مدارس اسلامی احیاء کی ممد و معاون سب سے اولین اور بہترین صورت ہیں ۔مدارس لارڈمیکالے کے نظام تعلیم سے مستفیض شدہ اذہان و قلوب کے حلقوم کےکانٹے بنے ہوئےہیں ۔ بقول شاعر
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
وہ فقط اللہ ہو ، اللہ ہو ، اللہ ہو !!!
اب یہ ایک عام خیال ہو گیا ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل طلباء اپنےمعاشرے کے لیے تو فائدہ بخش عنصر بننے کے بجائے طیفیلے (Parasites) بن جاتے ہیں ۔دوسرے یہ کہ ان ہی مدارس کے زائیدہ عناصر ہوتے ہیں جو ہر اس اقدام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں جو بنی نوع کی ترقی کے لیے اٹھایا جاتا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اب ان مدارس سے نہ کوئی شاہ ولی اللہ پیدا ہوتا ہے نہ ابن سینا ، نہ غزالی ، نہ ابن رشد ، اس مخلوق میں نہ وسعت نظر آپاتی ہے نہ جرأت ِ افکار نہ مستی کردار !!!یہ ابو حنیفہ اور شافعی کو پڑھتے چلے آرہے ہیں مگر خود ان میں کوئی ابو حنیفہ کوئی شافعی نہیں پیدا ہو تا ۔نئی فکر یا ذاتی تفکر کے نام سے کانپتے ہیں اور (Initiative) لیتے ہوئے ڈرتے ہیں اور لوگوں میں تقلید ِ جامد ، غیر سائنسی خیالات اور مذاہب کے نا تربیت یا فتہ تصور کو پھیلانے میں ایک وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔
ہمارے مفکروں میں ایک طبقہ کا خیال ہے کہ اس نظام تعلیم ہی کو مر یکم پلٹ دینا چاہیے کہ یہ قطعی ناکارہ ہو چکا ہے ۔ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ اسے جُوں کا تُوں بر قرار رکھنا چاہیے کہ اس کی اپنی ایک افادیت اور اس میں اسلاف کے فیوض و برکات بھی شامل ہیں اور یہ کہ روزگار کا جہاں تک تعلق ہے تعلیم کو ذریعہ معاش بنانا ضروری نہیں اور ۔۔۔۔ اس تعلیم کے بعد ، جیسے کسی دوسری تعلیم کے بعد ۔۔۔۔ کوئی بھی آزاد پیشہ اختیار کیا جاسکتا ہے ۔کوئی ہنر بھی سیکھا جا سکتا ہے !وغیرہ۔ اور ایک تیسرا طبقہ ہے جو اس نظام میں اصلاح کر کے اسے بر قرار رکھنا چاہتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے مدارس کے مخالف مفکروں اور عام رائے دہندوں کی رائے تو پڑھ لیا ہے ۔میں بھی اس معاملے میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں ،میں کوئی مفکر تو نہیں ہاں میں ایک ”مخلص اصلاح پسند“ضرور ہوں ۔میں بھی مدارس کے تعلیمی نصاب وغیرہ میں اصلاح کا خواہش مند ہو ں ۔مگر آج کل جو لوگ مدارس میں اصلاح کا واویلا مچا رہے ہیں ، وہ اس سسٹم سے مخلص نہیں ہیں ،بلکہ ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ اس واویلا کے ذریعے وہ مدارس پر آہنی شکنجے کے ذریعے غیر اسلامی بیرونی آقاؤں کو خوش کر کے ان کے نذرانے حاصل کیے جائیں اورمادر پدر آزاد بے دینی کو پا ک سر زمین میں خوش آمدید کہیں ۔ اسلام کے آخری قلعوں کو پارہ پارہ کردیں ۔ اسلام مخالف طاقتوں کو اسلام پر قدغن لگانے کے لیے ہر دور میں میر جعفر اور میر صادق آسانی سے ملتے رہے ہیں ۔اہل باطل کو اصل میں مدارس میں اصلاح نہیں بلکہ اصلاح کے نام پر مدارس سے اٹھنے والی جہاد و شہادت کی صدا کو ہمیشہ کے لیےحلقوم میں دبا نا ہے ۔کیوں کہ سامراجی قوتوں کو مدارس کی آڑ میں ہر دین دار مسلمان شخص ”دہشت گرد “نظر آتا ہے ۔
ہماری رائے ہے کہ اس مادی دور میں اصلاح کی ضرورت صرف مدارس کو نہیں بلکہ تمام رائج شدہ تمام تعلیمی سسٹم کو ہے کیوں کہ جدید دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے روز بروز اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اعدادوشمار کے مطابق مدارس سے فارغ التحصیل زندگی میں اتنا ناکام ثابت نہیں ہوتے جتنا لارڈمیکالے کے نظام تعلیم سے وابستہ افراد ناکام ہوتے ہیں ۔ کبھی آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ بے روزگاری کی وجہ سے مدارس کے فارغ التحصیل نے اپنی ڈگریا ں جلائی ہوں یا خود کشی کا سہارا اختیار کیا ہو، ہاں یہ جا بجا دیکھا جا سکتا ہے کہ لارڈمیکالے کے تعلیمی نظام سے فارغ شدہ افراد بے روز گاری کی وجہ سے ڈگریاں بھی جلاتے ہیں اور مظاہروں کے ذریعے اپنی روزگار کے حصول کے لیے تگ و دو بھی کرتے نظر آتے ہیں اور ضمیر کی ملامت پر دلبرداشتہ چپ چاپ خود کشیاں بھی کرتے رہے ہیں ۔
اسلامی نظام تعلیم VS لارڈ میکالےنظام تعلیم
اس دور میں اصلاح کی سب سے زیادہ ضرورت مدارس کو نہیں بلکہ لارڈ میکالے کے تعلیمی سسٹم سے وابستہ اداروں کو ہے ۔ کیوں کہ اس سسٹم نے بھی اپنے اہداف پورے نہیں کیے ہیں ، اس نظام سے فارغ شدہ افراداسلامی کم اور بے دین ،سیکولر ،لبرل ، دہریے اور طرح طرح کے غیر اسلامی خیالات کے متوالے ضرور ہوتے ہیں ۔ہمیں اس دور میں ایک اچھے ، مثالی اور اسلامی نظریات سے پیراہن افراد کی ضرورت ہے ۔جو اچھے شہری ہوں اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ بھی ہوں ۔خدانخواستہ پاکستان پر کوئی براوقت آن پڑے یا کوئی بھی پاکستانی سرحدی حدود کی پامالی کرنے کی کوشش کرے گا تو ان مدارس سے فارغ شدہ افراد اپنی جان بھی اس مادر وطن پر نچھاور کرنے سے نہیں چوکیں گے ، جب کہ اس کے مقابلے میں لارڈمیکالے کے نظام سے فارغ شدہ افراد سب سے پہلے راہِ فرار اختیار کریں گے ۔ ناسور سب سے زیادہ جہاں ہو اس کا فوری علاج ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ ناسور پورے تن بدن کو آپاہج کر دیتا ہے، اور اس دور کا تعلیمی ناسورمدارس کے علاوہ تمام ”رائج شدہ نظامہائے تعلیم “ہیں ۔فوری اصلاح کی ضرورت اِنہیں ہےاُنہیں نہیں ۔باقی اہل نظر خوب جانتے ہیں ۔
مصنف: ابن ساحل ۔(بہ کی بورڈ خود)