غمناک نیناں اس لفظ سے ہی شاداں و فرحان ہو جاتی تھی ۔
چاچا !!!کیا جاپان حالیہ سونامی کے بعداز سر نو ’’جاپان‘‘ بن سکے گا؟؟؟کیا ٹوکیواپنی عالمی ساکھ بر قرار رکھ سکے گا؟؟؟کیا جاپانی قوم اس سانحہ سے باہر نکل سکے گی ؟؟؟میرے ان سوالات نے چاچا کو فوری طور پر سنجیدہ کر دیا ۔
بیٹا!!! دنیا کو وہی قومیں مسخر کرسکتی ہیں جو اپنے آپ کو مسخر کرنے کے فن سے واقف ہواور جاپانی قوم اس فن سے اچھی طرح واقف ہے ۔مجھے اس بات پر سو فیصد یقین ہے کہ جاپانی قوم پہلے سے بھی زیادہ بہترین قوم بن کر ابھرے گی ۔
ابھی ہماری گفت و شنید کا سلسلہ ابتدائی مر حلہ میں ہی تھا کہ جا پاک چاچا کا بیٹا انہیں گھر میں مہمانوں کی آمدکاعندیہ دے کر اپنے ہمراہ لے گیا ۔۔۔اور ہم اس ناگہانی بلاوے پر سر پکڑ کر ہی رہ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رہے کہ اس نصف ملاقات سے قبل بھی کئی چھوٹی بڑی  ملاقاتیں ہمارے  زیست کا حصہ رہی ہیں ۔ان میں سے ایک ملاقات میں جاپاک چاچا نے جاپانی قوم کے حوالے سے اپنے تجربات کچھ اس طرح سے بیان کیے تھے کہ ہم اندر ہی اندر اسی قوم کو سلام پیش کیے بغیر نہ رہ سکے ۔اب اُن کی اُن باتوں میں کہاں تک سچائی ہے ، اسے جانچنے کا کوئی پیمانہ میرے پاس نہیں ہے ۔اگر آپ کے پاس کوئی پیمانہ یا آپ براہ راست اس قوم سے وابستہ رہے ہوں تو اپنے تجربات سے ہمیں بھی آگاہ کیجیے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بھی جاپاک چاچا کے تجربات انہی کی زبانی پڑھ لیجیے  ۔۔۔
”جاپانی قوم صرف مسلمان نہیں ہے اگر یہ قوم مسلمان ہوتی تو میں بلا مبالغہ یہ کہتا کہ اپنے اعلیٰ رویوں اور احترام ِانسانیت کی وجہ سے دنیا میں جنتی قوم ہوتی ۔“
”جاپانی ریاستی ادارے اپنی عوام سے کبھی جھوٹ اور دغا نہیں کرتی ،ہمارے پاکستان میں تو محکمہ موسمیات جب بھی بارش کی پشین گوئی کرتی ہے تو خاص طور پر ان ہی دنو ں میں بارش نہیں ہوتی۔
جاپان میں باس سے میری اچھی علیک سلیک ہوگئی تھی،باس میری رائے کو اہمیت دیتے تھے اور میں ان کے احکامات کی بجاآوری میں کوتاہی نہیں کرتا تھا، اس لیے وہ مجھے اور میں ان کو پسند تھا۔
”ایک مرتبہ صبح باس دیر سے آئے اور کافی پریشان دکھائی دیے ، ہمارے آفس کے لوگوں نے مجھے استفسار کے لیے بھیجا، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ جب میں صبح آفس کے لیے نکل رہا تھا تو ایک بلی میری گاڑی کے ٹائر کے نیچے آنے کی وجہ سے زخمی ہوگئی ، میں اسے فوراً اسپتال لے گیا وہا ں دس ہزار ین لگا کر اس کا علاج کیا گیا ، جان تو بچ گئی ہے مگر وہ زندگی بھر میری وجہ سے لنگڑا کر چلے گی ۔اس کا مجھے شدید افسوس ہے ۔میں فوراً یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمارے ملک میں توانسان انسان کو مار کر بھی نہیں پوچھتاکجا کہ حیوان۔“
ایک مرتبہ ہمارا قیمتی سامان گودام سے باہر پڑا ہوا تھا ۔اسی دوران آسمان میں گہرے سیاہ بادل چھا گئے ، میں دوڑا دوڑا باس کے آفس میں گیا اور سارے معاملے سے آگاہ کیا ، مگر باس نے مسکراتے ہو ئے کہا کہ ابھی بارش ہونے میں پون گھنٹہ باقی ہے اس وقت تک ہم اپنا سارا سامان گودام میں منتقل کر لیں گے ۔اور وہی ہوا جو باس نے کہا تھا۔ اس میں آپ اس کہاوت کو مت لائیے گا کہ ”Boss always right“ بلکہ اس کا سارا کریڈٹ  جاپان کی محکمہ موسمیات کو جاتا ہے، جس  کی پشین گوئی میں لمحہ بھر کی اتار چڑھاؤ کا امکان بھی نہیں رہتا۔ “
”ایک مرتبہ جاپانی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کوایک منٹ کی ضروری لوڈ شیڈنگ کرنی تھی ، اس کی وجہ سے انہوں نے مہینے بھر کی اشتہاری مہم کے ذریعےعوام سے  معذرت  طلب کی۔اس کے بدلے میں پورے دن کا بل  معاف کیا گیا۔کیوں کہ ان کے مطابق عوام کو تکلیف ہوئی ہوگی۔اور ہمارے ہاں معذرت تو دور کی بات لوڈشیڈنگ کی اطلاع بھی گوارا نہیں ۔ “
”جاپان کی عوام گھروں میں تیز آواز میں میوزک نہیں بجاتی ، کیوں کہ اس سے پڑوسی کو تکلیف ہوتی ہے۔جس کو بجانا ہو تو وہ آؤٹ ڈور کا پھر ساؤنڈ پروف کمرے یا تہہ خانے کا استعمال کرتا ہے۔جب کہ ہمارے ہاں تو منع کرنے پر اور زیادہ اونچی آواز میں شور مچایا جاتا ہے ، چاہے پڑوس میں کوئی بیمار مر ہی کیوں نہ جائے ۔ “
”جاپان میں گاڑی اوورٹیک کرنے کے لیے بھی ہارن نہیں بجایا جاتا بلکہ انتظار اور لائٹ کا استعمال کیا جاتا ہے ، تاکہ دوسرے کو ہارن کے بجانے سے تکلیف نہ ہو۔اور جب راستہ دے دیا جائے تو مخصوص انداز میں راستہ دینے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔“

باتیں تو کئی ہیں ،مگر ۔۔۔۔۔

سوچتا ہوں کہ بحیثیت مسلمان جو خاصہ ہمارا ہونا چاہیے تھا ، وہ ان جاپا نیوں کا ہے ۔اس لیے وہ کامیاب ترین قوموں میں سے ایک ہے ۔
ان کی کامیابیوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مسلمان کرکے آخرت میں بھی کامیاب کر ے ۔ (آمین)

  ::::::::: حالیہ تباہ کاریاں ”مجموعۃ الیوسف البریدیہ“ کے تعاون سے ملاحظہ فرمائیے  :::::::::




مضمون نگار :  ابن ساحل۔(بہ کی بورڈ خود)