”ہمیں انقلاب کی ضرورت نہیں رہی! “
”ہم بہت باہمت قوم ہیں، ظلم سہتے سہتے ہماری نسلیں گزر گئیں لیکن ظلم کی اس رات کو سحر کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی،ہم حالات سے سمجھوتہ کر چکے ہیں اپنے حالات میں رہنا ہمیں مزہ دیتاہےکسی تبدیلی سے ہم ڈرتے ہیں کہ نہ جانے اس تبدیلی کے بعد ہم اس حالت میں بھی ہوں یا نہیں“۔
میں نے کہا کہ انقلاب یا تبدیلی کے لیے ایک طویل جدوجہد درکار ہوتی اور ہم نے تو اب تک تبدیلی کی طرف سفر شروع ہی نہیں کیا۔
کہنے لگا آپ کی بات ٹھیک لیکن کوئی بھی انقلاب ہو اسکی ایک خاص تاریخ ہوتی ہے لیکن انقلاب کی وجہ کوئی نہ کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ بنتاہے جو اس انقلاب کاسبب جاتا ہےجیسے تیونس میں ایک نوجوان کی خودکشی کے واقعے نے تبدیلی کی بنیاد رکھ دی،لیکن ہم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں ہمارے پہلے وزیر اعظم کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا لیکن لوگ خاموش رہے،چار مرتبہ ملک میں مارشل لاء لگا لیکن کوئی آواز نہیں اٹھی،دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دولخت ہوگئی ، ملک امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا،ایک حکمران نے اپنے ہی لوگوں کو ڈالر کے عوض بیچ دیا، ڈرون حملوں نے معصوم بچوں اور خواتین کو لہو میں نہلا دیا،ملک کے سب سے بڑے شہر میں ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ سے ہزاروں ماؤں کی گودوں کو اجاڑ دیا گیا ،ایک غیر ملکی نے دن ڈیہاڑے تین لو گوں کا قتل کیا ان کی ویڈیو تک بنائی لیکن اسے بھی بغیر کسی سزا کے باعزت طریقے سے اس کے ملک پہچا دیا گیا لیکن قوم پھر بھی کھڑی نہ ہوئی !
اس لئے میرے بھائی ہمیں اب کسی انقلاب کی ضرورت نہیں رہی،یہ سب باتیں میں نے آپ سے کیوں کہیں؟مجھے نہیں پتہ میں معذرت چاہتا ہوں آپ بھی اپنا کام کریں ورنہ اپنے باس کی جھاڑ پڑ جائے گی۔
یہ کہہ کر وہ اٹھا مصافحہ کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔اس کے جانے کے بعد بھی اس کے الفاظ میرے ذہن میں گونجتے رہتے ہیں کہ:
”ہمیں انقلاب کی ضرورت نہیں رہی!“
آپ کا کیا خیال ہے؟
مصنف : ثاقب صغیر
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]